کتاب جو دریچے کھولتی ہے کبھی ماضی کے۔ تو کبھی مستقبل کے ابواب دھکیلتی ہے۔ اور کبھی تصور کی اک نئی دنیا میں لے جاتی ہے۔ دنیائے کتاب کے تمام کردار جو گزرے ہوئے ہوں۔ آنے والے ہوں یا خیالی ہوں ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں۔ ہمارے کان سنتے ہیں اور ہمارے دل محسوس کرتے ہیں انہیں۔۔ کتاب رشتہ قائم کرتی ہے قاری اور کرداروں کے درمیان۔ کتابِ حق ہی کو دیکھا جائے کہ بندہ جب اس کی گہرائی میں اترتا ہے تو دربارِ خداوند میں پیش ہوجاتا ہے۔ وہ رب کا فرمان سنتا ہے۔ وہ اس کی تجلی دیکھتا ہے۔ وہ اس کے خوف سے آنسو بہانے لگتا ہے۔ وہ اس کی رحمت سے مسکرا اٹھتا ہے کہ وہ اپنے رب کو قریب ترین پاتا ہے۔!
معاملہ تو سیرت النبیﷺ کا بھی یہی ہے کہ جب سیرت کی کتاب جزیرہ نمائے عرب کے دروازے ہم پر کھولتی ہے تو الفاظ کی سطور مکہ کی گلیاں بن جاتی ہیں اور ہم آقاﷺ کے شہر میں کھو جاتے ہیں۔ ہم آپﷺ کے ساتھ خود کو ہر منظر میں موجود پاتے ہیں۔
غارِ حرا میں جبرائیل علیہ السلام کی آمد ہو۔ یا رشتے داروں کو دین کی دعوت ہم نے آپﷺ کو پریشانی کے عالم میں دیکھا ہے۔ قبولِ اسلام حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ہو یا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا صحابہ کرام کے ساتھ جوش اور جذبے سے نعرے ہم بھی لگاتے ہیں۔ تکالیف شعب ابی طالب میں محصور ہونے کی ہوں یا غزوہ خندق میں فاقہ کی ہوں۔ مسلمانوں کے ساتھ ان تکالیف پر آنسو ہم بھی بہاتے ہیں۔۔ دھوکا احد کے میدان میں کفار کی طرف سے ہو یا احزاب میں بنی قریظہ کی طرف سے آپﷺ کے ساتھ ہمارا دل بھی ٹوٹا ہے۔ وحی کا نزول ہو یا حکمت کی باتیں علم کی محافل میں صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے ساتھ ہم بھی آپ کو سنتے ہیں۔ہم نے دیکھا ہے آپﷺ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غار ثور میں تسلی دیتے ہوئے۔ صلح حدیبیہ کی شرائط پر صبر کی تلقین کرتے ہوئے۔ آپﷺ کو آپ کی راہ میں کچرا ڈالنے والوں سے لے کر آپ پر تلوار چلانے والوں تک کو معاف کرتے ہوئے۔ اپنوں اور غیروں کے طعنوں کو خاموشی سے سہتے ہوئے۔ ہم نے دیکھا ہے آپ کو قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کرواتے ہوئے اور ان سب کے لئے راتوں کو مغفرت کی دعائیں مانگتے ہوئے۔ انہی کے لئے نہیں دعائیں تو آپﷺ ہمارے لئے بھی مانگا کرتے تھے۔! کہ محبت تو آپ کو ہم سے بھی تھی اور آپﷺ کا ہم سے یہی تو رشتہ ہے۔ محبت کا رشتہ۔! اور ہمارا بھی آپﷺ سے رشتہ ہے۔ اطاعت کا رشتہ۔!
“کیا واقعی۔؟”سوال نے سوچوں کے تسلسل کو توڑا ہاتھ نے قلم کی لگام کھنچی۔ نگاہیں اوپر کو اٹھیں۔
“یا نبیﷺ۔!”زبان نے حرکت کی۔
“ہمارا تم سے رشتہ ہے تو تم ماضی کے محرابوں میں چلے آتے ہو ہم سے ملنے۔ تم سے ہمارا رشتہ ہے تو ہم بھی مستقبل کی دہلیز کو عبور کر آئے ہیں تم سے ملنے !” وہ فرما رہے تھے۔ وہ سامنے موجود تھے۔ تصور حقیقت میں بدل گیا۔ اوردل ہے کہ دھڑکنا بھول گیا۔ آنکھیں ہیں کہ جھپکنا بھول گئی۔۔ زبان ہے کہ ہلنا بھول گئی۔۔ ذہن ہے کہ اس میں کچھ الفاظ اتر آئے:-
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
“کیا نہیں دکھائیں گے ہمیں اِس دور کی گلیاں اور گھر۔نہیں ملوائیں گے اِس کے دور کے لوگوں سے۔؟” وہ سوال کر رہے تھے۔۔
“کیوں نہیں۔! یا رسولﷺ !” زبان نے فوراً حرکت کی۔آنکھیں تعظیم میں جھک گئیں۔ دائیں ہاتھ نے دل کو تھاما تھا۔ مگر قدم ٹھٹھک گئے۔ ذہن نے جھٹکا کھایا۔ “اِس دور کی گلیاں۔اِس دور کے لوگ!”زبان نے الفاظ دہرائے۔ “کیا یہ اِس قابل ہیں کہ آپﷺ اِنھیں دیکھ سکیں۔؟ جس طرح ہم آپﷺ سے مل کر فخر کرتے ہیں کیا ہمارا حال یہ ہے کہ آپﷺ بھی ہم پر فخر کر سکیں۔؟ خیال نے سر اٹھایا۔ دل گھٹنے لگا۔ دماغ ماؤف ہونے لگا۔ ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا۔
سماعت سے کوئی آواز ٹکرائی تو۔ آنکھوں کے دریچے کھلے۔”آہ!یہ خواب تھا۔۔”زبان نے اطمینان دلایا۔ “یہ سوال تھا۔!”دل نے احساس دلایا :”کہ ہمارے نبیﷺ کا ہم سے رشتہ ہے۔مگر کیا ہمارے نبیﷺ سے ہمارا رشتہ ہے۔؟”اور دل ڈوبنے لگا۔