نیکی کی راہ

214

ناصر ایک بہت پیارا بچہ تھا ماں باپ کی آنکھوں کا تارا سب کا راج دلارا۔اس کے گھر میں اس کے امی ابو اور دادا دادی سب مل کر رہتے تھے ناصر کی ایک چھوٹی بہن اور ایک چھوٹا بھائی بھی تھا۔مگر گھر میں جو اہمیت ناصر کی تھی وہ کسی اور کی نہ تھی۔ویسے تو ناصر بڑا اچھا بچہ تھا بڑوں کا کہنا مانتا تھا اور چھوٹے بھائی بہن کے ساتھ بھی اس کا رویہ ٹھیک ہی تھا ۔مگر اس میں ایک بری عادت بھی تھی، یہ شاید بہت زیادہ اہمیت ملنے کی وجہ سے اسے یہ عادت پڑ گئی تھی۔وہ اپنا کوئی کام خود نہیں کرتا تھا اسے ہر کام کے لیے کسی نہ کسی کی مدد درکار ہوتی تھی۔گھر میں دو ملا زم تھے۔ایک اندر گھر کے کام کے لیے کوثر اور گھر سے باہر چاچا خیر دین۔دونوں بڑے نیک طبیعت تھے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔بچے بھی ان سے بہت مانوس تھے۔جب تک ناصر گھر میں موجود ہوتا دونوں نوکر گھر میں بھاگتے نظر آتے۔ کبھی آواز آتی کوثر میرا یونیفارم لانا کبھی آواز آتی چاچا میرا بیگ لانا۔کبھی آواز آتی کوثر مجھے پانی پلانا کبھی آواز آتی کوثر میر ے جوتے لانا ۔ میری کاپی کمرے سے لا کر دینا غرض ایسے تمام چھوٹے چھوٹے کام دن بھر ان بےچاروں کو ہلکان کیے رہتے ۔کچھ کہہ نہیں سکتے کیوںکہ وہ گھر بھر کا لاڈلا تھا ۔اس۔کے برعکس اس کے چھوٹے بہن بھائی اپنے یہ چھوٹے چھوٹے کام خود کرنے کے عادی تھے اس کی چھوٹی بہن سارہ اس کی اس عادت سے بہت چڑتی تھی۔ جہاں ناصر کو موقع ملتا وہ اس کو بھی کام میں لگا دیتا ۔ ربیع الاول کی آمد تھی اسکولوں میں ربیع الاول کے بارے میں پروگرام ہو رہے تھے ۔ناصر کے اسکول میں بھی ایک پروگرام ہونا تھا ۔اس کے دونوں بہن بھائی بھی اسی اسکول میں پڑھتے تھے ۔اور دونوں ایسی سرگرمیوں میں بہت شوق سے حصہ لیتے تھے ۔سارہ نے اس بار اسوۂ حسنہ پر تقریر کرنی تھی اور اس کے بھائی بابر نے نعت پڑھنی تھی۔دونوں کی زوروشور سے تیاری چل رہی تھی۔ناصر پڑھائی میں تو بہت اچھا تھا مگر ایسی سرگرمیوں میں اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
آخر پروگرام کا دن آگیا ۔سب سے پہلے تلاوت کلام پاک ہوئی پھر نعتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے بھائی بابر نے بھی بہت اچھی نعت پڑھی۔اب باری آئ اسوۂ حسنہ پر تقریروں کی دو تین لوگوں نے بڑے اچھے اچھے موضوعات پر تقریریں کیں آخر میں اس کی بہن سارہ کی باری آئی سارہ نے تقریر شروع کی ۔ اس نے اپنی تقریرمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس پہلو کو اجاگر کیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہاتھ سے کام کر نا تھا۔ وہ کہ رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہر کام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے ۔اپنے جوتے خود گانٹھ لیتے (مرمت کرلیتے)اپنے کپڑےبھی سی لیتے ۔بکری کا دودھ دوہتے۔اپنے سارے کام خود کرتےاور اپنے گھر والوں کے کام میں ان کی مدد کرتےان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے۔اپنے نوکروں سے حسن سلوک سے پیش آتے جو خود کھاتے انھیں کھلاتے ۔ان سے رحم دلی سے پیش آتے۔ صحابہؓ کی مدد کراتے ان کے ساتھ مل کر کام کرتے۔ناصر یہ سب سن کر حیرت زدہ تھا۔دل ہی دل میں شرمندہ تھا گھر آکر بھی وہ گم سم تھا ۔آج اس نے گھر آتے ہی چاچا خیر دین کو اپنا بیگ نہیں تھمایا۔بلکہ خود اندر لے گیا چاچا بے چارے حیرت سے اسے دیکھتے رہے پر کچھ نہ بولے۔ اندر آکر بھی اس نے چپ چاپ اپنے کپڑے بدلے اور کھا نا کھاکر اندر چلا گیا۔ اس کی خاموشی کو سب نے محسوس کیا۔امی سمجھی کے شاید اس کی طبیعت خراب ہے لیکن جب اس کی طبیعت خراب ہوتی تو وہ امی کو بھی ایک ٹانگ پر کھڑا رکھتا،بہت ادھم مچاتا۔امی یہ سب سوچتے ہوئے اس کے کمرے میں گئیں کیا دیکھتی ہیں ناصر جائے نماز بچھا کر بیٹھا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے ہیں۔وہ اللہ سے معافی مانگ رہا تھا امی کے آنے کی آہٹ سن کر اس نے جلدی آنسو صاف کیے امی پوچھا کیا ہوا پہلے تو وہ ہچکچاتا رہا پھر اس نے امی کو آج سارہ کی تقریر کے بارے میں بتا یا ۔اور امی سے کہا کہ اب میں ا پنے سارے کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی کوشش کروں گا۔ کوثر اور چاچا کو بار بار اپنے کاموں کے لیے تنگ نہیں کروں گا۔
بلکہ سب کی مدد کرنے کی کوشش کروں گا۔ سارہ چھپ کر امی اور ناصر کی باتیں سن رہی تھی۔مسکرا کر باہر آئی اور کہا بھائی اب تم میری مدد بھی کروگے نہ یہ سن کر امی اور ناصر دونوں ہنس پڑے۔ناصر نے کہا میں ضرور اپنی بہن کی مدد کروں گا بلکہ سب کو بتاوں گا کہ اپنے ہا تھ سے کام کرنا میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ یہ سن کر سارہ نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔او ر اپنے بھائی کے ثابت قدم رہنے کی دعا کی۔

حصہ