تبدیلی کیسے آئے گی؟

295

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد سے تفصیلی تبادلہ خیال

(تیسری قسط)
س: پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور 1973ء میں پاکستان کو اسلامی آئین بھی مل گیا۔ ہمارا پورا نظامِ حکومت اور نظامِ ریاست خلافِ اسلام تصورات پر کھڑا ہوا ہے۔ ہماری معیشت غیر اسلامی ہے، ہمارا عدالتی نظام اسلامی نہیں ہے، ہمارے تعلیمی نظام میں اسلام کہیں موجود نہیں ہے، ہمارا پولیس کا بندوبست ابھی تک برٹش لا کوfollow کررہا ہے۔ زندگی کے کسی شعبے میں ہم نے اسلام کے نام پر پیش رفت نہیں کی، اس کا کیا سبب ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: وجوہات تو بنیادی طور پر تین ہیں، ایک تو یہ کہ ہمارا نظامِ تعلیم وہی رہا جو انگریز نے چھوڑا۔ اس کے نتیجے میں زندگی دو خانوں میں بٹ جاتی ہے، ایک خانہ ہے مذہب کا، ایک خانہ ہے دنیا کا اور ان دونوں کے درمیان توازن کو ہم کامیاب زندگی سمجھتے رہے ہیں۔ اسلام دعوت دیتا ہے توحید کی، گویا روزِ اوّل سے ہم توحید کے منافی تعلیم دیں گے تو کیا توحیدی امت پیدا ہوجائے گی؟ نہیں ہوسکتی۔ یوں سمجھیے روزِ اوّل سے جو بیوروکریسی یا نوکرشاہی ہمارے ورثے میں آئی اس میں ایک بڑی تعداد اُن افراد کی تھی جو اس ملک کے شہری بھی نہیں تھے۔ 1964ء تک ساٹھ سے اوپر افراد وہ تھے جو برطانیہ کی شہریت رکھتے ہوئے ہمارے اہلکار تھے۔

ان میں سے بہت سے غیر مسلم تھے۔ ریکارڈ تلاش کریں تو جوائنٹ سیکریٹری اور سیکریٹری تک ایسے لوگ ملیں گے جو غیر مسلم بھی تھے اور ان کا اور ہمارا مفاد یکساں نہیں تھا۔ وہ کیا کرتے یہاں پر؟ کس قسم کا نظام نافذ کرتے؟ کس بات کی حمایت کرتے؟ یہی شکل ہماری فوج کی تھی۔ فوج کی تربیت کہاں پر ہوئی تھی؟ ڈیرہ دون میںانگریز کے قائم کردہ ادارے میں کس نے کی تھی؟ انگریز نے کی تھی،آج بھی جاکر دیکھ لیں، آپ کے پاس جو اسکول اُس زمانے میں سرحد اور پنجاب میں قائم کیے گئے تھے، ان کے افسران کے فوٹو لگے ہوئے ہیں ان کمانڈنٹس کے جنہوں نے اسے قائم کیا۔ یہ سارے افراد وہ تھے جوبرطانوی مفاد کے امین تھے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ پھر یہ بھی ہے کہ ہم نے اسلام کوبراہ راست قرآن و سنت سے کبھی سمجھنا نہیں چاہا۔

ہمارے علمائے کرام نے بھی شروع سے ہمیں یہ بات بتائی کہ چند عبادات کا اہتمام نجات کے لیے کافی ہے، اور باقی کام کرتے رہو دنیا کے لیے۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ آپ اپنے پورے نظام کو اسلام کے مطابق کیجیے، بلکہ یہ کہا کہ جو بھی آپ کاروبار کررہے ہیں کرتے رہیں، اس میں سے خیرات نکال دیں اللہ کے لیے، سب کچھ پاک صاف ہوجائے گا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر میں کالا کاروبار کررہا ہوں اور اس میں سے زکوٰۃ ادا کررہا ہوں توکیا وہ سب سفید ہوجائے گا؟ ہم دین اور دنیا کی تفریق کے تصور پر شدت سے قائم رہے۔ یہ تفریق محض تعلیم میں نہیں بلکہ ان افراد میں بھی آج تک برقرار ہے جو دین کا علَم بھی رکھتے ہیں۔

