انسان بہت سی چیزوں کو اپنا حاجتِ روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا چلا آرہا ہے۔ ان چیزوں میں پہاڑ‘ پتھر‘ دریا‘ جانور‘ درخت اور انسان سب ہی شامل ہیں۔ بعض درختوں کو ان کی طویل عمر اور جسامت کی وجہ سے دیوتا تصور کیا جانے لگا‘ مثلاً برگد اور پیپل‘ مگر بعض درخت اور پودے ایسے بھی ہیں جن کے فوائد نے انسان کو اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ فوائد اس قدر زیادہ تھے کہ اس پودے کی طرف توجہ بڑھتے بڑھتے عقیدت و احترام میں تبدیل ہو گئی اور آخر کار اسے دیوی و دیوتا کا درجہ دے کر اس کی باقاعدہ پرستش شروع کر دی گئی۔ بیماریوں کے علاج کے حوالے سے اگر کوئی پودا سرفہرست ہے جس نے انسان سے اپنی پرستش کروائی ہو تو بلاشبہ تلسی کا پودا ہے۔ تلسی اور کوئی نہیں وہی پودا ہے جسے عربی میں ’’ریحان‘‘ کہتے ہیں۔
قرآن مجید میں کئی مقامات پر ریحان (تلسی) کا ذکر آیا ہے۔ جہاں جہاں جنت میں ملنے والی نعمتوں کا تذکرہ ہوا ہے وہاں ریحان کو بھی گنوایا گیا ہے۔ کلامِ پاک کی سورۃ ’’الرحمن‘‘ اور سورۃ ’’واقعہ‘‘ میں خاص طور پر اس کا تذکرہ ملتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیشتر مقامات پر اس پودے کا تذکرہ فرمایا اور اسے پسند فرمایا ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ نے یہاں تک ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جب تم سے کسی کو ریحان دیا جائے تو لینے سے انکار نہ کرو کیوں کہ یہ پودا جنت سے آیا ہے۔‘‘
بیشتر ہندوئوں کے گھر میں تلسی کا پودا ہونا لازمی ہے بلکہ ایسے مکانات میں جہاں گنجائش زیادہ ہو‘ اسے مکان کے درمیان میں اُگایا جاتا ہے اور اس کے گرد چبوترہ بنا دیا جاتا ہے تاکہ روز اس پودے کے گرد طواف کیے جائیں اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھا جائے۔ اظہارِ عقیدت کے بعد اس کی ایک دو پتیاں منہ میں ڈال کر چبائی جاتی ہیں۔ ہندوئوں کے خیال میں اس پودے کی موجودگی برکت کا باعث ہوتی ہے۔
اس پودے کے ساتھ پائی جانے والی مذہبی عقیدت و احترام اپنی جگہ پر درست‘ مگر جب ہم اس کے طبی فوائد کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ بھی حیرت انگیز ہیں۔ ایک چھوٹے سے پودے میں قدرت نے کس قدر صفات پوشیدہ رکھی ہیں‘ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ ایک سدا بہار پودا ہے جو ہر موسم میں سرس بز و شاداب رہتا ہے۔ جڑ کے پاس سے ہی شاخیں نکل کر اسے گھنی جھاڑی کی شکل دے دیتی ہیں جن کے سروں پر خوشے سے لگتے ہیں‘ ان میں باریک باریک پھول ہوتے ہیں۔ پتے بیضوی اور خوشبودار ہوتے ہیں‘ باریک باریک بیج لگتے ہیں جنہیں بھگونے سے لعاب نکلتا ہے اور ان میں بھی خوشبو پائی جاتی ہے۔ اس کا پودا عموماً ایک سے دو گز بلند ہوتا ہے۔ یہ عموماً برصغیر پاک و ہند‘ افریقہ‘ عرب‘ برازیل اور بعض دیگر ممالک میں پایا جاتا ہے۔ اس کی چند اقسام بھی ہیں جن میں سے بیشتر دوا کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔
