کرپشن چلانے اور چھپانے میں صحافت کا نمایاں کردار ہے

193

پاکستان میں وسائل کی کوئی کمی نہیں،ہمارے حکمرانوں نے صرف کشکول سے فائدہ اٹھایا ،جنرل محمد ضیا الحق کے پرسنل اتاشی فاروق حارث العباسی کی گفتگو
فاروق حارث العباسی کا تعلق خاندانِ عالیہ عباسیہ سے ہے۔آپ حضور نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کی چالیسویں اولاد ہیں اور اسی نسبت سے آپ عباسی کہلاتے ہیں۔ آپ1983ء سے1988ء تک صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے پرسنل اتاشی رہے۔آپ نے افغان اور کشمیر کے علاوہ اہم امور پر کام کیا۔سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کی سربراہی میں متعدد قومی خدمات انجام دیں، 2015ء ان کی وفات تک26سال ان کے ہمراہ رہے۔2009ء سے2012ء تک تین سال محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نمائندہ خصوصی رہے۔نواز حکومت میں خدمت کمیٹی،خدمت کونسل کیبنٹ ڈویژن گورنمنٹ آف پاکستان(احتساب کونسل)کے چیئر مین کے علاوہ مختلف سیاسی عہدوں پر فائز رہے۔منفی قومی پالیسیوں اور کارکنان و عہدیداران کی بے توقیری پر متعدد بار احتجاجاً سیاسی سرگرمیاں محدود کر دیں لیکن کارگل ایشو(1999ء )پر اختلاف کے بعد مستقل طور پر پارٹی سیاست کو خیر باد کہہ دیا۔آپ سیاسی و دفاعی تجزیہ نگار کے علاوہ مصنف ،محقق، فیچر رائیٹر اور کالم نگار بھی ہیں۔عرصہ28برسوں سے مختلف قومی اخبارات و جرائد میں قومی و بین الاقوامی امور پر لکھتے آ رہے ہیں۔آج ان سے ہماری مختلف قومی امور پر بات چیت ہوئی جو اپنے قارئین کی نذر ہے۔
سوال:نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے جاری بیان بازی کسی طور پر قومی مفاد میں نہیں۔اس صورتحال پر بھارتی میڈیا منفی پراپیگنڈہ کر رہا ہے جس سے دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے،یہ سلسلہ آخر کیسے رک سکتا ہے؟
فاروق حارث:اگر ہم ذاتی و سیاسی مفادات کو پسِ پشت ڈال دیں اور قومی و ملی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئین و قانون کی پاسداری کریں پھر چاہے وہ آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ ہو یا کوئی اور،ملک کے اندر کبھی ایسے حالات پیدا نہیں ہوں گے جو آج ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ایسے معاملات اس وقت بگڑتے ہی ہیں جب آپ آئین و قانون سے یکسر انحراف کرنے لگیں اور پھر تسلسل سے کرنے لگیں جسے کوئی بھی مہذب معاشرہ قبول کرنے کو تیارنہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنے ان ہی غیر آئینی،غیر قانونی،غیر سیاسی و غیر اخلاقی رویوں کے باعث صرف بھارت ہی نہیں،پوری دنیا میں رسوائی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔اس سلسلہ میں چاہے وہ عسکری قیادت ہو یا مذہبی و سیاسی،ہر ایک کو اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے آئین و قانون کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں،آج اگر وہ دنیا میں معزز و محترم کہلانے کے حقدار ہیں تو وہ قانون و آئین کی وجہ سے ہیں، جس پر عملدارآمد نے انہیںدنیا کی عظیم تر قومیں بنا دیا لہٰذا اگر آج ہم اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو آرمی چیف کی تقرری وغیرہ کوئی بڑا یا گھمبیر مسئلہ نہیں رہے گا ۔