مجھے بتائیے دینی مدارس خود کو دینی کیوں کہتے ہیں؟ اس لیے کہ وہاں پر قرآن کا حفظ، قرآن کی تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت پاک کے بارے میںتعلیم دی جاتی ہے لیکن اگر کوئی مدرسہ میں پڑھنے والا طالب علم ایک سیکولر اسکول میں یا سرکاری اسکول میں چلا جاتا ہے تو کیا کہا جاتا ہے؟ یہ تو دین کو چھوڑ کر دوسرا علم حاصل کررہا ہے۔ یہ تقسیم ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا نامناسب ہوگا کہ یہ محض سیکولر افراد کا کارنامہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں غیر شعوری طور پر ہمارا دینی طبقہ بھی شامل رہا ہے۔

مجھے بتائیے اگر آپ کسی صاحب سے ملتے ہیں جن کی وضع قطع بڑی مناسب ہے، وہ شیروانی پہنے ہیں، چوغہ پہنے ہیں، جناح کیپ یا عمامہ پہنے ہوئے ہیں، ہاتھ میں تسبیح ہے اور آپ روز دیکھتے ہیں ان کو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے، آپ کیا کہتے ہیں؟ بہت دیندار آدمی ہے۔ کیا آپ نے معلوم کیا کہ ان کا یہ لباس کہاں سے آیا ہے؟ ان کے گھر کاکچن کہاں سے چل رہا ہے؟ ہم نے دین کو ظواہر میں تبدیل کردیا ہے، اور دین کا جو اصل مقصد تھا تبدیلیٔ کردار، تقویٰ اس کو بھی ہم نے منسوب کردیا چند مظاہر سے۔

گویا ہم نے اصلاح کو سمجھنا نہیں چاہا۔ اگر اسلام کو سمجھنا چاہتے تو قرآن ہم کو یہ بتاتا کہ دین تو پورے مجموعۂ زندگی کا نام ہے، وہ تو دین کے اندر مکمل داخل ہونے کا نام ہے۔ دین جز وقتی نہیں ہے کہ جمعہ کو مسلمان ہوجائو اور پیر کے دن سلام کرو ڈالرکو، اور منگل کے دن سلام کرو کسی عسکری قوت کو، اور بدھ کے دن سلام کرو کسی ثقافتی قوت کو… اس کا نام تو دین نہیں ہے۔ لیکن ہم نے کہا کہ نہیں ہماری ثقافت انڈیا سے آئے گی یا امریکا سے آئے گی، ہمارا دفاع وہاں سے آئے گا، ہماری معیشت وہاں سے آئے گی، ہم نماز پڑھیں گے ضرور خشوع و خضوع کے ساتھ۔ یہ دین کو نہ سمجھنے کے باعث ہے۔ اگر دین کو سمجھتے اور نافذ کرتے تو حالات مختلف ہوتے۔

س: پوری مسلم دنیا کا اس وقت یہ حال ہے کہ ہمارا جو ظاہر ہے وہ تو زیادہ سے زیادہ اسلامی ہوتا چلا جارہا ہے، داڑھی رکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، پردہ کرنق والی خواتین میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارا باطن سیکولر ہوتا جارہا ہے، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہماری خواہشیں، ہماری آرزوئیں، ہماری تمنائیں، ہمارے سارے خواب مغرب سے امپورٹ ہورہے ہیں۔ اس دورنگی کا کیا سبب ہے اور اس سے ہم کیسے نکل سکتے ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:محض مادّیت نہیں بلکہ اس کی وجہ وہ ذہنی غلامی ہے جس سے ہم آج تک آزاد نہیں ہوسکے۔ مجھے بتائیے کہ جب آپ ایک شخص کو اسلام پر خطاب کرتے ہوئے دیکھتے ہیں بڑی عمدہ انگریزی کے اندر، تو آپ کیا کہتے ہیں؟ بہت بڑا اسکالر ہے۔ اگر وہی بات ایک شخص اردو میں کہہ رہا ہے تو اسے ایک مسجد کے خطبہ سے تعبیر کرتے ہیں؟ یہ ہماری ذہنی غلامی ہے، چاہے اس کو ہم محسوس نہ کریں۔