قدیم اطبا نے تلسی کے فوائد بیان کرتے ہوئے اسے مقوی ٔ قلب اور مفرحِ قلب‘ بلغم کو خارج کرنے والا‘ آنتوں کی خشکی دور کرنے والا اور عفونت کو دور کرنے والا بتایا ہے۔ بھارت میں اس پودے پر بڑی تحقیق کی گئی ہے اور اس تحقیق کے نتیجے میں درج بالا فوائد کی تصدیق کی گئی ہے‘ ساتھ ہی بخاروں کی تمام قسموں میں اسے مفید بیان کیا گیا ہے خاص طور پر ملیریا بخار میں۔ ایام جاری کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ پتوں کا رس پلانے سے پیٹ کے کیڑے ہلاک ہو جاتے ہیں اور سانپ کے کاٹے پر بھی اسے لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔ تلسی کے پتوں کو تازہ استعمال کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے ورنہ سائے میں خشک کرکے بھی رکھا جاسکتا ہے۔ تین گرام یا ایک چائے کے چمچ کے برابر پتے لے کر ایک پیالی کھولتے ہوئے پانی میں ڈال لیں اور چولہے سے اتار لیں‘ اسے ڈھانک کر چائے کی طرح سے دَم دیا جائے۔ دس منٹ بعد پانی چھان کر اس میں شکر یا شہد ملا کر پلایا جائے۔ یہ جوشاندہ نزلہ کی بیشتر قسموں میں بڑا فائدہ پہنچتا ہے۔ اسے کھانسی‘ دق اور بخاروں میں بھی دے سکتے ہیں خاص طور پر ملیریا اور ٹائیفائیڈ بخار میں۔ ٹائیفائیڈ میں جب کہ دانے جلد کی طرف ابھر نہ رہے ہوں اور بخار کسی طرح سے کم نہ ہو رہا ہو اس جوشاندے کو یا اس کے ساتھ خاکسی تین گرام کی مقدار میں اضافہ کرکے پلانا چاہیے۔ گردے و مثانہ کے ورم اور پیشاب کی جلن میں بھی یہ جوشاندہ مفید ہے۔
تلسی کے بیجوں کو پانی میں ابال کر سر کو دھونا‘ بالوں کو لمبا‘ سیاہ اور چمک دار بناتا ہے۔ سر کی جلد میں دانے یا بھوسی (بفا) موجود ہو تو بھی جاتی رہتی ہے۔ سر درد کی بعض اقسام میں بھی مفید ہے۔ سبز پتوں کا رس نچوڑ کر بھی پلایا جاتا ہے جو پیٹ کے کیڑے خصوصاً بڑے کیڑے ہلاک کرنے میں زیادہ تیز اثر کرتا ہے۔ اس کے رس کو پیشانی پر بھی لگاتے ہیں جس سے سر کا درد دور ہو جاتا ہے۔ جوڑوں کے درد میں بھی اسی طرح سے استعمال کرایا جاتا ہے۔ دانت کے درد میں اس کے تازہ پتے چبانے اور خاص طور پر اس دانت کے نیچے رکھنے کی ہدایت کی جاتی ہے جس میں درد ہو۔ تلسی کے پتوں کے تازہ رس کو برابر وزن شہد میں ملا کر چاٹنا دمے کے دورے میں مفید ہے۔ اس پودے کی تیز بو سے مچھر بھاگ جاتے ہیں اس لیے اسے گھر کے آس پاس لگانے کا مشورہ دیا جاتا ہے اس سے حاصل ہونے والے روغن سے مچھر بھگانے والی بعض ادویہ بھی تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے رس کو جسم پر ملنے کا بھی مشورہ دیتے ہیں۔
اس پودے کو سونگھنا دل کو طاقت دیتا ہے اور اس سے گھبراہٹ رفع ہو جاتی ہے۔ نکسیر کے مریض کو اس کے پتے سونگھنا یا اس کا رس ناک میں ڈالنا خون آنے کو روک دیتا ہے۔ اس کے علاوہ معدے‘ آنتوں یا پھیپھڑوں سے آنے والے خون میں بھی مفید ہے۔ اس میں پائے جانے والے دافع تعفن اثرات کی وجہ سے وبائی امراض کے دوران اسے گھر میں اور مریضوں کے پاس رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
