قیصروکسریٰقسط(70)

225

سپہ سالار نے عمر رسیدہ سردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ اس علاقے کا سب سے زیادہ بااثر سردار ہے۔ اور تمہاری تیمارداری کے لیے آیا ہے‘‘۔

عاصم نے سردار کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’میں تمہارا شکر گزار ہوں‘‘۔ مترجم نے عاصم کے الفاظ کا مطلب بیان کیا تو اُس نے اپنے گلے سے مختلف رنگوں کے چمکدار پتھروں کا ہار اتارا اور آگے بڑھ کر عاصم کے گلے میں ڈال دیا۔

عاصم نے مترجم کی طرف دیکھا تو اُس نے کہا۔ ’’یہ لوگ کسی کو اس سے بڑا انعام نہیں دے سکتے۔ آپ کو ہار پہنانے کا مطلب یہ ہے کہ اِس سردار نے آپ کو اپنے اقتدار میں حصہ دار بنالیا ہے۔ آج سے آپ کے دوست اس کے قبیلے کے دوست اور آپ کے دشمن اس کے دشمن ہوں گے اور صرف یہی نہیں بلکہ جو قبائل ان کے حلیف ہیں وہ بھی یہ نشانی دیکھنے کے بعد آپ کو اپنا دوست سمجھیں گے‘‘۔

تھوڑی دیر بعد سپہ سالار اور اُس کے ساتھی چلے گئے اور عاصم لیٹ گیا۔ سارے دن اُسے تیز بخار چڑھا رہا لیکن شام کے وقت طبیب اُس کو دیکھنے آیا تو وہ پسینے میں شرابُور تھا۔ طبیب نے اُس کی نبض دیکھنے کے بعد کہا۔ ’’عاصم! تمہارا بخار اُتر گیا ہے لیکن اگر تم سفر کرنے سے پہلے دو تین دن آرام کرلیتے تو بہتر ہوتا‘‘۔
جواب دیا۔ ’’نہیں، اب مجھے آرام کی ضرورت نہیں‘‘۔

اگلی دوپہر دریائے نیل کے کنارے ایک بستی کے باہر گردونواح کے ہزاروں سیاہ فام باشندے اپنے سردار اور اس کے مہمانوں کا خیر مقدم کررہے تھے۔ عاصم جو تھکاوٹ سے نڈھال ہوچکا تھا گھوڑے سے اُترتے ہی ایک درخت کے سائے میں لیٹ گیا۔
چند گھنٹے گہری نیند سونے کے بعد وہ بیدار ہوا تو رات ہوچکی تھی۔ اُس نے اُٹھ کر کلاڈیوس کے اصرار پر چند نوالے منہ میں ڈالے، پانی پیا اور پھر لیٹ گیا۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’اس بستی کا سردار اور اُس کا بیٹا آپ کو اپنے جھونپڑے میں ٹھہرانے پر مصر تھے لیکن آپ سو رہے تھے اور میں نے انہیں جگانے سے منع کردیا تھا۔ میں نے آپ کا خیمہ نصب کرادیا ہے اور اب آپ وہاں آرام کریں تو بہتر ہوگا‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’نہیں تم میرے لیے صرف چٹائی لا کر یہاں بچھادو، میں کھلی ہوا میں آرام کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
کلاڈیوس اُٹھا اور اُس نے پاس ہی ایک خیمے سے چٹائی لا کر بچھادی۔ عاصم چٹائی پر لیٹ گیا اور تھوڑی دیر کلاڈیوس سے باتیں کرنے کے بعد دوبارہ گہری نیند سو گیا۔

علی الصباح فوج اگلی منزل کا رُخ کررہی تھی اور عاصم جس نے گھوڑے پر سوار ہوتے وقت اپنے جسم کے سارے پٹھوں میں کھچائو اور درد محسوس کیا تھا دوبارہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ دو تین میل چلنے کے بعد جب اُس کے دانت بجنے لگے تو کلاڈیوس نے جو پیدل اُس کے ساتھ آرہا تھا، کہا ’’آپ کی طبیعت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی۔ آپ کانپ رہے ہیں‘‘۔