س: : ہمارے معاشرے کے نوّے پچانوے فیصد دانشوروں کو دیکھیں، اسکالرز کو دیکھیں، علماء کو دیکھیں… سب میں یہ دو رنگی نظر آتی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:یہ محض دو رنگی نہیں ہے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ذہنی طور پر اس چیز کو افضل سمجھنا جس پر یورپ اور امریکہ کی چھاپ پائی جاتی ہے، یہ ذہنی غلامی ہے۔ اگر ایک شخص بغیر انگریزی الفاظ استعمال کیے آدھے گھنٹے اردو میں بات کرتا ہے تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عصری مسائل اور مغربی فکر سے ناواقف ہے، اس کو نہیں پتا کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ اب اگر وہی شخص پانچ الفاظ انگریزی کے شامل کرلے گفتگو میں، توہم کہتے ہیں کہ بھئی بڑا انٹی لیکچوئل ہے، دانشور ہے۔ یہ کس بات کی علامت ہے؟

س: کہنے والے کہتے ہیں کہ ہمارے زوال کا سبب قول و فعل کا تضاد ہے اور اس میں ہمارے معاشرے کے تمام طبقے بشمول علماء، دانشور سب ملوث ہیں اور ہمارے یہاں رول ماڈل کا کال پڑگیا ہے؟باتیںکرنے سے تو زندگی نہیں بدلتی، اقبال نے کہا ہے

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں ہے نہ نوری ہے نہ ناری
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:اقبال جو بات کہہ رہے ہیں اور قرآن پاک کی ترجمانی ہے قرآن کہتا ہے کہ رب کریم کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ وہ کہا جائے جو کیا نا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے دو عملی کے رویّے کو اختیار کیا ہوا ہے کہ ہمارا خود عمل یکساں نہیں ہے جو جان جوکھوں کا کام ہے اور جس کی بنا پر مولانا مودودی کی تحریک پاپولر نہیں بن سکی اور شاید نہ ہی بن سکے گی کیوں کہ ہر فرد اس بات پر آمادہ نہیں ہوسکتا کہ وہ ہر وہ چیز اختیار کرے جو دین چاہتا ہے۔ جو بنیادی شرط انہوں نے اپنے دستور میں رکھی تھی وہ یہی تھی کہ قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ جوایک شخص کہتا ہے اس پر عمل بھی کرے اور اسی بنا پر وہ ایک محدود جماعت کو اپنے ساتھ پیدا کرسکے، زیادہ افراد پیدا نہیں کرسکے۔

لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ عددی طور پر کم ہونا قوت کم ہونے کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ عددی طور پر کم ہونا قوت کی علامت ہوسکتا ہے اور رہا ہے۔ دنیا میں عوامی انقلاب کثرت تعداد سے کبھی نہیں آئے۔ ہمیشہ ایک چھوٹی سی تعداد نے انقلابات برپا کیے ہیں خواہ وہ فرانس کا ہو، روس کا ہو،کیوبا کا ہو، کہیں کا بھی ہو۔ تاریخ اٹھاکر دیکھیے آپ کو پتا لگے گا کہ یہ عوامی انقلابات نہیں تھے اور اگر مولانا مودودی نے یہ رویہ اختیار کیا کہ وہ ایک جماعت ایسی پیدا کرسکیں چاہے محدود ہو لیکن ان کا کردار، ان کا طرزِعمل، ان کی گفتگو اور عمل ایک ہو تو یہی وہ راستہ ہے جو قرآن و سیرت نے ہمیں سکھایا ہے اور یہی ہمارا المیہ ہے۔ اگر ہم یہ چیز کرسکیں اور ہم کرسکتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کا قول و عمل یکساں ہو تو ہم سے بہتر کوئی قوم نہیں ہوسکتی جو آگے بڑھے۔

