”کب تک.. آخر کب تک ہزاروں روپے ناجائز ماہانہ بل کے ادا کرتے رہیں! میں نے تو سوچ لیا ہے، بھاڑ میں جائے بل.. بجلی کٹتی ہے تو کٹ جائے، مجھے اب ناجائز طور پر لگائے جانے والے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام سے غنڈہ ٹیکس ادا نہیں کرنا، جسے جو کرنا ہے کرلے، میں کنڈا ڈال لوں گا لیکن یہ ظلم برداشت نہیں کروں گا۔ بس بہت ہوگیا، میں نے سوچ لیا ہے کہ خون جلانے سے بہتر ہے یہی راستہ اختیار کیا جائے۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے مجھ پر یہ بات عیاں ہوتی جارہی ہے کہ کے الیکٹرک کسی کے بس میں نہیں، لہٰذا کسی کے در پر جاکر فریاد کرنے سے بہتر ہے کہ خود ہی کچھ کیا جائے، یعنی ناجائز طور پر آنے والے بل کی ادائی نہ کی جائے۔ اور ویسے بھی پہلے دن سے مختلف ناجائز ٹیکسز بشمول فیول ایڈجسٹمنٹ ٹیکس کے نام سے کی جانے والی وصولیاں کے الیکٹرک کا پسندیدہ کھیل بن چکی ہیں۔
بجلی مہنگی ہو یا نہ ہو، لیکن وہ یہ بھتہ فیول ایڈجسٹمنٹ کا نام دے کر کراچی والوں سے تاقیامت وصول کرتے رہیں گے، بلکہ اب تو یونیفارم ٹیکس اور کچرا ٹیکس کی وصولی سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کے الیکٹرک غریبوں سے ناجائز رقوم وصول کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ اپنا بنایا ہوا سلیب ختم کرکے فی یونٹ بیس روپے سے بائیس روپے تک کردیا گیا ہے، میرے نزدیک کے الیکٹرک ادارہ نہیں بلکہ کراچی والوں کے لیے سفید ہاتھی اور حکمرانوں کے لیے سونے کی چڑیا بنا ہوا ہے۔ یہ ہاتھی اس قدر طاقتور ہے کہ اگر صارف کا بل 2 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ بھی کردے تو کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اسے کم کرا سکے۔ لہٰذا میں نے بل ادا نہ کرنے کی قسم کھا کر اس محکمے سے نجات حاصل کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔“
”سلیم تم پہلے شخص نہیں، تمام شہریوں کی یہی رائے ہے۔ اس محکمے کے فراڈ سب کے علم میں ہیں، کراچی میں بسنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ کے الیکٹرک نے جب سے ماضی کی کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا چارج لیا ہے تب سے اب تک عوام کو لوٹنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ 2007ء سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے دعوے سنتے چلے آرہے ہیں، ترسیلی نظام کی بہتری کی آڑ میں سارے شہر سے اعلیٰ قسم کے تانبے کے تار چوری کرلیے گئے۔ اربوں روپے کے اس ڈاکے پر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اووربلنگ بھی روزِ اوّل سے اپنے عروج پر ہے۔ اور اب تو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے ساتھ ساتھ کئی ناجائز وصولیوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے جو خدا جانے کب تک ہم پر مسلط رہے گا۔
سیلم دیکھو میں پھر کہتا ہوں تم دل چھوٹا نہ کرو، یہ مسائل صرف تمہارے ساتھ نہیں، یہ پریشانیاں تو غریب کا مقدر بنادی گئی ہیں، یہاں کے الیکٹرک ہی نہیں بلکہ ہر محکمے کی تباہی کی اپنی ایک داستان ہے جسے اگر لکھنے بیٹھا جائے تو برسوں لکھ کر بھی ختم نہ ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ دوسرے محکموں کے مقابلے میں ’کے۔ الیکٹرک‘ کے شکنجے میں جکڑے عوام کا حال کچھ زیادہ ہی برا ہے، جس کی تفصیل متعدد مرتبہ میں اپنے مضامین میں تحریر کرچکا ہوں۔
