اس ہفتہ عملاً کچھ نہیں ہوا مگر بہت کچھ ہوگیا۔ ایک اہم معافی اچانک قبول ہوگئی، عمران خان 70 سال کا ہو گیا۔ مریم نواز کو پاسپورٹ بھی مل گیا، کورٹ سے بریت بھی ہوگئی۔ یوںوہ ایک ماہ کے لیے لندن روانہ ہوگیں۔یونہی ملک میں اسحق ڈار آگئے، ڈالر نیچے آگیا۔ سائفر کھو گیا، آرمی چیف نے ریٹائرمنٹ کا واضح اعلان کر دیا‘ امپورٹڈ حکومت گرانے کی جدوجہد تیز ہوگئی، پاکستانی کرکٹ ٹیم خراب کھیل کی وجہ سے انگلینڈ سے سیریز ہار گئی۔ مریم نواز اور عمران خان کے درمیان سوشل میڈیا دنگل جاری رہا۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے لاکھوں سیلاب زدگان سوشل میڈیا کی ظالم دُنیا میں ترجیحات کی فہرست میں ہر قسم کی گنتی سے باہر آچکے تھے۔ کوئی اہم واقعہ ہو جائے اور توجہ مل جائے تو الگ بات ہے۔ مگر اس پوری ’’اٹینشن پالیٹیکس‘‘میں ’’حقیقی داد‘‘صرف عمران خان کو ہی دینی ہوگی جس نے عدم مقبولیت بلکہ بڑی حد تک ( میزبانوں، اینکرزکی) ناپسندیدگی کے باوجود تنقید ہی کے دائرے میں اپنا ذکر کہیں بھی محو ہونے نہ دیا۔ لوگ چالیس چالیس منٹ کے ٹاک شوز میں عمران خان کی گفتگو، خطاب کے معانی و مفاہیم ہی بیان کرتے رہے، حمایت ہو یا مخالفت ذکر عمران ہی کا ہوگا۔ خبریں ہوں تجزیے و کالم ہوں، نیوز ٹی وی چینل کے ٹاک شوز سب جگہ اور سوشل میڈیا کے تو یہ پہلے ہی چمپئن بنے ہوئے ہیں۔
ربیع الاوّل شروع ہو چکا ہے، جشن ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک بھر میں رونقیں اوربہاریں نظر آرہی ہیں۔ عالم اسلام میں بڑے پیمانے پر میلاد شریف بمعنی اظہار خوشی و مسرت اپنے اپنے انداز سے مسلمان اظہار کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک ولادت نبیؐ کے موقع پر اللہ کا شکر ادا کرنا، خوشی کا اظہار کرنا مستحسن عمل ہے جسے وہ قرون اولیٰ میں حضور ؐ کے ہر پیر کو روزہ رکھنے، صحابہ کرام کے مسجد نبوی میں اکٹھے بیٹھ کر نبی کریم ؐ کا تذکرہ کرنے۔ ترمذی شریف میں میلادالنبی کا باب موجود ہونے، حضرت حسان رضی اللہ کے منبر پر حضورؐ کے سامنے ’’وا جمل منک لم تلد النساء‘‘ کے اشعار سنا نے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نعتیہ قصیدہ، کتب سیرت میں حضورؐ کی پیدائش کے جملہ واقعات صحابہ کرامؓ سے مروی ہونا اور لاکھوں علما و مشائخ کی زبردست تائید پر صدیوں سے چلے آنے کے عمل کی وجہ سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انسان جس شخصیت کے ساتھ محبت کرتا ہے تو اُس کے ساتھ اظہار تعلق کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں جو وہ اپنے علم و فہم کے مطابق انجام دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی سیرت النبی کانفرنس کا عنوان سجاتا ہے تو کوئی میلاد