22لاکھ مربع میل پر پھیلی دنیا کی سب سے پُر امن اور عدل و انصاف پر مبنی حکومت اگر کوئی تھی تو وہ فاروق اعظم حضرت عمر فاروقؓ کی حکمرانی تھی جو قانون کے مضبوط ترین ستونوں پر قائم تھی جسے امریکہ اور یورپ آج بھی”عمر لاء”کے طور پر یاد رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے عمر لاء(Umer Law)پر عمل کیا اور دنیا پر چھا گئے،ہم نے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہو گئے۔بس یہ ایک نقطہ ہے اگر کسی کی سمجھ میں آ جائے۔
سوال:پاکستان سمیت خطے میں مستقل قیام امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل اور افغانستان میں حالات کا معمول پر آنا کتنی اہمیت رکھتا ہے ،عالمی سازشوں کے باعث حالت سلجھنے کی بجائے مزید الجھتے جا رہے ہیں۔بحیثیت ایک دفاعی تجزیہ نگار اصلاحِ احوال کے لیے آپ کے پاس کیا تجاویز ہیں؟
فاروق حارث:جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے،میری نگاہ میںیہ اتنی آسانی سے حل ہونے والا مسئلہ نہیں ہےیہ ایک نہایت پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکا ہے اگر اتنی آسانی سے یہ حل طلب ہوتا تو آج سے74برس پہلے ہی حل ہو چکا ہوتا۔انڈیا اور پاکستان کے درمیان جب تقسیم ہوئی تو جموں اینڈ کشمیر ایک الگ ریاست تھی لیکن اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ ڈوگرہ نے25اکتوبر1947ء کو مسلمانوں کی مرضی کے خلاف ایک غیر آئینی و غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے ریاست جموں کشمیر کو بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا اور پھر سلامتی کونسل کی مداخلت پر جنگ بندی عمل میں لائی گئی اس شرط پر کہ سلامتی کونسل کی1948ء میں منظور شدہ قراردادوں کی بنیاد پر وادی میں رائے شماری کروائی جائے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ یا پھر خود مختار جس پر بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر میں رائے شماری کا وعدہ کیا لیکن لیکن بعد میں وہ اپنے وعدے سے مُکر گیا اور یہ معاملہ بگڑتا ہی چلا گیا۔چند سال قبل بھارت میں برسرِاقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)نے آئین کے آرٹیکل370اور آرٹیکل35-Aکو ختم کر دیا جس پر کشمیر کے اندر بھارتی حکومت کے خلاف نفرت اور بغاوت کی آگ مزید بھڑک اٹھی اور تحریک آزادی اپنے عروج کو پہنچ گئی۔بھارت نے اسے کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ظلم و تشدد کی انتہا کر دی،ہر وہ غیر آئینی،غیر قانونی،غیر اخلاقی،غیر سیاسی طریقہ استعمال کیا جس سے انسانیت تو شرمسار ہوئی مگر بھارت اس پر شرمندہ و شرمسار نہ ہوا۔