’’مجھے پھر بخار ہورہا ہے‘‘۔ عاصم نے جواب دیا۔
’’میں طبیب کو اطلاع دیتا ہوں‘‘۔
’’نہیں، ابھی نہیں، اگلی منزل پر دیکھا جائے گا‘‘۔
’’منزل ابھی دور ہے اور مجھے ڈر ہے کہ…‘‘
عاصم نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’تم خاموش رہو‘‘۔

عاصم کے تیور دیکھ کر کلاڈیوس کو دوبارہ کچھ کہنے کی جرأت نہ ہوئی۔ لیکن ایک ساعت اور چلنے کے بعد جب گھوڑے کی زین پر سیدھے بیٹھنے کے بجائے کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف جھکا جارہا تھا، کلاڈیوس نے کس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور ہاتھ کے اشارے سے پیچھے آنے والے سواروں کو روک لیا۔

کلاڈیوس نے عاصم کو سہارا دے کر گھوڑے سے اُتارا اور ایک جھاڑی کے سائے میں لٹا دیا۔ تھوری دیر میں عاصم کے کئی دوست اُس کے گرد جمع ہوگئے۔ سپہ سالار گھوڑا بھگاتا ہوا وہاں پہنچا اور اُس نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے تم رُک کیوں گئے؟‘‘۔
ایک عرب نے عاصم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اِن کی حالت ٹھیک نہیں‘‘۔
سپہ سالار گھوڑے سے کود کر عاصم کے قریب پہنچا اور اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ’’کیا بات ہے؟ عاصم! تمہیں پھر بخار ہوگیا‘‘۔
عاصم نے سپہ سالار کی طرف دیکھا اور جواب دینے کے بجائے آنکھیں بند کرلیں۔ سپہ سالار نے اردگرد جمع ہونے والے سواروں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’طبیب کو بلائو اور پیچھے آنے والے دستوں کو اطلاع دو کہ ہم کچھ دیر یہیں قیام کریں گے‘‘۔
عاصم نے آنکھیں کھولیں اور نحیف آواز میں کہا۔ ’’نہیں! آپ کو دوپہر تک سفر جاری رکھنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ شام تک میرا بخار اُتر جائے گا اور پھر میں آپ سے آملوں گا‘‘۔
تھوڑی دیر بعد طبیب عاصم کا معائنہ کررہا تھا اور حبشی سردار، اس کا بیٹا اور وہ قیدی جسے مترجم کا فریضہ سونپا جاچکا تھا، ایک طرف کھڑے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے۔

سپہ سالار نے عمر رسیدہ سردار سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’اب آپ کو اس کے لیے ایک کشتی کا بندوبست کرنا پڑے گا‘‘۔
سردار نے جواب دیا۔ ’’یہاں سے تھوڑی دور دریا کے کنارے ایک بستی ہے اور وہاں سے ایک کشتی مل سکتی ہے لیکن اُس نوجوان کو ایسی حالت میں آگے لے جانا ٹھیک نہیں۔ اگر آپ مجھ پر اعتمار کریں تو میں اسے اپنی بستی میں پہنچادیتا ہوں۔ ہم اس موسمی بخاری کا علاج جانتے ہیں۔ بخار اُترنے کے بعد جب یہ سواری کے قابل ہو جائے گا تو میرے آدمی اِسے آپ کے پاس پہنچادیں گے‘‘۔
طبیب نے کہا۔ ’’یہ درست کہتا ہے۔ عاصم سفر کے قابل نہیں اسے چند دن آرام کی سخت ضرورت ہے‘‘۔
سپہ سالار نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’عاصم! تم ان لوگوں کے ساتھ رہ سکو گے؟‘‘۔
عاصم نے شکست خوردہ لہجے میں جواب دیا۔ ’’آپ فکر نہ کریں مجھے ان پر پورا اعتماد ہے‘‘۔

