وراثت

431

کل میرا بھائی آیا اور مجھے دس لاکھ روپے دے کر کہا کہ یہ ابا کی وراثت میں سے تمہارا حصہ ہے۔
والد صاحب نے انتقال کے وقت ترکے میں دو منزلہ مکان چھوڑا جو اُس وقت چالیس لاکھ کا تھا۔ پچیس سال گزر گئے ہم بہنیں خاموشی سے منتظر رہیں کہ بھائی خود ہی تقسیم کریں گے۔ پچھلے ماہ بھائی نے وہ مکان چار کروڑ میں فروخت کیا۔ کاغذی کارروائی میں ہم دونوں بہنیں بھی ساتھ تھیں، لیکن ہمیں جو حصہ دیا وہ مکان کی پچیس سال پہلے کی قیمت کے حساب سے صرف دس لاکھ دیا۔
’’مولانا صاحب! کیا یہ زیادتی نہیں ہے؟‘‘ اس خاتون نے مولانا صاحب سے پوچھا۔
’’بالکل زیادتی ہے۔ اوّل تو وقت پر تقسیم ہونی چاہیے تھی، لیکن اگر پچیس سال بعد جائداد کی تقسیم ہوئی تو ورثا میں آج کی قیمت کے اعتبار سے حصہ تقسیم کیا جانا چاہیے تھا۔‘‘
وہ لمحہ بھر کو ٹھیرے… ’’بلکہ دین کا تقاضا تو یہ ہے کہ جتنے سال بھائی نے فائدہ اٹھایا اس کا کرایہ بھی ان پر واجب الادا ہے۔ یہ اور بات کہ دیگر ورثا خود ہی نہ لینا چاہیں۔‘‘
یہ ایک بہن کا مسئلہ تھا جس کے بھائی نے لاعلمی یا پھر چالاکی سے بہن کا بڑا حصہ ہڑپ کرلیا۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے باپ کے مال پر صرف قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے حق سمجھ کر کھایا۔
عموماً خیال ہے کہ ماں باپ چوں کہ وراثت میں بیٹی کو حصہ نہیں دیتے اس لیے جہیز دے دیتے ہیں۔ جہیز کی مخالفت ضرور کریں کہ یہ فضول رسم ہے، لیکن وراثت میں بیٹیوں کے شرعی حصے کی تو بات کریں جو اُن کے رب کی طرف سے دیا گیا حق ہے۔
جہاں جہیز سے ڈسے لوگوں کی کمی نہیں، وہاں ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ، بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہزاروں لوگ بھی ہیں جن کی غیرت بیٹیوں کو حق دینے کی بات پر جاگ اٹھتی ہے کہ انہوں نے ایسا کہا تو کیوں کہا؟ بیٹیاں روایتی شرم کے زیراثر، اس پر مستزاد میکے کا بھرم اور مان قائم رکھنے کی خاطر خاموشی سے عمر بِتا دیتی ہیں، زبان سے اُف تک نہیں کہتیں۔
فیملی میں ہی ایک رشتے دار اپنے بچوں سے کہہ رہے تھے: میرے مرنے کے بعد تینوں مکانوں کو دونوں بھائی آپس میں برابر تقسیم کرلینا۔ کسی نے توجہ دلائی کہ صرف دو بھائی ہی تو نہیں، تین بہنیں بھی تو حق دار ہیں۔
کسی نے کم علمی کے زیر اثر سوال کیا کہ جس گھر میں رہائش ہو، کیا اس میں سے بھی بہنوں کا حصہ نکلے گا؟ تبھی مولانا صاحب آگئے۔ انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ جہیز اور شادی کے اخراجات کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ صرف والدین کی طرف سے تحائف ہوسکتے ہیں، اور ترکہ کے لیے رہائشی یا غیر رہائشی کی بھی کوئی شرط نہیں۔
کسی کے فوت ہونے کے بعد اس کی ایک ایک چیز ترکہ (وراثت کا مال) بن جاتی ہے، جس کی تقسیم اللہ رب العزت نے خود کی ہے، کوئی اپنی مرضی سے اس میں ذرہّ برابر بھی تبدیلی نہیں کرسکتا۔
اس کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے میت پر کوئی قرض ہو تو وہ میت کے چھوڑے ہوئے مال سے ادا کیا جائے گا چاہے قرض دینے میں ہی سارا مال ختم ہوجائے، قرض بہرحال سب سے پہلے دینا ہوگا۔
اس کے بعد اس کی تجہیز و تکفین کا بندوبست اسی مال سے کیا جائے گا۔ اگر میت نے اپنے ورثا کے علاوہ کسی کے لیے وصیت کی ہو تو کُل مال کے تیسرے حصے سے پوری کی جائے گی۔ بقیہ مال ورثا میں کیسے تقسیم ہوگا اس کا باقاعدہ علم ’’علمِ الفرائض‘‘ کے نام سے موجود ہے، جس کے سیکھنے کی باقاعدہ ترغیب دی گئی ہے۔ اب اس حوالے سے ایپس بھی بن چکی ہیں۔ آپ کُل مال اور ورثا لکھیں تو ہر ایک کو ملنے والا حصہ معلوم ہوجائے گا۔
کل ہی تخصص کی کلاس میں مولانا صاحب ایک اور مسئلے کا بتا رہے تھے کہ ایک شخص نے پلاٹ بیٹے کے نام لگوائے اور اس سے کہا کہ یہ میری ملکیت ہیں، میرے مرنے کے بعد شریعت کے مطابق ان میں سے بہنوں اور ماں کو حصہ دے دینا۔ اچانک کسی ناگہانی میں پہلے باپ، پھر بیٹا چل بسا۔ بہو نے یہ کہتے ہوئے بہنوں کو حصہ دینے سے انکار کردیا کہ میرے شوہر کے نام ہے لہٰذا اسے کوئی مجھ سے نہیں لے سکتا۔
کچھ لوگوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ مال کب تک کھاؤ گی، یہاں نہیں دو گی تو دوسرے جہاں میں پھنسنا یقینی ہے، عدالت کے فیصلے سے بھی حقیقت تو نہیں بدلے گی۔ بات سمجھ نہ آنی تھی، نہ آئی، کہ دولت فتنوں میں ایک بڑا فتنہ ہے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ فضول رسم و رواج سے ہٹ کر اپنی اصل کی طرف آئے۔ وہ تمام حقوق جو ربِ کریم نے کسی کے بتائے، انہیں پورا کیا جائے، الگ سے جو بھی دیں رسوم کے زیرِ اثر نہیں بلکہ اخلاص اور نیک نیتی سے دیں۔
اپنا حق لینے میں شرمانے یا قباحت کی کوئی بات نہیں۔ اگر کوئی اپنا حصہ لینے کے بعد کسی دوسرے کو اپنی مرضی سے دے تو ایسا کرنا احسان کے زمرے میں آتا ہے۔ مقامِ شرم تو موجودہ صورتِ حال ہے جہاں لوگ معاشرے کی اندھی تقلید، ریاکاری اور ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘کے چکر میں قرض دار ہی بلکہ ذہنی مریض اور پھر دل کے مریض بن جاتے ہیں اور میکے والوں کو زندگی بھر اس بوجھ سے چھٹکارا نہیں ملتا۔

حصہ