آرٹیکل370درحقیقت ایک بفر زون کی حیثیت رکھتا ہے(یعنی ایسی چھوٹی ریاست جو دو بڑی ایک دوسرے کی مخالف ریاستوں کے درمیان واقع ہو، اور ان میں باہمی تصادم کے امکان کو کم کرنے میں مفید ثابت ہو)اور آرٹیکل35-Aجو کہ1954ء میں بھارتی آئین میں شامل کیا گیا جو اس بات کو یقینی بناتا تھا کہ جموں و کشمیر میں کوئی غیر کشمیری یعنی جو نسلاً کشمیری نہ ہو وہ نہ تو کشمیر کے اندر کوئی زمین خرید سکتا ہے،نہ جائیداد بنا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری ملازمت وغیرہ حاصل کر سکتا ہے۔370جو کہ ہندوستانی ریاست اور جموں کشمیر کی ریاست کے لوگوں کے درمیان ایک واضح فرق کی حیثیت رکھتا تھا،اسے ختم کر کے بھارت نے اسے اپنی دیگر ریاستوں کی طرح بنا دیا حالانکہ یہ آرٹیکل ختم کرنے سے قبل چونکہ جموں کشمیر کی باقاعدہ ایک اسمبلی تھی جو اپنے فیصلے کرتی تھی اور370کی یہ شق جموں و کشمیر کو ایک الگ حیثیت اور شناخت دیتی تھی جس کا اپنا ایک آئین تھا اور ایک اپر ہائوس تھااور سب سے اہم بات کہ بھارت کا آئین جو بھارت کی دوسری ریاستوں پر لاگو ہوتا تھا وہ جموں و کشمیر پر لاگو نہیں ہوتا تھا جب تک کہ جموں و کشمیر کی اسمبلی اسے منظور نہ کرے چنانچہ بھارت نے یہ دونوں آرٹیکلز ختم کر کے جموں و کشمیر کو بھی اپنی دیگر ریاستوں کی حیثیت دے دی جس کے بعد جمو و کشمیر کی الگ حیثیت ختم ہو کر رہ گئی۔مقبوضہ کشمیر ایک مکمل متنازعہ علاقہ ہے،اس پر یونائیٹڈ نیشن کی قراردادیں موجود ہیں، جس پر پاکستان کے تحفظات بھی ہیں،اس کا45فیصد علاقہ پاکستان کے پاس ہے یعنی آزاد کشمیر اور ریاست کی اس پوری پاپولیشن کا35فیصد پاکستان میں مقیم ہے،اس کی لائن آف کنٹرول کو بھی ابھی تک کسی نے مستقل بارڈر یا سرحد تسلیم نہیں کیا لہٰذا یہ ایک ایسا الجھا ہو ا مسئلہ ہے جس کا پُر امن حل ما سوائے استصواب رائے کے اور کوئی نہیں جسے بھارت ماننے کے لیے تیار نہیں اور دوسرا راستہ جنگ ہے اور میرے نزدیک جنگ ہی اس کا واحد حل ہے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے نہیں یا پھر اس کا تیسرا حل جو مجھے دکھائی دے رہا ہے وہ آزادی کی مختلف تحریکیں ہیں جو بھارت کے اندر اپنا سر اٹھائے ہوئے ہیں اگر یہ تمام تحریکیں یکجا ہو کر اپنی آزادی کے لیے نکل پڑتی ہیں جیسا کہ خالصتان،ناگا لینڈ،گورکھا لینڈ،مائو نکسل،منی پور وغیرہ تو پھر بھارت بھی سکڑ کر ممبئی تک محدود ہو جائے گا۔
افغانستان کا معاملہ کشمیر سے قطعی مختلف ہے۔اس خطے پر متعدد بیرونی طاقتوں نے قبضہ کیا مگر اندرونی مزاحمت نے بالآخر انہیں افغانستان کی سر زمین کو چھوڑنا پڑا۔یہ وہ خطہ ہے جس پر کوئی بھی بیرونی طاقت مستقلاً قبضہ قائم نہ رکھ سکی ماضی قریب میں اس پر قبضے کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی کہ چین وپاکستان پر نگاہ رکھی جا سکے۔روس کے ٹکڑے ہونے کے بعد امریکہ کی یہ کوشش تھی کہ وہ افغانستان پر قابض ہو کر پورے ایشیاء کو اپنے زیرِ کنٹرول کر لے لیکن اس سے خطے کا توازن بری طرح متاثر ہوتا،اور بالخصوص چین،پاکستان،ایران اور ترکیہ غیر محفوظ ہو جاتے لہٰذا افغانستان پر قبضہ کرنے اور اپنے مستقل قدم جمانے کے لیے امریکہ نے9/11کا جو ظالمانہ اور وحشیانہ ڈرامہ رچایا وہ پاکستان کی افواج اور آئی ایس آئی نے بری طرح ناکام بنا دیا۔