تلسی کے بیج (تخم ریحان) بھی بکثرت استعمال کیے جاتے ہیں۔ انہیں پیاس بجھانے اور شربتوں کو خوش بودار و گاڑھا کرنے کے لیے عام طور پر موسم گرما میں اور رمضان المبارک میں ہر گھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک قسم جو کہ جسامت میں بڑی ہوتی ہے اور جسے تخم بالنگا کہا جاتا ہے‘ فالودے میں ڈالی جاتی ہے۔ یہ پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ جسم کی خشکی اور معدے و آنتوں کی خشکی رفع کر دیتے ہیں۔ ان کا لعاب آنتوں اور جگر سے سُدّوں کو خارج کرتا ہے۔ گھبراہٹ‘ وحشت اور جنون جیسے امراض میں مفید ہے۔ اس غرض سے انہیں بعض ادویہ کے ساتھ جوشاندوں میں شامل کیا جاتا ہے یا بعض خمیروں مثلاً خمیرہ گائو زبان وغیرہ کا ایک اہم جزو بنایا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سینے کے بوجھ کو کم کرتے ہیں اور وہاں جمے ہوئے خون کو تحلیل کرتے ہیں۔ اس طرح قلب کے بعض امراض میں بھی ان سے فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے۔ بیجوں کا لعاب پیشاب کی جلن دور کرنے میں بہت مفید ہے اور اس کی وجہ سے پیشاب کھل کر آنے لگتا ہے۔ یورک ایسڈ کے اخراج میں بھی فائدہ کرتے ہیں۔
تخم ریحان کو کوٹ کر کسی روغن یا سرکہ میں ملا کر جوڑوں کے درد رفع کرنے کے لیے لیپ کرتے ہیں۔ چوٹ لگنے کے بعد ہونے والے درد و ورم میں بھی یہ بڑا سکون پیدا کرتے ہیں۔ یہ لیپ جلدی امراض مثلاً پھوڑے‘ پھنسیاں‘ ایگزیما‘ بال چر اور حساسیت (الرجی) سے پیدا ہونے والی خارش میں مفید ہے…۔ اگر تخم ریحان کا لعاب بواسیری مسوں پر لگایا جائے تو ان کی جلن و تکلیف دور ہو جاتی ہے۔ خواتین اندرونی سوزش رفع کرنے کے لیے اسے استعمال کر سکتی ہیں۔ تخم ریحان کے مسکن اثرات سب سے بہتر طریقے پر تیزابیت معدہ اور معدے میں زخم کے مریض محسوس کرتے ہیں درد‘ جلن کے وقت چائے کا ایک چمچہ تخم ریحان پانی میں بھگو کر پلائے جائیں تو فوری طور پر سکون پیدا ہو جاتا ہے‘ تیزابیت کم ہو جاتی ہے اور زخموں کے بھرنے میں بھی مددگار ہوتے ہیں۔ بعض اطباء کی رائے میں اگر ایک چمچہ چائے کا ریحان ایک پیالی پانی میں جوش دے کر اور چائے کا ایک چمچہ شہد ملا کر سوتے وقت پلایا جائے تو نیند اچھی اور گہری آتی ہے۔
تلسی کا جب کیمیاوی تجزیہ کیا گیا تو اس کے پتوں سے ضروری روغنیات حاصل ہوئے ان میں سے ایک کو کچھ دیر کھلی ہوا میں چھوڑا جائے تو خشک قلمیں سی بن جاتی ہیں۔ ان سے بھارت میں بڑی مقدار میں کافور بنایا جارہا ہے جو کہ ’’کافور مشکی‘‘ کہلاتا ہے اور کافور کی اچھی قسم سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح بھارت میں کافور ارزاں ہو گیا ہے۔ تلسی میں کچھ کیمیاوی اجزا ایسے ملے ہیں جو کہ لونگ میں پائے جاتے ہیں اور دانتوں کی تکلیف میں مفید ہیں اور چند ایسے ہیں جن کی دھونی فضا کو معطر کرنے کے ساتھ ساتھ دافع تعفن اور جراثیم کش اثر رکھتی ہے۔
تلسی جسے ہندو محبت و تعلق کی بنا پر تلساں بھی کہتے ہیں اور لڑکیوں کے نام بھی رکھتے ہیں‘ یقینا ایک نہایت مفید اور بااثر پودا ہے جس پر بھرپور توجہ دینے اور اس سے فوائد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