سپہ سالار ایک عرب رئیس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تم جانتے ہو کہ اس مہم میں میرے لیے عاصم کو اپنے ساتھ رکھنا کتنا ضروری ہے لیکن اب یہ زخمی بھی ہے اور بیمار بھی اور میں ایسے بہادر آدمی کی زندگی خطرے میں ڈالنا مناسب خیال نہیں کرتا۔ موجودہ حالت میں ہمارے لیے اسے اپنے ساتھ لے جانے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس کے لیے کشتی کا انتظام کیا جائے لیکن دریا کے بہائو کے خلاف کشتی کی رفتار اس قدر سست ہوگی کہ ہمیں بار بار رُک کر اس کا انتظار کرنا پڑے گا۔ آگے چل کر جب پہاڑیوں میں دریا کا پاٹ تنگ اور پانی کا بہائو تیز ہوجائے گا، تو ہمارے لیے یہ مسئلہ زیادہ پریشان کن بن جائے گا۔ اس لیے اگر تم عاصم کی عدم موجودگی میں اپنے آدمیوں کی قیادت کی ذمہ داری کا بوجھ اُٹھا سکو اور تمہارے آدمی مجھے یہ اطمینان دلا سکیں کہ وہ عاصم کی غیر حاضری میں ہمت نہیں ہاریں گے تو میں اسے پیچھے چھوڑنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
عرب رئیس نے کہا۔ ’’عاصم کو ہمارے سرداروں نے اپنا رہنما تسلیم کیا تھا۔ اور ہمارا کوئی ساتھی ایسا نہیں جسے اس کی جان اپنی جان سے زیادہ عزیز نہ ہو۔ اگر آپ کو کوئی بے اطمینانی ہے تو آپ بذاتِ خود ان سے اطمینان کرلیں‘‘۔
’’اگر تم مطمئن ہو تو مجھے اطمینان کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں عاصم کے فرائض تمہیں سونپتا ہوں‘‘۔ سپہ سالار یہ کہہ کر بوڑھے سردار کی طرف متوجہ ہوا‘‘۔ عاصم تندرست ہونے تک آپ کا مہمان ہوگا۔ آپ فوراً کشتی کا انتظام کریں۔ اس کا مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ آپ بھی ہمارا ساتھ چھوڑ کر واپس چلے جائیں۔ آپ کو چند منزلوں تک ہماری رہنمائی کا وعدہ بہرحال پورا کرنا پڑے گا۔
’’آپ مطمئن رہیں۔ میں آپ کے ساتھ جائوں گا۔ ان کی تیمارداری میرے بیٹے کے ذمے ہوگی۔ اسے اس بات کا افسوس تھا کہ یہ اپنے محسن کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔ میں ابھی کشتی کا انتظام کرتا ہوں‘‘۔ بوڑھا سردار کہہ کر اپنے بیٹے اور قبیلے کے چند آدمیوں کے ساتھ وہاں سے چل دیا۔
سپہ سالار نے عاصم سے کہا۔ ’’تم اپنے آدمیوں میں سے کسی کواپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہو؟ـ‘‘
’’نہیں‘ میری تیمارداری کے لیے کلاڈیوس کافی ہوگا‘‘۔
’’اگر تم کلاڈیوس کی وفاداری پر اعتماد کرسکتے ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’مجھے کلاڈیوس کی انسانیت پر پورا اعتماد ہے۔ لیکن ہم دونوں ان لوگوں کی زبان نہیں جانتے، اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ طیبہ کے قیدیوں میں سے ان لوگوں کی زبان جاننے والے ایک آدمی کو میرے پاس چھوڑ جائیں‘‘۔
سپہ سالار نے مترجم کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’مجھے یہ آدمی قابل اعتماد معلوم ہوتا ہے۔ تم اسے لے جائو‘‘۔
کچھ دیر بعد عاصم نیم بے ہوشی کی حالت میں ایک کشتی میں لیٹا ہوا تھا اور کلاڈیوس کے علاوہ سردار کا بیٹا لیون اور طیبہ کا قیدی ارکموس اُس کے ساتھ بیٹھے تھے۔ سردار کے قبیلے کا ایک نوجوان عاصم کے گھوڑے کی باگ پکڑے دریا کے کنارے کنارے چل رہا تھا۔