یہ جنگ درحقیقت افغانستان ہی کی نہیں بلکہ پاکستان کے استحکام اور سلامتی کی جنگ تھی جس کے لیے پاکستان نے لا تعداد جانی و مالی قربانیاں دیں۔افغانستان کو ہر قسم کی بیرونی جارحیت سے محفوظ رکھنے اور خطے کو پُر امن بنانے کے لیے ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہے اور یہی وہ اتحاد تھا جسے قائم کرنے کے لیے جنرل ضیاء الحق بہت متحرک تھے جسے’’اسلامی بلاک‘‘کا نام دیا گیا۔آج بھی اس کی اشد ضرورت ہے۔ چین،پاکستان،افغانستان،ترکی،روس اور ایران کا اگر یہ اتحاد قائم ہوتا ہے تو بھارت،امریکا اور اسرائیل ،اس شیطانی ٹرائیکا یعنی تکون سے یہ خطہ بالکل محفوظ ہو جاتا ہے دوسرا یہ کہ افغانستان کے اندر مختلف قبائل کا متحد ہونا لازم ہے، گو کہ ان قبائل کے الگ الگ نظریات ہیں لیکن انہیں ایک قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے اور ایسی ہی کچھ صورتحال پاکستان کے اندر بھی ہے لہٰذا سیاسی و مذہبی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی بقاء و سلامتی اور استحکام کے لیے اپنے الگ الگ۔
سوال:آپ کے نزدیک وطن عزیز کو درپیش معاشی مسائل اور جاری سیاسی انتشار کا کیا حل ہے؟
فاروق حارث:پاکستان میں وسائل کی کوئی کمی نہیں۔وسائل کا استعمال نہ کرنے کے باعث مسائل پیدا ہوئے۔بدقسمتی سے کسی بھی حکمران نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی۔نمک سے ل کر سونے کی کانوں تک اور دنیا کی سب سے مہنگی دھات کاپر (تانبا) تک کی کانیں پاکستان میں موجود ہیں۔علاوہ ازیں قیمتی پتھروں کے ذخائر سے ملک مالامال ہے مگر مجال ہے کسی بھی حکمران نے ان وسائل پر کبھی کوئی توجہ دی ہو۔ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کی بجائے۔
ہمارے حکمرانوں نے صرف کشکول سے فائدہ اٹھایا۔ اربوں کھربوں کی بدترین لوٹ مار نے ملک کا دیوالیہ نکال دیا۔ہمارے ملک کے حکمرانوں کی حالت اس فقیر جیسی ہے جو بھیک مانگنے کا عادی ہو چکا ہو۔وہ ذلت تو برداشت کرلے گا لیکن کوئی کام نہیں کرے گا۔آج بھی اگر ان چھپے ہوئے خزانے کونکالا جائے تو ملک بآسانی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔کروڑوں ایکڑ زمین بنجر اور بے آب و گیاہ پڑی ہے اسے کارآمد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کی زراعت بڑھے پھولے،زمینیں آباد ہوں گی تو بے روزگاری اور مہنگائی میں خودبخود کمی واقع ہو گی۔ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی،نہ ہی ملک میں کوئی صنعتی یونٹ لگائے گئے اور نہ ہی زراعت کو فروغ دیا گیا۔حکومت کو چاہیے کہ غیر آباد کرنے کے لیے چھوٹے کاشتکاروں اور زرعی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو آسان اقساط پر قرضے اور زمینیں دیں تاکہ آباد کاری کے ساتھ ساتھ بے روز گاری اور مہنگائی کا بھی خاتمہ ہو سکے۔
سوال:سیلاب کے باعث سندھ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں ناقابلِ تلافی جانی و مالی نقصان ہوا۔متاثرین کی بحالی کے لیے حکومت بلند و بانگ دعوے کررہی ہے۔کیا اس حوالے سے حکومتی اقدامات اطمینان بخش ہیں؟
