کرن جتنی نحیف ہو،کرن ہے پھر بھی

215

بازاروں کا رش‘ مرد و زن کا جم غفیر‘ باہم ٹکراتے لڑکھڑاتے قدم، بھانت بھانت کی بولیاں، نظروں میں تولتے ہوئے لوگ مجھے ہی نہیں میری جیسی ساری خواتین کو بے زار ہی نہیں خوف زدہ بھی کردیتے ہیں۔
میں جانتی ہوں میری بیٹی شور اور رش سے گھبراتی ہے، میری بھتیجی سے بارہا موبائل چھین لیا گیا، وہ اکیلے باہر جانے سے ڈرتی ہے۔
میری چھوٹی سی نواسی نامانوس نظروں، اَن جانے ہاتھوں کے ہلکے سے لمس پر بھی رونے لگتی ہے۔ فطرتاً اس کی حساس حیادار طبیعت اسے چوکنا کردیتی ہے کہ وہ محفوظ نہیں۔ میرے سامنے میرا بچپن سے اب تک کا دور گھوم جاتا ہے۔
میں اپنی فیملی کے ساتھ بارہا پبلک بس میں سفر کرتی رہی ہوں۔ ان بسوں میں خواتین کا حصہ الگ ہوتا اور مردوں کا حصہ پیچھے کی طرف ہوتا تھا۔ کوئی مرد اگر خواتین کے حصے سے بس میں چڑھتا تو پہلے خواتین کی گھوریاں، پھر تلخ جملے سنتا، پھر مردوں کی طرف سے ملامت۔ کبھی کبھی اس بات پر مار کٹائی بھی شروع ہوجاتی کہ مرد عورتوں کی طرف سے آیا کیوں؟
طالب علمی کی عمر یہ سہانے شب و روز دیکھتے گزری کہ بینک ہو یا شناختی کارڈ کا دفتر، یونیورسٹی ہو یا اسپتال… مردوں اور خواتین کے الگ کائونٹر ہوتے، یعنی مردوں اور خواتین کی الگ الگ لائنیں ہوتیں اور خواتین کی باری جلدی آجاتی۔ اس عزت پر رشک بھی آتا اور اپنی قوم کے اُن بڑوں پر پیار بھی جنھوں نے ان روایات کو زندہ رکھا۔
اب جب کہ اپنی زندگی کا سفر طے ہونے کو ہے، فکر ہے تو اپنی نئی نسل کی… اُن معصوم بیٹیوں اور بچوں کی جو اس فتنہ انگیز دور میں جوانی کی طرف قدم بڑھارہے ہیں۔
مجھے یاد ہے بھائی کبھی اکیلے کسی دکان پر جانے نہیں دیتے تھے، کبھی دروازے کی دستک پر بھی امی یا بھائی گھر میں ہوتے تو ہمیں دروازہ کھولنے کی اجازت نہ تھی۔ ایک دفعہ بھائیوں کی عدم موجودگی میں دروازہ بجا تو ہم نے بے دھڑک کھول دیا۔ اُن دنوں پڑوسیوں نے کتا پالا ہوا تھا، ہمیں توقع نہیں تھی کہ کتا دروازے پر ہوگا اور اندر گھس آئے گا۔ میری چیخیں اور امی کی فکرمندی آسمان سے باتیں کررہی تھی۔ ابو گھر آئے تو طے پایا کہ دروازے پر ڈبل لاک ہو جو ہم ناسمجھ نہ کھول سکیں اور کتے منہ اٹھائے اندر داخل نہ ہوں۔
کچھ دن بعد صدا سنائی دی، کسی نے کھانا طلب کیا۔ بھابھی نے فوراً ڈونگے میں ڈالا اور ہم دونوں دروازے پر۔ مگر دروازہ کھلا، بھائی اندر آئے، ڈونگہ لیا اور باہر واپس آئے تو کہنے لگے: خواجہ سرا نے مانگا تھا، میں نے دے دیا، اب تم لوگ اندر ہی رہو۔ ہم پہلو بدل کر چپکے سے اندر آگئے۔ بھابھی سے کہا: ہم دے دیتے۔ بھابھی بولیں: نہیں، تمہارے بھائی نے صحیح کیا، ہر جگہ ہمارا پہنچنا ضروری نہیں، اجر تو مل ہی جائے گا نا۔ یہ تسلی کافی تھی۔
آج میری بیٹی‘ بھانجی‘ بھتیجی‘ نواسی‘ پوتی اور ہر وہ بچی قوم کی امانت باپ بھائیوں کی موجودگی میں بھی ہرجگہ پہنچتی ہے، دروازے کھول دیتی ہے۔ گاڑی کا پنکچر لگانے سے لے کر بڑی بڑی عمارتوں کی کنسٹرکشن میں انجینئر بنی آرکی ٹیکچر، یا کہیں صنفِ آہن بننے کے چکر میں اُڑانیں بھرتی نظر آتی ہے، مگر میں بتاؤں یہ آج بھی ڈرتی ہے:
اندھیرے کے شر سے
باہر سے آجانے والے کتوں سے
زہریلی چھپکلیوں سے
تنہائی سے‘ تاریکی سے
غیر ناموس لمس اور
ہوس ناک نظروں سے
شیطان صفت ارادوں سے
اور اب جو یہ قانون سازی ہورہی ہے نا، مجھے چوکنا کرنے کے لیے کافی ہے کہ میں‘ میری نسل، میری قوم کی بیٹیاں امت کا سرمایہ محفوظ نہیں… میں پوری شدت‘ قوت اور آہنی عزم کے ساتھ اسے رد کرتی ہوں … رد کرتی رہوں گی۔

حصہ