’’ارے جاذبہ! ذرا برتن تو دھو لے‘کتنی دیر سے کہا ہوا ہے مجال ہے کہ سن لے۔ آواز نہیں آرہی، بہری ہوگئی ہے کیا؟‘‘ مریم چاچی نے غصے سے دھاڑتے ہوئے کہا۔
جاذبہ فوراً اسٹور روم کے کونے کھدرے سے نکل کر باہر آئی، کیوں کہ اگلے پل نہ آنے کی صورت میں چاچی کی پٹائی سے نہیں بچ سکتی تھی۔
’’جی چاچی…!‘‘جاذبہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’مہارانی! کہاں غائب تھی؟ اتنے کام پڑے ہیں‘ جاؤ کچن دیکھو کیا حال بنا رکھا ہے۔ ہادی اور سونی کے کھانے کے برتن بھی ویسے ہی رکھے ہیں۔ جیسے جیسے بڑی ہوتی جا رہی ہے ڈھیٹ ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ مریم بولنے پر آئی تو بولے چلی گئی، ورنہ جاذبہ تو کب کی کچن جا چکی تھی۔
تھوڑی دیر بعد جاذبہ پھر مریم کے پاس آن کھڑی ہوئی ’’چاچی بھوک لگی ہے۔‘‘ آٹھ سالہ جاذبہ اپنی بھوک کا احساس زبان پر لے ہی آئی۔ ’’کیا کھانا؟‘‘
’’جاؤ کچن میں دیکھو، جو بچا کھچا ہے کھا لو۔‘‘ مریم نے نخوت سے کہا۔
’’چاچی کچن میں کچھ نہیں ہے۔‘‘ جاذبہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ہے تو میں کیا کروں…؟ بار بار کھانا بنائوں…؟ نوکر ہوں تمھاری کیا؟‘‘
’’ارے کیوں بچی کے پیچھے پڑی رہتی ہو! کھانا بنا دو اسے۔‘‘ چاچو اسی وقت کمرے میں داخل ہوئے۔
’’ہاں میں تو ان کی خدمت کے لیے ہوں۔ اپنے بھائی کو دیکھو، بیوی کو طلاق دے کر دوبارہ شکل نہ دکھائی اور اس نحوست کو ہمارے سر چھوڑ دیا۔‘‘
’’مریم! تم کیا پرانی باتیں لے کر بیٹھ جاتی ہو۔‘‘ راشد نے اپنی بیوی کو چپ کرانے کی کوشش کی۔ ’’میں نے تمھیں کہا بھی تھا کہ جاذبہ کو بھی بلا لو، وہ بھی ہمارے ساتھ کھا لے گی، لیکن تم نے اسے اسٹور روم میں بند کردیا صرف اس وجہ سے کہ اس نے سونی کے کپڑے پہننے کی کوشش کی۔ تم یہ مت بھولو کہ یہ سب کچھ ساجد بھائی کے دیے ہوئے پیسے ہیں جس سے میرا کاروبار چل رہا ہے، ورنہ میرے اتنے وسائل نہیں۔ وہ ہر ماہ پیسے نہ بھیجیں تو ہمارے گھر کا چولہا بمشکل جلے، اور تم پھر بھی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہو۔‘‘ راشد نے بیوی کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔
’’ارے ہم نے بھی تو اسے رکھا ہے اتنے سال سے‘ میں اس کو سنبھال رہی ہوں‘ اس کی ماں نے تو پلٹ کر خبر نہ لی، اور باپ کو دیکھو مہینے کے پیسے دے کر سمجھتے ہیں کہ حق ادا کردیا۔‘‘مریم نے دوبدو جواب دیا۔
یہ روز کا معمول تھا، جاذبہ کو اپنے ماں باپ کے بارے میں چاچو چاچی کی لڑائی سے ہی معلوم ہوتا تھا۔ اب یہ لڑائی بہت لمبی چلی گئی۔ جاذبہ اپنی بھوک کو برداشت کرکے پانی پی کر دوبارہ اسٹور روم میں سونے چلی گئی۔ چاچو جاذبہ کا ساتھ تو دیتے لیکن آخری بات چاچی کی ہی ہوتی۔ جاذبہ نے بچپن سے ہی محرومی دیکھی تھی‘ سونی و ہادی کے لیے نئے کھلونے اور کپڑے آتے اور اس کے لیے سال میں ایک سوٹ آجاتا، وہ بھی چاچو چاچی سے چھپ کر دیتے۔ باپ نے کبھی اس سے بات کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ چاچو سے ہی خیریت معلوم کرتے۔ چاچو نے اسکول میں داخل کروانا چاہا تو چاچی نے اپنے بچوں کے اسکول میں داخل کروانے سے منع کردیا اور سرکاری اسکول میں داخل کروا دیا۔ پڑھائی میں اچھی ہونے کی وجہ سے سرکاری اسکول بھی اچھا لگنے لگا۔
