کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام معروف شاعر‘ ادیب اور صحافی خالد معین کے پہلے ناول ’’وفور‘‘ کی تقریب پزیرائی منعقد ہوئی جس کی صدارت زاہد حسین جوہری نے کی۔ مقررین میں علاء الدین خانزادہ‘ زیب اذکار‘ جاوید صبا‘ ڈاکٹر راشد جاوید رضوی‘ سلمان ثروت‘ ڈاکٹر طارق عزیز اور شاہد اقبال شامل تھے جب کہ ڈاکٹر حنا امبرین طارق نے نظامت کے فرائض انجام دیے انہوں نے کہا کہ کسی بڑے واقعہ کی بنیاد پر ناول تحریر کیے جاتے ہیں لیکن وفور ناول کی بُنت میں کورونا وائرس کا پھیلائو ایک اہم کردار ہے یہ ناول اسی پس منظر میں لکھا گیا ہے لیکن اس میں رومانیت بھی ہے اور سیاسی افکار بھی موجود ہیں اس کا بیانیہ اور کردار سازی قابل تعریف ہیں۔ شاہد اقبال نے کہا کہ وفور آن لائن خطوط پر لکھا گیا ناول ہے‘ یہ ناول نثر بھی اور نثری نظم بھی اس میں عشق کے روّیوں کو جدید پیرائے میں بیان کیا گیا ہے یہ سماجی اور معاشرتی اقدار کا شاہکار ہے اس میں مصنف کا قلم پوری توانائی سے روشن ہے۔ ڈاکٹر سلمان ثروت نے کہا کہ خالد معین ایک کامیاب نثر نگار کے طور پر ہمارے سامنے جلوہ گر ہوئے ہیں ان کا ناول بہ تدریج قاری کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔ اس کا انداز خوب صورت اور دل نواز ہے‘ یہ جدید کمیونی کیشن کا آئنہ دار ہے اس کے مکالمات قابل تحسین اور جان دار ہیں۔ خالد معین نے کہا کہ شاعری میں تو فوری طور پر رزلٹ سامنے آجاتا ہے آپ اشعار سنائیں آپ کو اپنے قد و قامت کا اندازہ ہو جائے گا۔ لیکن نثر ایک مشکل میڈیم ہے۔ میں نے اس ناول میں اپنے آپ کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے اس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے اس میں میری یادداشتیں موجود ہیں‘ میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں ممکن ہے کہ میں اس ناول کا دوسرا حصہ بھی لکھوں۔ ڈاکٹر طارق عزیز نے کہا کہ خالد معین نے اپنے ناول میں اپنے لہو سے چراغِ علم روشن کیے ہیں یہ ناول شاعرانہ انداز میں لکھا گیا ہے۔ اس میں قوس و قزح کی رنگا رنگی اور مزاج میں سادگی ہے اس میں فکر و فن کی بلندیاں ہیں‘ یہ اردو ادب کا سرمایہ ہے‘ یہ حقیقت پسندانہ تحریر ہے اس میں داخلی و خارجی رجحانات ہمارے معاشرے کے عکاس ہیں اس میں انسانی مسائل پر بات کی گئی ہے اس میں کردار نگاری بہت جان دار ہے یہ ایک بلند قامت ناول ہے جس کی ریڈنگ سے ہمارے ذہن کے دروازے کھلتے ہیں‘ ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ جاوید صبا نے کہا کہ خالد معین کا ناول ’’وفور‘‘ خود کلامی کی کیفیت سے سرشار ہے‘ یہ ناولِ ایک عام ناول کی ڈگر سے ہٹ کر لکھا گیا ہے۔ ارشد جاوید رضوی نے کہا کہ پہلے تو خالد معین نے مجھے اچھی شاعری سے حیران کیا اور اب انہوں نے ناول لکھ کر بطور نثر نگار خود کو منوا لیا ہے یہ ناول شاعری کا مزا بھی دے رہا ہے اور نثر کا لطف بھی۔ اس ناول میں تنہائی ہے جس کا نام ’’کوویڈ‘‘ ہے‘ یہ عورت اور مرد کی تنہائیوں کا ذکر ہے پورا ناول دو کرداروں پر محیط ہے حالات و واقعات میں تسلسل ہے‘ ہر کردار اپنی جگہ فٹ ہے پہلی لائن سے آخر تک یہ ناول اپنے قاری پر مکمل گرفت رکھتا ہے۔ علاء الدین خان زادہ نے کہا کہ ہم کراچی پریس کلب کے توسط سے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا حق ادا کر رہے ہیں ہمارے دروازے ہر قلم کار کے لیے کھلے ہوئے ہیں‘ وہ ہمارے ادارے میں اپنا پروگرام ترتیب دیں ہماری خواہش ہے قلم قبیلہ خوش ہو۔ وہ کراچی پریس کلب کے عہدیداران و اراکین کی طرف سے آج کی محفل میں موجود تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خالد معین اب آل رائونڈر قلم کار ہیں کہ نثر و نظم ان کا حوالہ بن چکا ہے‘ ان کا ناول اردو ادب کے سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہے امید ہے کہ خالد معین اپنے قارئین سے دادِ سخن پائیں گے۔ زیب اذکار حسین نے کہا کہ ’’وفور‘‘ عہدِ نو کا ناول ہے۔ خالد معین نے بہت محتاط طریقے سے ناول کو آگے بڑھایا ہے اس کے کرداروں میں فطری بہائو ہے۔ اس ناول میں خودکشی کے رجحانات پر بھی بحث کی گئی ہے اور محبت سازی کے مختلف زاویے بھی منکشف کیے گئے ہیں۔ زاہد حسین جوہری نے کہا وفور ناول کے کردار ہم پر زندگی کی مختلف جہتیں کھول رہے ہیں۔ علی جمال‘ نبیلہ اور نرگس نامی کرداروں نے بھرپور کام کیا ہے اور قاری کے ذہن پر خوش گوار اثرات مرتب کیے ہیں اس وقت ہم کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں لیکن وفور جیسا ناول پڑھ کر ہمیں روحانی خوشی محسوس ہوگی۔ اس موقع پر خالد معین نے مختلف سوالات کے جوابات میں کہا کہ یہ ناول میرے ذاتی تجربات ہیں لیکن کوئی کردار بھی مجھ سے مماثلت نہیں رکھتا۔ یہ میری آپ بیتی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قلم کاروں کی فیملی کے الگ مسائل ہوتے ہیں بعض اوقات وہ مکمل طور پر قلم کار کو سپورٹ نہیں کرتے لیکن خدا کا شکر ہے کہ میری فیملی میری شاعری بھی پڑھتی ہے اور یہ ناول بھی ان کے زیر مطالعہ ہے۔ انہوں نے کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے میرے لیے ایک اچھا پروگرام ترتیب دیا۔ آج کی تقریب میں قلم قبیلے کے بہت سے اہم افراد شریک ہیں اس کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں کے لوگ بھی اس تقریب کا حصہ ہیں میری دعا ہے کہ کراچی میں مزید بہتر امن و امان بحال ہو اور ہمارے ادبی پروگرام منعقد ہوتے رہیں۔