اس نے اپنا لامحدود سامانِ زیست سمیٹنا شروع کردیا۔
کپڑوں کی الماری‘ شوز ریک‘ اسٹور… غرض ہر جگہ سے کارآمد اور قابلِ استعمال چیزوں کو اکٹھا کیا۔ کپڑوں پر استری کی‘ انھیں پلاسٹک کی تھیلیوں میں سلیقے سے پیک کرکے ٹیگ لگا دیا۔ جوتوں کو اچھی طرح جھاڑ پونچھ کر پالش کی‘ چپلوں کو دھوکر خشک کیا‘ انھیں بھی نفاست سے پیک کیا۔ چادر‘ کمبل اور کھیس کو دھلوا لیا کہ ان سے آنے والی بو ختم ہوجائے۔ انسانیت کا تقاضا بھی تو یہی ہے کہ ایک ایک نوالے کو ترستے… تہی داماں، تہی دست نفوس کو سامانِ زیست مہیا کرتے ہوئے اتنا تو خیال رکھیں۔
جب فراغت ہوئی تو اُس کا پور اجسم دُکھ رہا تھا، لیکن چہرے پر بشاشت واضح تھی، اور دل مصائب میں پھنسے نفوس کے لیے تڑپ رہا تھا…آنکھیں بھیگ رہی تھیں… اور ذہن مزیدکچھ کر گزرنے پر یکسو و آمادہ تھا۔
اس نے تو اپنے باورچی خانے کے لوازمات پر بھی نظرثانی شروع کردی۔ گوشت کی جگہ دال سبزی‘ کڑاہی اور روسٹ کی جگہ شوربے والی ہانڈی۔ اشعر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھتے اور برجستہ کہتے ’’کیا قیدیوں کے لیے پکایا ہے؟‘‘
’’ہماری روحیں قیدی ہی تو ہیں جسم کی۔‘‘ وہ بڑے کرب سے کہتی۔ ’’اگر بصیرت دستیاب نہ ہو تو جسم سرکش گھوڑے کی مانند سمت کا تعین کیے بِنا بھاگتا رہے اور اسفل السافلین مقدر ٹھیرے۔‘‘
اشعر اس کے مزاج کی تبدیلی کوسمجھنے کی کوشش کرتے۔ اُس وقت تو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا جب عائشہ نے برانڈڈ کپڑے کے بجائے مقامی ٹیکسٹائل کمپنی کے کپڑوے کو ترجیح دی۔
وہ تو ہمیشہ سے بہتر سے بہتر چیزوں کی خواہاں رہی تھی۔ معیارِ زیست پر سمجھوتا اس کی شخصیت کا خاصہ نہ تھا۔ اس بات پر دونوں میں اکثر ناچاقی رہتی، اور اب تو ’’جیسے چاہو جیو‘‘ کا اصول چھوٹے بڑے سب کو ازبر ہے۔ ہماری زندگی کے معیار کا تعین ملٹی نیشنل کمپنیاں جو کرتی ہیں۔ روحانیت کی جگہ مادیت نے کیا لی کہ ہنسنا بولنا‘ گھومنا پھرنا اور سامانِ زیست سے پورا حصہ وصولنا مقصدِ حیات ٹھیرا۔ اب بلا امتیازِ رنگ ونسل، بلا سوچے سمجھے شرم وحیا سے عاری طور و اطوار اپنانا جدیدیت گردانا جاتا ہے۔ اس کا تو حلقۂ احباب بھی ایسا ہی تھا۔ سو وہ بھی ہجوم کا حصہ بن کر سکّے کا دوسرا رُخ دیکھنے سے قاصر رہی۔ یوں حیاتِ مستعار کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا ہی نصب العین قرار پایا۔
لیکن اب وہ اپنے مقدر پر نازاں و فرحاں تھی کہ لاشعور سے شعور تک کا سفر لمحوں میں طے کرنا آسان ہوا۔
بلاشبہ وہ اپنے پیشے سے مخلص تھی، یا شاید اس کی پیشہ ورانہ ذمے داری تھی کہ طلبہ کے ذہنی و تعیلمی استطاعت بڑھانے کے لیے اُن کے ذاتی مسائل میں بھی دلچسپی لی جائے۔ شریر و چنچل طالب علم… مناسب آئی کیو رکھنے والا بارہ سالہ حنبل یزدانی اپنی حاضر جوابی کے سبب اساتذہ کی توجہ حاصل کرنے میں ملکہ رکھتا تھا، لیکن آج کل بڑا چپ چپ رہنے لگا تھا، جیسے کسی فکر میں غلطاں ہو… کوئی غم اُسے پریشان رکھتا ہو۔ جب کبھی ضرورتاً بات کرتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے اس کی آواز کسی گہرے کنویں سے آرہی ہو۔ اس سب کے باوجود اُس کی تعلیمی کیفیت متاثر نہ تھی۔ سو مس عائشہ نے اسے نیند پوری کرنے اور ڈاکٹر سے اچھی ٹریٹمنٹ کا مشورہ دے کر اپنے تئیں پیشہ ورانہ ذمے داری ادا کردی۔ لیکن آج تو اس کی پلکیں متورم تھیں اور آنکھیں سرخ۔ وہ پڑھائی میں بھی کوئی خاص دل چسپی نہیں لے رہا تھا۔
