علامہ اقبال
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو،تو نوا ہے محرمِ گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردہء ساز میں
تو بچا بچا کہ نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
دمِ طوف کرمکِ شمع نےیہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایتِ سوز میں،نہ مری حدیثِ گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں ،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی،نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں
فیض احمد فیض
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اِک فرصتِ گناہ ملی، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے
ساحر لدھیانوی
محبت ترک کی میں نے، گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو، یہ زہر بھی پی لیا میں نے
ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے
انہیں اپنا نہیں سکتا مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں رہ کر جی لیا میں نے
بس اب تو دامنِ دل چھوڑ دو بے کار امیدو
بہت دکھ سہ لیے میں نے، بہت دن جی لیا میں نے
معین احسن جذبی
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہشِ دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت وسالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں سے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبی ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے
شکیل بدایونی
مِری زندگی ہے ظالم ،تِرے غم سے آشکارا
تِرا غم ہے درحقیقت مجھے زندگی سے پیارا
وہ اگر بُرا نا مانیں تو جہانِ رنگ و بُو میں
میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہارا
مجھے آ گیا یقیں سا کہ یہی ہے میری منزل
سرِ راہ جب کسی نے مجھے دفعتاً پُکارا
میں بتاؤں فرق ناصح جوہے مُجھ میں اور تُجھ میں
مِری زندگی تلاطم، تِری زندگی کنارا
مجھے گفتگو سے بڑھ کر غمِ اذنِ گفتگو ہے
وُہی بات پُوچھتے ہیں جو نہ کہہ سکوں دوبارا
کوئی اے شکیل دیکھے یہ جنوں نہیں تو کیا ہے
کہ اُسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا
احمد ندیم قاسمی
گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاروں میں
مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں!
دل کی لَو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں
حُسن بیگانۂ احساسِ جمال اچھا ہے
غنچے کھِلتے ہیں تو بِک جاتے ہیں بازاروں میں
ذکر کرتے ہیں ترا مجھ سے بعنوانِ جفا
چارہ گر پھول پرو لائے ہیں تلواروں میں
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں تو شامل ہوں محبت کے گنہ گاروں میں
قتیل شفائی
گرمیِ حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
کیا جانے پھر ستم بھی میسر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو
اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنا نہ کر سکو
سیف الدین سیف
مری داستان حسرت وہ سنا سنا کر روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانہء محبت
میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے
مری آرزو کی دنیا دلِ ناتواں کی حسرت
جسے کھو کے شادماں تھے اسے آج پا کے روئے
تری بے وفائیوں پر تری کج ادائیوں پر
کبھی سر جھکا کے روئے کبھی منہ چھپا کے روئے
جو سنائی انجمن میں شبِ غم کی آپ بیتی
کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے
علامہ اقبال
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