س: یعنی تبدیلی کے لیے پورے معاشرے کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اگر جو لوگ اس کو لے کر اٹھے ہیں یا جو یہ کام کررہا ہے وہ ایک استاد بھی ہوسکتا ہے، ایک جماعت بھی ہوسکتی ہے۔ وہ جو بات کہہ رہا ہو اس میں اخلاص موجود ہو اور اس کے عمل سے بھی نظر آتا ہو؟ تو اس کاکیا سبب ہے۔ جیسے یونیورسٹی کی مثال لے لیں، استادوں کا زوال بھی ہمارے سامنے موجود ہے، علماء کا بھی موجود ہے، دانشوروں کا بھی موجود ہے لیکن جب یہی فیکٹری ہے جو نسل کو تیار کرتی ہے وہی متاثر ہوگئی ہے، یا پھر یہ کہ آج کے باپ کا کردار بھی ویسا ہی ہے، ظاہر ہے وہ بھی معاشرے کا ایک فرد ہے اور بنیادی چیزیں ہی تباہ ہوگئی ہیں تو آپ کیا سمجھتے ہیں ان کے درست ہوئے بغیر بھی کوئی اور راستہ ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: جی ہاں، تبدیلی کے آغاز کے لیے کثرت تعداد شرط نہیں ہے، قوت کردار شرط ہے۔ ہر خرابی کی اصلاح ہو سکتی ہے اور ہر مشکل دور کی جاسکتی ہے اور یہ اُس وقت ہوسکتا ہے جب آپ اپنے معاشرے سے تین بنیادی باتوں کو دور کرسکیں۔ ایک ہے انفرادیت، دوسری ہے مادیت، اور تیسری ہے اخلاقی اضافیت۔

پہلی کا تعلق اس چیز سے ہے کہ میں چاہے باپ ہوں یا ماں ہوں، یا بیٹا یا بھائی یا بہن میں ہی سب کچھ ہوں، یہ جسم میرا ہے،میرے مطالبات اور میری اصل بنیادی چیز ہیں۔ میرے مطالبات مانے جائیں، میرا حصہ مجھے ملے۔ یہ انفرادیت ہے جو ہمارے معاشرے میں نفوذ کرگئی ہے، اور یہ ضد ہے اسلام کی اجتماعیت کی۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ہم نے محض مادّی منفعت کو بنیاد بنا لیا ہے۔ آپ نے استاد کی مثال دی۔ اگر وہ ایک کالج یا یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے اور اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ایک گھنٹہ جو ساٹھ منٹ کا ہوگا، کلاس میں صرف کرے گا،جب کہ عملاً یہ ہوتا ہے کہ وہ دس منٹ لیٹ آیا اور دس منٹ پہلے کلاس سے نکل گیا اس بنا پر کہ اسے جاکر کہیں اور پڑھانا ہے، تو وہ یہ کیوں کررہا ہے؟ پیسے کے حصول کے لیے، کہ اس کو تنخواہ دو جگہ سے مل سکے۔ اس طرح جو یہ پیغام دے رہا ہے، اس کے طلبہ بھی آگے چل کرایسا ہی کریں گے۔ یہ مادّیت ہے جو ہر سطح پر ہے، یہ محض ایک استاد کا معاملہ نہیں ہے۔ اور ایسے ہی اخلاقی اضافیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک اخلاق اپنے لیے ہے اور ایک دوسرے کے لیے۔ ہم نے اخلاق کے دو معیارات کو دین و دنیا کی تفریق کی طرح جزو ایمان بنا لیا ہے۔

س: استاد جو رویہ اختیار کر رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ معاشرتی جبراور ہمارے نظام کے جبر کا شکار ہے۔ ظاہر ہے جہاں وہ ملازمت کررہا ہے وہاں سے اس کے اخراجات پورے نہیں ہورہے اور وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوشش کررہا ہے۔ اس پر مادّیت کا لیبل لگانا بھی تو انصاف نہیں ہوگا؟