وقت گزرتا گیا۔ چاچی نے انٹر کے بعد آگے پڑھنے نہیں دیا اور گھر کے کاموں کی ساری ذمے داری جاذبہ پر ڈال دی۔ جو اچھا رشتہ آتا سونی کو آگے کرتی۔ آخرکار سونی کی شادی ہوگئی، ہادی کے لیے بھی لڑکی پسند کرلی۔ جاذبہ کولہو کے بیل کی طرح بس گھر کے کاموں میں جتی رہتی۔ جن بچوں کے ماں باپ ان پر توجہ نہ دیں وہ بچے زمانے کی ٹھوکروں میں رہتے ہیں۔ جاذبہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔
راشد نے فون کرکے ساجد سے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا۔ ساجد نے کہا: ابھی تو بھیجے تھے! راشد نے بتایا کہ بیٹے کی شادی کرنی ہے، اس لیے۔ ساجد نے پوچھا: جاذبہ کی شادی بھی تو کرنی ہے، اس کے لیے بھی دیکھو۔ تم نے اپنی بیٹی کی شادی کردی جوکہ جاذبہ سے چھوٹی ہے۔ ’’ہاں بھائی کیا کروں، لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کے ماں باپ کہاں ہیں؟ بچی کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟ کوئی بات ہی نہیں بن پاتی۔‘‘ راشد نے جواب دیا۔ ساجد کو یہ سن کر افسوس ہوا اور اس نے فون بند کردیا۔
اور چند ماہ بعد وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آگیا۔ جاذبہ کو باپ کے آنے کی کوئی خوشی نہیں تھی جس کو ساجد نے واضح محسوس کیا۔ اس لیے اب وہ جاذبہ کی اس محرومی کو ختم کرنا چاہتا تھا، اس کی اچھی جگہ شادی کرکے اس کی زندگی میں خوشیاں لا سکتا تھا۔ اس نے ایک دو جاننے والوں سے جاذبہ کے لیے رشتے کی بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اس کے بہت رشتے آئے لیکن تمھاری بھابھی نے اپنی بیٹی کی شادی کردی اور اس کی طرف سے لوگوں کو یہ کہہ کر بدگمان کردیا کہ اس کی ماں بدکردار تھی، اس کو چھوڑ گئی، پتا نہیں یہ کیسی ہوگی!
ساجد کو جب اس حقیقت کا علم ہوا تو اس نے سب سے پہلے اپنا ایک گھر خریدا اور جاذبہ کو لے کر وہاں شفٹ ہوگیا، اور شادی دفتر کے ذریعے ایک دو رشتوں کی چھان پھٹک کے بعد ایک رشتے کے لیے رضا مند ہوگیا اور جاذبہ کی شادی کردی۔
راشد اور اس کی بیوی کو نہیں بلایا، کیوں کہ جاذبہ کے ساتھ اب وہ مزید برا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جاذبہ کو بہت اچھا جیون ساتھی ملا۔
ساجد اس بات کو دیر سے ہی سہی لیکن سمجھ چکا تھا کہ دنیا میں ماں باپ سے زیادہ کوئی بھی اولاد کا خیال نہیں رکھ سکتا۔ عدم برداشت کو ایک طرف رکھ کر ماں باپ کو اولاد کی ہی خاطر ایک دوسرے کو برداشت کرلینا چاہیے، ورنہ یہ معاشرہ ان کی اولاد کو ٹھوکروں میں رکھتا ہے۔