’’حنبل آپ رات سوئے نہیں شاید؟‘‘ مس عائشہ نے چھٹی میں پوچھا۔
’’جی مس!‘‘اس نے بڑے کرب سے بس اتنا ہی کہا۔
’’کیوں…؟‘‘
مس عائشہ کے سوال نے جیسے اسے چونکا دیا۔ حنبل حیرانی سے ان کی جانب دیکھنے لگا۔ اگلے ہی لمحے اس کی آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں جاری تھیں… اور وہ بڑے کرب سے کہہ رہا تھا ’’سب کچھ بہہ گیا…کچھ بھی تو نہ بچا۔‘‘
’’ہر طرف پانی نے قبضہ کرلیا ہے… تمہارا گاؤں بھی بہہ گیا…؟‘‘مس عائشہ نے اپنے تئیں سوچا کہ شاید اس کا بھی کوئی پیارا سیلاب کی زد میں آگیا ہے۔
’’جی مس! تونسہ کے تین سو گاؤں… سندھ اور بلوچستان کے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والے سارے گاؤں میرے تھے۔‘‘ اس نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’میں پریشان ہوں جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ بھوکے ہیں‘ لیکن کھانا نہیں ہے… انھیں سردی لگتی ہے لیکن بستر نہیں ہے… پیاسے ہیں لیکن پینے کے لیے پانی نہیں ہے۔ اگر کہیں کھانا ہے تو پلیٹیں نہیں ہیں۔
گھنٹوں پانی میں رہنے کے سبب ہاتھ پاؤں متاثر ہیں اور ان کا جسم وبائی امراض کا شکار… اور ذہن و قلب دکھوں سے چھلنی… کہیں اپنوں سے بچھڑنے پر بلند ہوتی آہیں اور سسکیاں… تو کہیں انسان و حیوان کے بہتے لاشے… ان کی روحیں رنج واَلم سے چھلنی ہیں… اور نہ جانے کتنے ہی سیلاب میں محصور ہیں۔ انھیں ریسکیو کے لیے ہیلی کاپٹرز چاہئیں۔ اتنے سارے لوگوں کی مدد کیسے ہوگی؟‘‘
’’آپ پریشان مت ہوں… اللہ بہتر کرے گا۔‘‘ مسں آصفہ نے گلوگیر لہجے میں کہا، جو نہ جانے کب سے اپنے اسٹاف کے ساتھ کھڑی اس کی گفتگو سن رہی تھیں۔
’’کیا جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو صرف دعا سے علاج ہوتا ہے؟ اگر انگلی میں تکلیف ہو تو اسے کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے…؟ نہیں‘ نہ تو پھینک سکتے ہیں نہ نظرانداز کرسکتے ہیں، کیوں کہ ہم سب جسدِ واحد کی طرح ہیں۔کلمہ گو دنیا کے کسی بھی کونے میں بستے ہوں اُن کا کرب ہم سب کا کرب ہے۔ پھر یہ تو میرے اپنے ہم وطن ہیں… بھلا وہ کب تک کھلے آسمان کے نیچے رہیں گے؟‘‘
اس کی سسکیوں و آہوں نے گویا پہلی بار سب کو حالات کی سنگنیی سے آگاہ کیا ہو۔ وہاں موجود چہرے غم والم کا عکس معلوم ہوتے تھے، لیکن مس عائشہ… وہ تو غمِ جاناں بنی اردگرد سے بے خبر دل پرلگی چوٹ کے وار سے گھائل ہوچکی تھیں… اور ظاہری کیفیت بہ مشکل ضبط کیے ہوئے تھیں۔
’’آپ پریشان مت ہو بیٹے! کئی فلاحی ادارے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے کام کررہے ہیں… سب اپنے اپنے گھروں میں پھر سے آباد ہوجائیں گے۔‘‘ مس ثمرین نے گویا تسلی دی۔
’’پھر میرے وطن میں کبھی سیلاب تو نہیں آئے گا نا…؟ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے اضطراری کیفیت میں پوچھا۔
’’اللہ چاہے گا تو نہیں آئے گا۔‘‘ مسں آصفہ نے اپنی بے بسی ظاہر کی۔ لیکن شاید اُس وقت اس کی نگاہیں کسی عمر کے تعاقب میں تھیں۔کیا میرے وطن میں کوئی حکمران عمرؓ کا وارث نہیں… حنبل یزدانی تو شاید کسی معجزے کا منتظر تھا لیکن عائشہ… وہ آگہی کا سفر طے کرچکی تھی۔ حنبل یزدانی کا درد اس کے سینے میں منتقل ہوچکا تھا۔ اُس لمحے اس نے صرف ایک ہی دعا مانگی تھی ’’اے رب مجھے بھی قافلۂ حسینی میں شریک کرلے۔‘‘