جبکہ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس نے ہمیشہ اس خودسر محکمے کو لگام ڈالنے کے لیے کوششیں کیں، اس جماعت نے نہ صرف فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سمیت مختلف ناموں سے وصول کیے جانے والے ٹیکسوں کے خلاف آواز بلند کی بلکہ کے الیکٹرک کی جانب سے مختلف ناموں سے وصول کیے جانے والے بھتے کے خلاف بھی مزاحمت کی، اور آج بھی اس محکمے کے سامنے چٹان کی طرح کھڑی ہے۔ رواں ہفتے کی ہی مثال دیکھ لو، جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے جو اقدامات کیے جارہے ہیں، انہوں نے کے۔ الیکٹرک کے چہرے پر پڑے اُس نقاب کو ایک مرتبہ پھر اتار پھینکا ہے جس کے پیچھے یہ ادارہ برسوں سے وہ مکروہ کھیل کھیلنے میں مصروف ہے جس پر کبھی کوئی آواز نہ اٹھائی گئی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنی ٹیم کے ساتھ کراچی کے عوام پر ہونے والے مظالم، خاص طور پر کے الیکٹرک کی انتظامیہ کو للکارا… وہ کراچی کے غریب عوام کے دل کی آواز ہے۔
ستم تو یہ ہے کہ جب جب جماعت اسلامی کراچی نے اس محکمے کے جرائم بے نقاب کیے تب تب اس کے حواری اس کی حمایت میں نکل آئے۔ ماضیِ قریب کی مثال ہی لیجیے، کون بھول سکتا ہے کہ جب جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا تو اس احتجاجی کال پر حکومتِ سندھ نے جو رویہ اختیار کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ اُس وقت پورے ملک نے دیکھا کہ عوامی حقوق کی جدوجہد کرتے ان کارکنان و رہنماؤں کے ساتھ کس طرح پولیس گردی کی گئی تھی۔ بجائے اس کے کہ حکومت ناجائز بلنگ پر کچھ کرتی، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی نہیں ’کے۔ الیکٹرک‘ کی حکمرانی ہو۔ پولیس و انتظامیہ کا اتنا کھل کر ’کے۔ الیکٹرک‘ کے کالے کرتوں کی حمایت میں آنا صاف بتارہا تھا کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔
اُس وقت بھی جماعت اسلامی ہی تھی جس نے ببانگِ دہل کہا تھا کہ کے۔الیکٹرک ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو عوام سے ناجائز طور پر لوٹی ہوئی رقم سے پورا حصہ ادا کرتی ہے۔ اس پر حکومتِ سندھ نے جس انداز میں ردعمل دیا تھا وہ صاف بتاتا ہے کہ ان باتوں میں سو فیصد سچائی ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کراچی نے ہر وہ طریقہ جس کے بَل پر عوام سے اربوں روپے لوٹے جا رہے ہیں، عوام کو بتایا اور اسی سلسلے میں ’کے۔ الیکٹرک‘ کے مرکزی دفتر پر دھرنا بھی دیا گیا تھا۔ آج بھی یہی جماعت عوام کو کے الیکٹرک کے شکنجے سے نجات دلانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے اٹھائے گئے نکات پڑھے جائیں تو بات صاف ہوجاتی ہے، یعنی اگر ’’اٹھو آگے بڑھو کراچی‘‘ کے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے میں کراچی کے شہری مطالبات کو دیکھیں تو ان میں ایک سے 300 یونٹ تک بلوں میں ظالمانہ اضافے کی بات ہے، اووربلنگ اور لائن لاسز کا ذکر ہے،
عوام کی لوٹی ہوئی دولت جو ناجائز طور پر لی گئی، اس کی واپسی کا مطالبہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ میٹر رینٹ 11 ارب روپے، ڈبل بینک چارجز 13 ارب روپے، کلا بیک 17 ارب روپے، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز 62 ارب روپے اور ملازمین کے نام پر 35 ارب روپے ایسی لوٹی گئی رقم ہے جس کو منظرعام پر لانا جماعت اسلامی کراچی کا بڑا کارنامہ ہے۔ سندھ کے عوام کو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے طرزِ حکمرانی نے شہری و دیہی تفریق کے سوا کچھ نہ دیا۔ خاص کر کراچی کے عوام میں محرومیوں نے جنم لیا۔ جب کوئی علاقہ زبان کی بنیاد پر تقسیم ہوجائے تو اس کا سدباب مشکل ہوتا ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کے اقدامات کسی سچائی سے کم نہیں۔ اب کراچی کے عوام کو یہ امید ہوچلی ہے کہ کوئی ہے جو ان کی دادرسی کرسکتا ہے۔