فاروق حارث:ہر سال یا پھر ہر دو چار سال بعد سیلاب کی تباہ کاریاں ہمارے سامنے ہیں۔مالی نقصانات کی تلافی تو ممکن ہے لیکن جو قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ان کی تلافی کیسے کی جائے؟سیلاب کی ان تباہ کاریوں سے بچنے کا واحد حل ڈیم ہیں۔جو بھی دو چار بڑے ڈیم بنے ایوب خان کے دور میں بنے۔اس دوران بھارت نے600سے زائد چھوٹے بڑے ڈیم بنا ڈالے۔کالا باغ ڈیم جسے دنیا بھر کے تجربہ کار انجینئرز نہایت سود مند قرار دے چکے ہیں اسے سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔اگر کالا باغ ڈیم اپنے وقت پر بن جاتا تو عوام کو آج بجلی46روپے یونٹ کی بجائے6روپے یونٹ مل رہی ہوتی۔اس کے علاوہ بھی اگر آٹھ دس ڈیم بن چکے ہوتے تو آج ملک میں صنعت بھی عام ہوتی،زراعت کے باعث ملک میں ہر طرف ہریالی دکھائی دیتی،نہ بے روزگاری ہوتی نہ مہنگائی اور ہم سیلاب کی ان تباہ کاریوں سے بھی محفوظ رہتے لیکن شائد پھر اربوں روپے حکمرانوں کی جیبوں میں کیسے جاتے جو قرض کی صورت میں لیے جاتے ہیں؟سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے وفاقی و سندھ حکومت یا بلوچستان حکومت کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔مصیبت زدہ سیلاب زدگان جھولیاں اٹھا اٹھا کر حکمرانوں کو بددعائیں دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔سندھ کے اندر بالخصوص دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے وزیروں مشیروں کو علاقے سے نکال باہر کیا اور ان کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔حکومتی عہدیداران کے گوداموں میں چھپائی گئی کروڑوں کی اشیاء برآمد ہوئیں۔اس کی تفصیلات لاتعداد ہیں لیکن یہاں پر یہی کہہ دینا کافی و مناسب ہو گا کہ ایسی بے حسی و بے مروتی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی،ان سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے جتنا بھی کام کیا وہ سب کا سب فلاحی تنظیموں نے کیا ۔
سوال:ان دنوں نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث جاری ہے بلکہ ان کے فوائد پر بھی کھلم کھلا بات چیت ہو رہی ہے اس ضمن میں آپ کی صائب رائے کیا ہے؟
فاروق حارث:یہ پراپیگنڈہ تقریباً ہر دورِ حکومت کے خلاف رہا۔اس میں کوئی صداقت نہیں اور اس ضمن میں اگر کوئی ایسی بات ہے بھی توجو حکومت ایسا کرے گی وہ اپنی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک لے گی۔
سوال:میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے،کیا ہمارا میڈیا ملک میں سیاسی استحکام کے لیے موثر کردار ادا کر رہا ہے؟
فاروق حارث:بدقسمتی سے باقی تین ستونوں کی طرح یہ چوتھا ستون بھی دیمک زدہ ہے۔90فیصد صحافی کسی نہ کسی پارٹی کے ساتھ منسلک اُس کے گن گانے میں مصروف ہیں۔جھوٹ کو سچ اور سچ کا جھوٹ بنا دینے میں مہارت حاصل کر چکے ہیں وہ صحافت جس سے کبھی کرپٹ افسران و سیاستدان خوفزدہ رہتے تھے،اب وہ صحافت ان کرپٹ افسروں و سیاستدانوں کا دُم چھلا بنی ہوئی ہے۔کرپشن کو چلانے اور چھپانے میں صحافت کا نمایاںکردار ہے یہی صحافت کبھی جو مشن ہوا کرتی تھی اب وہی صحافت مشنری کے طور پر کام کر رہی ہے۔

حصہ