النبی کے نام سے۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنی نسل کو رسول اللہؐ کی عظمت و شان سے آگاہ کیا جائے، آپؐ کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کی جائے‘ حضور ؐ کے آخری نبی ہونے کا پیغام دنیا کے ہر انسان تک پہنچایا جائے، ان کے پیغام اور اتباع کے جذبے کے ساتھ ہر طاغوت کا انکار کرتے ہوئے غلبہ دین کے مشن کو تھاما جائے۔
سوشل میڈیا کو لوگ ابلاغی ٹول سمجھتے ہیں، اس کی طاقت بھی محسوس کرتے ہیں، پھر جب سے یہ آمدنی کا ذریعہ بنا ہے تو اس کے لیے اہتمام بھی خوب ہوتا ہے۔ ثنا خوان حضرات کی ایک مستقل بڑھتی ہوئی تعداد ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنی آواز کا درد بلکہ اب تو آواز کے ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھا رہی ہے کیوں کہ اب وڈیو کا کلچر ہے۔ فیس ایکسپریشن کے بھی نمبر ملتے ہیں، کیمروں کی بھرمار ہے، ڈرون کیمرے ہیں، نعت کی فلم بندی اب کسی کمرشل یا فلم کی ٹکر پر ہونے لگی ہے۔ ہمیں یاد ہے 80 کی دہائی تک بلکہ 90 تک سادہ مگر ایک بارعب سے سیٹ پر کھڑے ہوکر نعت خواں نعت پڑھتے تھے، وہی ہم بچپن سے دیکھتے آئے، اس جیسا سوز بعد میں کم ہی سننے کو ملا۔ اس کے بعد جیسے جیسے نجی چینل آئے، ابلاغی رستے بڑھے، انٹرنیٹ آیا، رنگینی آئی اور گلیمر یہاں بھی دبے پائوں داخل ہو گیا کہ ’’اِتا تو چلتا ہے، اِتا تو چلتاہے۔‘‘ بس یہ اِتا ہی تھا مگر اتنا تھا کہ اصل شکل ہی ختم کرگیا۔ اب سوشل میڈیا پر آپ کو نعت کی وڈیوز کی دو بنیادی اقسام ملیںگی۔ ایک تو وہ نعت کی وڈیوز جو کسی گھر، شادی یا کسی محفل نعت میں ریکارڈ ہوتی ہیں اور بعینہ ویسی ہی پزیرائی پاتی ہیں ، ان میں نعت خواں کے لیے کیمرے سے زیادہ اہم سامنے موجود سامعین ہوتے ہیں وہ پوری کوشش کرکے سامعین سے اپنے لیے داد وصول کرتا ہے۔ دوسری جانب نعت کی وڈیوز ہوتی ہیں جو الگ سے تیار ہوتی ہیں، پہلے آڈیو ریکارڈنگ مکمل ہوتی ہے اس کے بعد مختلف مقامات پر جا کر وہ وڈیو ریکارڈ ہوتی ہے۔ اس میں ان کو صر ف نعت کے اشعار کے مطابق ہونٹ ہلا کر‘ چہرے کے تاثرات سے اور کچھ ہاتھ وغیرہ ہلا کر پڑھنے کی ادا کاری کرنی ہوتی ہے۔ اس میں میک اَپ بھی تھوپا جاتا ہے، بہترین کڑھائی و ڈیزائن والے کرتوں کی نمائش بھی ہوتی ہے بلکہ سچ پوچھیں تو مجھے وہ نعتیں کم اور انتہائی گلیمرز مردانہ ملبوسات کی نمائش زیادہ لگتی ہے۔ میں خود نعت شریف صرف سنتا ہوں کیوں کہ دیکھنے سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ یہ بے حسی ایسی شدت سے ہوتی ہے کہ نعت خواں کو کسی بھی لمحے یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ بہترین کرتے و شیروانی میں اپنی خوب صورتی کے اظہار کی نیت کے ساتھ ، کائنات کی جس خوب صورت ترین ہستی کی تعریف بیان کر رہا ہوتا ہے وہ ذات اقدس خود کیسا لباس زیب تن کرتی تھی؟ بات نعت تک ہوتی تو سمجھ میں آتی، اب ہوا یہ کہ پاکستان بلکہ بلاشبہ عالمِ اسلام کے کئی مشہور نعت خواں حضرات نے باقاعدہ ٹرانسمیشن بھی شروع کر رکھی ہیں اورپوری دلجمعی کے ساتھ اس میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ رمضان، محرم، ربیع الاوّل کی نشریات مختلف عنوانات سے پوری چکا چوند ہوکر یوٹیوب پر اترتے ہیں۔
نعت خوانی کے اس پروان چڑھتے میڈیا ریٹنگ عمل نے بیچ میں دف و موسیقی بھی شامل کرا لی تھی۔ اس پر جب دیگر حلقوں سے تنقید کا سلسلہ شروع ہوا تو علما کی جانب سے بالآخر شدید رد عمل آیا۔ اب یہ ساری محافل ہوتی تو سامعین یعنی شائقین کی بدولت ہیں، اور شائقین کے لیے علما، قائدین کی بات اہمیت رکھتی ہے اس لیے نتیجہ یہ ہوا کہ اب آپ کو نعتوں میں موسیقی کی کوئی بھی قسم، خطرناک قسم کی بیک گراونڈ آوازیں نہیں ملیں گی، جو گانوں کی طرز پر نعتیں ہوتی وہ بھی سب ختم کر دی گئیں۔ اب صرف سائونڈ سسٹم کے ذریعہ گونج پر کام چلایا جاتا ہے۔ رہی بات وڈیو بنانے والوں کی اور شہرت پانے کا چسکا لے کر میدان میں اترنے والوں کی تو یہ بات وہ بھی سمجھنے لگے ہیں، ممکن ہے شیطان دوبارہ وقفہ دے کر استعمال کرے۔ اس پورے عمل میں جہاں عزت افزائی ہوتی ہے وہاں ’’سیلیبرٹی نفسیات‘‘ کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ نعت خوانی کے لیے ملکی و غیر ملکی دورے، القابات، نوٹوں کی برسات، سب کا اپنا وزن ہوتا ہے۔ اس گفتگو سے یہ مت سمجھ لیجیے گا کہ اس طرح کی نعت خوانی صرف پاکستان تک محدود ہے۔ ہندوستان میں بھی ایسا ہی کچھ ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی نعت خوانوں کی مقبولیت و معیارکہیں زیادہ ہے۔ اس حد تک کہ آپ اس مثال سے سمجھ لیںکہ بھارت، ساوتھ افریقہ، برطانیہ تک سے نعت خواں اپنی نعت کی ڈیجیٹل حالت میں تیاری (جسے مکسنگ کہتے ہیں) کے لیے پاکستان کے معروف ترین اسٹوڈیو سے رجوع کرتے ہیں۔
صرف نعتیں ہی نہیں بلکہ نشید، اسلامی ترانے و انقلابی ترانوں کی بھی اتنی خوبصورت صوتی اثرات کے ساتھ مکسنگ کرتے ہیں کہ مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔
یہ کام صرف پاکستان میں یا ہندوستان میں نہیں بلکہ جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں وہاں کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ دنیا بھر سے جو سوشل میڈیا پر نمایاں مقبولیت رکھنے والے افراد کی کچھ تفصیل یہاں پیش ہے۔ ان میں اوّل الذکر’اویکننگ میوزک ‘کے نام سے یو ٹیوب کا ایک چینل 2000 سے اسلامی نشید، نعت، کلام کے دائرے میں کام کر رہاہے۔ جس پر بڑی کلیکشن میں معروف گلوکار اپنا کلام ا’پ لوڈ کرتے ہیں۔ نام سے ظاہر ہے کہ یہ موسیقی سے کسی کو جگانا چاہتا ہے، یہ برطانیہ سے چلتا ہے جس کے دفاتر مصر اور امریکا میں بھی ہیں۔2003 سے البم بنانے شروع کیے اور اب تک کوئی 24 البم بنا چکا ہے۔ پانچ ارب سے زیادہ بار ان کی نعتیہ و اصلاحی کلام کی وڈیوز دیکھی جا چکی ہیں جب کہ 12.6 ملین لوگ سبسکرائب کرا چکے ہیں۔ ان کو میں گلوکار اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ ان سب کی اکثریت موسیقی کے کامل استعمال کے ساتھ کلام پڑھتی ہے، اس کو یہ کلام ہی کہتے ہیں نعت شاذ شاذ ہی لکھتے ہیں۔ ان میں ترک مقدونیہ کے مسعوت کرتس(408 ہزار سبسکرایبر)، سمیع یوسف(3 ملین سبسکرایبر)، سوئیڈن سے معروف نشید و نعت خواں ماہر زین(3.3 ملین سبسکرایبر)، لیبیا سے علی مغربی، کویت سے حمود الخودر(1.79ملین سبسکرایبر)، امریکا سے رائف، سائوتھ افریقہ سے تعلق رکھنے والے زین بیکھا (317ہزار سبسکرایبر)، انڈونیشیا سے اوپیک، امارات سے تعلق رکھنے والے عربی میں خوش الحان ثنا خواں احمد بخاطر (825ہزار سبسکرایبر)، مصر سے تعلق رکھنے والے معروف حمزہ نمیرہ(4.1 ملین سبسکرایبر)، مصطفیٰ عاطف، مشری بن راشد الفاسے(7.9ملین سبسکرایبر)،احمد حسین ، حارث جے، عرفان مکی، نذیل عزامی، شامل ہیں۔
ان سب کے علاوہ دنیا بھر میں بچوں کی ابھرتی کیٹیگری الگ ہے جس کو میں طوالت کی وجہ سے شامل نہیں کر رہا ، لیکن برطانیہ سے بھارتی نژاد بچی عائشہ عبد الباسط (3.19 ملین سبسکرایبر)، اس کے پیچھے آیت عارف (908ہزار)، خرد زہرہ، سید حسن اللہ حسینی، حور العین صدیقی، معظم علی مرزا (66 ہزار)، امجد بلتستانی(427 ہزار) پر پہنچے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے ان کے یو ٹیوب چینل کے سبسکرایبر کیوں لکھے؟ نمبرز کے نتیجے میں آپ کو دوڑ کا اندازہ ہوگا۔ کئی ایک کے تو نمبر اس لیے نہیں ہیں کہ وہ جن اسٹوڈیو میں نعت ریکارڈ کراتے ہیں وہ اپنی شرط عائد کرتے ہیں کہ نعت ان کے چینل پر اَپ لوڈ ہوگی، اس سے اسٹوڈیو کو فائدہ پہنچتا ہے کہ نئے نعت خوانوںکی تلاش، ان پر محنت وہ کرتے ہیں۔
بہرحال میں بار بار اپنی جانب سے توجہ دلاتا ہوں‘ قارئین کو ایسی کیفیت دکھا کر جھنجھوڑتا ہوں کہ یہ سب سوشل میڈیا کی مابعد الطبعیات کو جانے بغیر اس کو نیوٹرل ٹول سمجھنے کا انجام ہوتا ہے۔ ذرا تصور کر کے تو بتائیں کہ یہ گلیمرز نعتیں، جوماحول بناتی ہیں، اس میں بچوں اور بچیوں کو جس طرح پیش کیاجاتا ہے وہ ان کے استحصال کی ایک بد ترین شکل ہوتی ہے۔ اس عمر سے بچوں کو جو دین کے نام پر غلط لائن پر لگایا جا رہا ہے، یقین مانیں بہت تباہی لائے گا۔ علما کی خاموشی اس معاملے پر بڑا مسئلہ بنے گی اس دن جس دن کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