عاصم نے ہوش میں آکر آنکھ کھولیں تو آسمان پر دن کے سورج کے بجائے رات کے ستارے جگمگارہے تھے۔ اس کا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ اور حلق پیاس سے چٹخ رہا تھا، وہ کچھ دیر بے حس و حرکت پڑا رہا، پھر اچانک مضطرب ہو کر اُٹھا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اُسے یہ معلوم کرنے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ وہ ابھی تک کشتی پر سوار ہے۔ ملاح لمبے لمبے بانسوں سے کشتی کھینچنے میں مصروف تھے۔ چند آدمی گہری نیند سو رہے تھے۔ یہ کشتی اُس کشتی سے بڑی معلوم ہوتی تھی۔ جس پر وہ دن کے وقت سوار ہوا تھا۔ میں کہاں ہوں۔ سردار کی بستی زیادہ دور نہ تھی اور ہمیں غروب آفتاب سے پہلے وہاں پہنچ جانا چاہیے تھا، کچھ دیر اس قسم کے خیالات اُسے پریشان کرتے رہے پھر وہ کلاڈیوس کو آوازیں دینے لگا۔
کلاڈیوس جو اُس کے قریب پڑا ہوا تھا، چونک کر اُٹھا۔
عاصم نے کہا۔ ’’کلاڈیوس ابھی تک ہم اُس بستی میں نہیں پہنچے اب تو رات ہوگئی ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے قدرے توقف کے بعد جواب دیا۔ ’’نہیں! اب تو صبح ہونے والی ہے اور ہم اُس بستی سے کئی میل آگے آچکے ہیں‘‘۔
عاصم پر تھوڑی دیر کے لیے سکتہ طاری ہوگیا۔ بالآخر اُس نے کہا۔ ’’کلاڈیوس! تم مجھے کہاں لیے جارہے ہو؟‘‘
کلاڈیوس نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ پریشان نہ ہوں، میں صرف ایک دوست کا فرض ادا کررہا ہوں۔ جب ہم بستی کے قریب پہنچے تھے تو آپ بخار سے بے ہوش تھے۔ اور ارکموس سارے راستے مجھ سے یہ کہتا رہا تھا کہ آپ کے علاج کے لیے ہمیں طیبہ کے سوا کسی اور جگہ اچھا طبیب نہیں مل سکتا۔ خوش قسمتی سے وہاں ایک کشادہ کشتی موجود تھی اور سردار کا بیٹا میرے اصرار پر آپ کو طیبہ پہنچانے پر رضا مند ہوگیا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’تم سردار کے بیٹے کو جگائو میں واپس جانا چاہتا ہوں‘‘۔
’’سردار کا بیٹا یہاں نہیں ہے‘‘۔
’’مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ مجھ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا‘‘۔
’’جناب وہ آپ کو اپنے پاس ٹھہرانے پر مصر تھا اور مجھے خاصی دیر اُس سے جھگڑنا پڑا تھا۔ یہ کشتی اور ملاح حاصل کرنے کے لیے میں نے اُسے آپ کا گھوڑا پیش کیا تھا‘‘۔
’’کلاڈیوس! تم نے اچھا نہیں کیا۔ ملاحوں سے کہو کہ وہ کشتی واپس لے چلیں۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں‘‘۔
’’یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔
عاصم کو اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا وہ دیر تک تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کلاڈیوس کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُسنے کہا۔ ’’مجھے پانی دو‘‘۔
کلاڈیوس نے کشتی سے لکڑی کا پیالہ اُتھایا اور دریا کے پانی سے بھر کر عاصم کو پیش کردیا۔ عاصم نے پانی پینے کے بعد اُسے پیالہ واپس دیتے ہوئے کہا۔ ’’کلاڈیوس تم نے شایدمیری تلوار بھی کہیں غائب کردی ہے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