یہ تو تھے جماعت اسلامی سے منسلک اقدامات… جبکہ میرے نزدیک ’کے۔ الیکٹرک‘ انتظامیہ کی بدمعاشیوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہر ماہ ’کے۔ الیکٹرک‘ کے ورکرز گاڑیوں میں بیٹھ کر علاقوں میں اس طرح دندناتے پھرتے ہیں جیسے دشمن ملک کی فوج مقبوضہ علاقوں میں گشت کیا کرتی ہے۔ ان ورکرز کی چال ڈھال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’کے۔ الیکٹرک‘ ورکرز کم، بھتہ خور زیادہ لگتے ہیں۔
یہاں میں ایک باریک نکتہ جو میں نے محسوس کیا (شاید میری سوچ غلط ہو) بتانا چاہتا ہوں۔ اگر غور سے K.E جو کہ بجلی کے تمام دفاتر اور بلوں پر لکھا گیا ہے، کو دیکھا جائے تو انسان ایک عجیب سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے، یعنی K کے ساتھ لکھا گیا E بالکل ترشول کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ ہندو معاشرے میں اس ترشول کی حیثیت کون نہیں جانتا! انڈین فلموں میں یہ ترشول کسی کو قتل کرنے کے کام بھی آتا ہے۔ لوہے سے بنے تین خنجر نما اس ترشول سے اگر انسان کا قتل ہوسکتا ہے، تو اسی جیسے لکھے E سے غریب عوام کو K.E معاشی طور پر قتل کرتی جا رہی ہے۔ اسی سے جُڑے میرے دوسرے شک کو دیکھا جائے تو میری بات کی سچائی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ’کے۔ الیکٹرک‘ اسی رنگ سے تحریر کیا گیا ہے جو ہندوستان کے جھنڈے اور ہندو مذہب کا رنگ ہے
جبکہ ہندو معاشرے میں مذہبی لباس بھی اسی رنگ کا ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی جیسے حساس شہر میں کہیں کسی ایجنڈے کے تحت تو ایسے حالات پیدا نہیں کیے جارہے جس سے دل برداشتہ ہوکر محبِ وطن عوام کو ملک سے نفرت کی طرف دھکیلا جائے! ’کے۔ الیکٹرک‘ انتظامیہ کی جانب سے عوام پر کیے جانے والے اس ظلم کو دیکھتے ہوئے شک ہوتا ہے کہ یہ بھی کہیں اُن طاقتوں کا آلہ کار تو نہیں جو ملک میں بدامنی پھیلانا چاہتی ہیں! ویسے بھی اس شہر سے آئے دن ’را‘ کے ایجنٹوں کی گرفتاری بتاتی ہے کہ اس ملک میں ’را‘ کس قدر سرگرم ہے۔
دنیا میں اگر کسی ملک میں ایسے حالات ہوں جو ہمارے ملک میں ہیں تو حکومتیں مستعد ہوجایا کرتی ہیں۔ سرحدوں سے لے کر اداروں تک نگاہ رکھنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، ان حالات میں احتیاط ضروری ہے، خاص کر کراچی جیسے شہر میں، جہاں ملک کے دشمن موقع کی تلاش میں ہیں۔ خدارا اَنا کو چھوڑ کر یہاں کے عوام کو ’کے۔ الیکٹرک‘ کی ظالمانہ پالیسیوں سے نجات دلائی جائے، ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے عوام کو کچھ نہ کچھ سہولتیں مل سکیں۔ ایسے اداروں کو جو عوام سے دو وقت کی روٹی چھیننے میں لگے ہوئے ہیں، پابند کیا جائے۔
اگر عوام کے ذمے کسی ادارے کے جائز واجبات ہیں تو بے شک طریقہ کار کے مطابق جس سے لوگوں کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو، وصول کیے جائیں۔ دھونس اور دھمکی سے افراتفری میں ہی اضافہ ہوگا، امن و امان نہیں آسکتا۔ ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’کے۔ الیکٹرک‘ کے ساتھ ساتھ ایسے تمام محکموں کے خلاف جو ظالمانہ پالیسیاں بنا رہے ہیں، ایک زبان ہوکر بات کریں۔ ہر سیاسی جماعت خاموشی توڑے گی تبھی اداروں کے چنگل سے نجات مل سکتی ہے، بصورتِ دیگر عوام کی امنگوں کے مطابق نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں۔“