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:جی ہاں لیکن اس کے عملاًدوسرے پہلو بھی ہیںمثلاً ایک شخص ضروریات پوری کرنے کے لیے دو ملازمتیں کرتا ہے۔ لیکن اگر ہزاروں خواہشیں ایسی پیدا ہو جائیںجن میں سے ہر ایک پر ہرایک شخص کا دم نکلنے لگے تو پھر وہ ضروریات کیسے پوری ہوں گی! ایک شخص جواجتماعیت پر یقین رکھتا ہے اپنے گھر کے اندر سات افراد کے ساتھ ایک ہانڈی سے اپنا پیٹ بھر سکتا ہے، جب وہ ایک ’’ـفرد‘‘بن جائے گا انفرادی حیثیت میں یا مادّیت کے تحت آجائے گا تو پھر ایک ہانڈی کام نہیں کرسکتی، پھر توگھر کے ہر فرد کوایک ایک پیزا چاہیے ہو گا۔ ہر ایک کے پیزا کے لیے ضرورت ہوگی اس ہانڈی کے مقابلے میں دس گنا زیادہ رقم ادا کرنے کی، وہ رقم کہاں سے آئے گی؟ وہ آئے گی دو تین کام کرنے سے۔

یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے، یہ ایک گھن چکر ہے۔ ایک گھر یہ سمجھتا ہے کہ ایک تنخواہ سے کام نہیں ہوسکتا۔ کس بنا پر؟ اس بنا پر کہ اس کو روز نیا کپڑا استعمال کرنا ہے آفس میں قابلِ قبول بننے کے لیے، اس کو ٹرانسپورٹ استعمال کرنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے کام اسی وقت ہوں گے جب دو تنخواہیں آئیں۔ گویا ہم نے اپنی ضروریات کو، اپنے مطالبات کو معروضی طور پر نہیں دیکھا، بلکہ جتنا چاہا بڑھنے دیا۔ جتنے مطالبات بڑھیں گے آپ اتنے ہی غریب ہوجائیں گے۔ تو یہ جو آغاز میں گزارش کی کہ انفرادیت، مادیت اور اخلاقی اضافیت یہ تین ایسے عوامل ہیں جن کا ہم شکار رہے ہیں اور اس وقت بھی ہیں، اور ان کا علاج ہوسکتا ہے۔ اور ان کا علاج ہے تعلیم کے ذریعے، ابلاغ عامہ کے ذریعے، ایسی مثالوں کے ذریعے کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں۔

مجھے بتائیے آپ کا تعلق ابلاغِ عامہ کے ساتھ ہے، کیا ہمارے ابلاغِ عامہ نے کبھی یہ غور کیا کہ ایک رکشہ والے کو وہ کہتے ہیں کہ وہ اجنبی گاہک سے دگنے پیسے لیتا ہے لیکن ایسے رکشہ والے بھی تو ہیں کہ اگر کوئی ان کے پاس اپنا پرس بھول گیا تو انہوں نے جاکر پہنچا دیا۔ کیاایسے افراد کو ابلاغ عامہ اجاگر کرتا ہے ؟ ان کو کبھی پروجیکٹ کیا گیا؟ ایک استاد کو ہم کہتے ہیں کہ دو تنخواہیں پیدا کرتا ہے، تو ایسے استاد بھی تو ہیں جو ایک جگہ کام کررہے ہیں اور محنت سے کررہے ہیں، کیا ان کو کسی نے تسلیم کیا؟ ان کے بارے میں کوئی بات ہوئی؟ کیا ہر باپ اور ماں وہی ہے جو خودغرض ہے؟ لیکن ہم نے جو تصور اختیار کیا ہوا ہے وہ سنسنی خیزیت، وہ ہے احساسیت کو ختم کرنا۔ اگر آپ ایک شخص کو صبح سے شام تک مار دھاڑ دکھاتے رہیں گے تو مار دھاڑ اسے معمول ہی نظر آئے گا، اُس کے لیے مار دھاڑ کوئی حیرت کی چیز نہیںہو گی۔ ہم نے ان چیزوں کے گھنائونے پن کو ختم کردیا جو کل تک گھنائونی تھیں۔ ان کی تکرار ہے ان کو گلیمرائز کرکے، ان کو بار بار پیش کرکے۔

تو مسئلہ محض ایک نہیں ہے۔ اور ان سب چیزوں کی اصلاح ہوسکتی ہے اُس وقت جب ابلاغ عامہ، تعلیم، ریاستی پالیسی، منبر و محراب ان سب کا ایک مطمح نظر ہو، اور وہ یہ ہو کہ دین کے جامع تصور کو سمجھتے ہوئے تبدیلی کی کوشش کریں۔
(جاری ہے)

حصہ