سکون کی تلاش میں بھٹکتا مغرب

603

جدید دنیا کے مسائل میں سب سے اہم اس وقت انسان کا اپنا سکون ہے۔ تمام تر مادی وسائل، بہترین سہولیاتِ زندگی، علاج معالجہ، اوسط عمر میں اضافے اور بہترین تعلیم کے باوجود جدید دنیا کے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت سکون ہے جس کی تلاش میں وہ نت نئے تجربات کی دنیا سے گزرتا ہے اور ہر آنے والا نیا دور اس کے سابقہ دور کے سکون حاصل کرنے والے تمام اقدامات کی مکمل نفی کرتا ہے، یا پھر انسان ازخود اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ جو سکون اس کو درکار تھا زندگی کے ان تجربات نے بھی اس کو وہ فراہم نہ کیا۔ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر دنیا.. سب کے سامنے سکون کا حصول ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور اس کی تلاش میں انسان اور انسانیت نئے تجربات سے گزر رہے ہیں۔
آج کا انسان دولت جمع کرنے کو ہی سکون کی ضمانت سمجھتا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی آج کی دنیا میں سب سے زیادہ بے سکون صاحبِ ثروت افراد ہی ہیں۔ دولت، طاقت اور عزت و شہرت کے باوجود بھی دنیا ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے جو یہ سب کچھ پاکر بھی کسی اور چیز کی تلاش میں ہیں۔ دورِ جدید میں انسانیت کی معراج کوالٹی آف لائف کو قرار دیا جاتا ہے، یہ ایک ایسا مبہم تصور ہے جس کی تعریف ہر ایک کے پاس ایک الگ طور پر موجود ہے۔ گزشتہ دنوں احباب کی ایک محفل جو کہ برطانیہ کے شہر ناٹنگھم میں منعقد ہوئی اس میں بھی یہی بحث کا موضوع رہا۔ برطانیہ جیسے ملک میں اس کوالٹی آف لائف کے باوجود سب سے زیادہ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں اور یہ اب نہ صرف ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے بلکہ اس کو قابو میں رکھنے کے تمام تر اقدامات بھی ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یقیناً نہ تو روزگار ہے اور نہ ہی مکان کا حصول… بلکہ اس کی وجہ ان سب کی سرکاری ضمانت کے باوجود بھی کچھ اور ہے۔ شراب و شباب میں غرق مغرب اب اس میں بھی شاید سرور حاصل نہیں کر پا رہا ہے۔ آپ جس سے بھی بات کریں بظاہر وہ مسکرا کر خندہ پیشانی سے پیش آئے گا، لیکن اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی کرب ایسا ضرور ہوگا جو کچھ کریدنے کے بعد وہ آپ کو خود بتائے گا۔ شراب و شباب، اختلاط اور شکم و شہوت کی مکمل آزادی کے باوجود بھی آج مغرب فطری چیزوں سے بیزار ہے۔ اس کی بڑی وجہ ان چیزوں کا بے دریغ اور بلا کسی روک ٹوک کے استعمال ہے۔
مغرب شراب اور عورت سے شاید اپنی لذت کا خاتمہ کرچکا ہے اور اب شراب کی جگہ مزید نشے لے رہے ہیں اور کئی مغربی ممالک اپنے قوانین میں ترمیم کرکے ان کو جائز قرار دے چکے ہیں۔ اسی طرح جنسی ضروریات کو لامحدود کرکے بھی اب مغرب میں عورت مردوں سے اور مرد عورتوں کی کشش سے محروم ہوتے جارہے ہیں، اور شاید آئندہ دو دہائیوں میں عورت مرد کا فطری تعلق بھی اقلیت میں نظر آئے۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ بظاہر پُرسکون مغرب.. جہاں انسانی اخلاقیات، انسانی عزت و وقار کی ضمانت کے ساتھ ہر چیز کی مکمل آزادی ہے وہ شاید شرفِ انسانیت کو درست طریقے سے ابھی تک سمجھ نہیں پایا۔ وہ انسان جو مسجود ملائک و اشرف المخلوقات ہے اب وہ شرفِ انسانی کو اس قدر بے وقار کردے گا کہ انسان ہم جنس پرستی جیسے گھٹیا ترین عمل میں نہ صرف ملوث ہو بلکہ اس کو قانونی و ریاستی تحفظ حاصل ہو اور اس کو Pride یعنی فخر کا نام دیا جائے تو اس سے زیادہ انسان کی کیا تذلیل ہوسکتی ہے! برطانیہ میں ہم جنس پرستی کی تحریک کو Pride کا نام دیا گیا ہے، اس کے حوالے سے خصوصی ایام و تقریبات بھی اسی عنوان سے منعقد کی جاتی ہیں اور دوسری جانب ہم جنس پرستوں کی شناخت کے لیے بظاہر دلفریب و دیدہ زیب رنگوں کی کہکشاں سجائی گئی ہے، اس کو قوس قزح کے رنگوں سے منسوب کرکے اس کی زندگی کی خوبصورتی یا رنگا رنگی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ لیکن بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ اب ہم جنس پرستی سے بھی آگے نکل کر LGBTQ+ تک پہنچ گئی ہے، اس میں صرف Qplus ہی ایک پوری دنیا کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مرد سے مرد، عورت سے عورت کے تعلق کے بعد اب انسانیت جس بدترین مقام تک جارہی ہے وہ یہی Qplus ہے۔ Q means Queer یعنی وہ افراد جن کی جنسی ضروریات عام عورت و مرد کی جنسی ضروریات سے الگ ہوں۔ یہ وہ عمل ہے جو کہ انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر بنادے گا۔ اس کی اب تک کی تفصیلات کے مطابق جنسی کھلونے کے بعد اب انسان جنسی لذت حاصل کرنے کے لیے مغرب میں جانوروں کا استعمال کر رہا ہے۔ گوکہ اب تک تو جانوروں کے حقوق کے حوالے سے اس کو خلافِ قانون قرار دیا جارہا ہے، لیکن بہرکیف ڈھکے چھپے یہ جاری ہے۔
مرد و عورت ایک دوسرے سے سکون کی تلاش میں غیر فطری طریقے اختیار کرکے بے سکون ہوئے تو اب انھوں نے اپنی ہی جنس میں سکون کی تلاش شروع کردی، اور اس کے بعد کے منظرنامے میں جس کی اب تک صرف چند جھلکیاں ہی نظر آئی ہیں، انسان جانوروں و دیگر کا استعمال جنسی لذت و سکون کے لیے کرنا شروع کردے گا۔ طرفہ تماشا یہ نہیں کہ انسان کیا کررہا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسے قبیح افعال اور گھناؤنے طریقوں کو قانونی تحفظ دیا جارہا ہے۔
مغرب کا تمام تر اسٹینڈرڈ آف لائف کا حامل انسان سکون یعنی اسٹینڈرڈ آف لائف کی تلاش میں جانوروں کی سطح سے بھی شاید پست ترین سطح پر جارہا ہے۔ لیکن شراب و شباب اس کو نہ کل سکون دے سکے تھے اور نہ آج نئے نشے اور نئی جنسی لذات کے افعال اس کو سکون فراہم کرسکتے ہیں۔ بظاہر پُرسکون، خوش و خرم مغرب شاید اندر سے ایسا نہیں جیسا کہ باہر سے نظر آتا ہے۔ مغرب اب سکون کی تلاش میں ایسے اقدامات کرتا نظر آتا ہے جو اس کو شرفِ انسانیت سے بھی گرا رہے ہیں۔ اگر مغرب کی روش یہی رہی تو شاید مغرب کا سورج وقت سے قبل ہی غروب ہوجائے گا۔ لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مغرب کی ہر گند ہم اپنے ممالک میں لاکر اس کو فلاح کی ضمانت سمجھتے ہیں، جبکہ مغرب کی اصل کامیابی کی باتوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے اسلامی جمہوری ملک میں ہم جنس پرستی کی تحریک کی راہ ہموار کرکے کیا ہم مغرب کی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں؟ یا ہم مغرب کی تنزلی کی راہ کو اپنی ترقی کی راہ سمجھ بیٹھے ہیں؟

حصہ