خلق نفس کی اس راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال سہولت اور آسانی سے صادر ہوتے ہیں اور ان کو عملی جامہ پہنانے میں کسی سوچ بچار کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ خُلق اور خَلق کے معنی فطرت اور طبیعت کے ہیں۔ انسان کی باطنی صورت کو اس کے اوصاف اور خوبیوں کے ساتھ خُلق کہتے ہیں، جس طرح اس کی ظاہری شکل و صورت کو خلق کہا جاتا ہے۔
حُسنِ خلق کی حقیقت وہ نفسانی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے افعالِ حمیدہ اور آدابِ پسندیدہ پر عمل کرنا بالکل آسان ہوجاتا ہے اور یہ چیزیں انسان کی فطرت بن جاتی ہیں، جس طرح آنکھ بغیر تکلف کے دیکھتی ہیں اور کان بغیر تکلف کے ہر آواز کو سنتے ہیں۔ حُسنِ خلق میں وہ تمام امور شامل ہوتے ہیں جو بہترین ہوں۔ انسان بخل و کنجوسی سے پرہیز کرے‘ جھوٹ نہ بولے‘ دیگر اخلاقِ مذمومہ سے اجتناب کرے‘ لوگوں کی دل آزاری نہ کرے‘ کشادہ دلی سے اپنا مال خرچ کرے‘ دوسروں کی غلطیوں کو درگزر کرے‘ قطع رحمی نہ کرے۔ ان تمام خوبیوں کو یکجا کیا جائے تو یہ تمام صفاتِ جلیلہ اپنی کامل ترین شکل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھیں، اسی لیے ’’وانک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ کہہ کر رب نے آپؐ کو بشارت دی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کو ’’خلقِ عظیم‘‘ اس لیے کہا گیا کہ آپؐ کے دل میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی آرزو نہ تھی۔ آپؐ مسلمانوں کے ساتھ رحمتِ مجسم بن جاتے مگر جب کفار سے معاملہ پیش آتا تو آپؐ کی سختی اور شدت سے پہاڑ بھی لرز جاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب و دبدبے سے کفار کے دل ان کے سینوں میں کانپتے رہتے تھے۔
امام راغبؒ خَلق اور خُلق کا فرق بیان کرتے ہیں کہ ’’انسان کی وہ ہیئت و ورت جس کا ادراک بصر سے کیا جاتا ہے‘ اس کو خَلق کہا جاتا ہے، اور انسان کی وہ قوتیں اور خصلتیں جن کا ادراک بصر سے نہیں بلکہ نورِ بصیرت سے کیا جاتا ہے ان کو ’’خُلق‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان اخلاق کو اس طرح تقسیم کیا ہے جس طرح اس نے تمہارے درمیان رزق کو تقسیم کیا ہے۔‘‘ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں ’’خلق نوع انسانی کی ایک جبلت ہے، لوگوں کے اس میں درجات مختلف ہیں۔ بعض لوگ تو ان صفاتِ حسنہ اور خصائلِ حمیدہ کے درجۂ کمال پر پہنچ جاتے ہیں اور ساری دنیا ان کی حمد و ثنا کرتی ہے۔ بعض میں یہ خوبیاں ہوتی ہیں، مگر ان کا درجہ مختلف ہوتا ہے۔ ان میں بعض خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے انہیں ریاضت کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ بلند درجے تک رسائی حاصل کرسکیں۔ آپؐ کی دو دعائیں اس کی نشان دہی کرتی ہیں:
’’اے اللہ ! جس طرح تُو نے میری ظاہری شکل و صورت کو حسین و جمیل بنایا ہے اسی طرح میرے اخلاق کو بھی حسین و جمیل بنادے۔‘‘
’’اے اللہ میرے اخلاق کو دل کش و زیبا بنا دے، کیوں کہ خوب صورت اخلاق کی طرف تُو ہی رہنمائی فرماتا ہے۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’حضورؐ کا اخلاق قرآن کریم کے اوامر و نواہی کے عین مطابق تھا۔‘‘ آپؐ نے نہ کسی استاد سے تعلیم حاصل کی، نہ عالموں کی مجالس میں شرکت کی،، نہ سابقہ کتب کا مطالعہ کیا۔ اس کے باوجود اخلاق و کردار کا وہ عظیم الشان مظاہرہ کیا کہ کوئی شخص ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا تاکہ میں اخلاقِ حسنہ کو درجۂ کمال تک پہنچا دوں۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے خلقِ عظیم کے بارے میں مسائل کے جواب میں فرمایا ’’حضورؐ کا خلق قرآن تھا، اس کے امر و نہی کی تعمیل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کا تقاضا تھی۔ اس کے بارے میں آپؐ کو غور و فکر اور سوچ بچار کی قطعی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔‘‘
ایک اور موقع پر آپؓ نے فرمایا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص بھی اخلاقِ حسنہ سے متصف نہ تھا۔ آپؐ کا خلق قرآن تھا‘ جس سے قرآن راضی ہوتا اس سے آپؐ راضی ہوتے‘ جس سے قرآن ناراض ہوتا حضور اکرمؐ بھی اس سے ناراض ہوتے۔ حضور اکرمؐ فحش کلام نہ تھے، نہ بازاروں میں شور کرنے والے تھے، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے، عفو و درگزر آپؐ کا شیوہ تھا۔‘‘ ان ارشادات کے بعد حضرت عائشہؓ نے اس سائل کو سورہ مومنوں کی پہلی دس آیتیں تلاوت کرنے کی ہدایت کی جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ کے اخلاقِ حسنہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ’’بے شک دونوں جہانوں میں بامراد ہوگئے ایمان والے‘ وہ ایمان والے جو اپنی نمازیں عجز و نیاز سے ادا کرتے ہیں، اور وہ جو ہر بے ہودہ امر سے منہ پھیرے رہتے ہیں اور جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔‘‘
بزار حضرت جابرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی اور شدت کرنے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ مجھے معلم اور استاد بنا کر بھیجا ہے اور آسانیاں پیدا کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسنِ خلق کے بارے میں حضرت انسؓ نے فرمایا ’’میں نے اللہ کے نبیؐ کی دس سال خدمت کی۔ اس وقت میری عمر آٹھ سال تھی۔ میں سفر و حضر میں حضورؐ کی خدمت انجام دیا کرتا تھا۔ اس طویل عرصے میں رحمت عالمؐ نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا۔ جو کام میں کرتا اس کے بارے میں کبھی نہیں فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ جو نہ کرتا اس کے بارے میں کبھی دریافت نہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میرے کسی کام کی نقیص نہیں کی۔‘‘ (صحیح مسلم‘ صحیح بخاری)
حضرت عثمانؓ نے فرمایا ’’ہم اللہ کے رسولؐ کے ساتھ سفر و حضر میں ہوتے تھے۔ آپؐ کی کوئی بات ہم سے مخفی نہ تھی۔ آپؐ ہمارے بیماروں کی عیادت فرمایا کرتے تھے‘ ہمارے جنازوں میں شرکت کرتے۔‘‘ حضرت انسؓ فرماتے ہیں ’’جب کوئی شخص حضورؐ کے ساتھ مصافحہ کرتا تو آپؐ اپنا دستِ مبارک اس کے ہاتھ سے نہ کھینچتے جب تک کہ وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لیتا، اور جب کوئی شخص حاضرِِ خدمت ہوتا تو حضورؐ اس کی طرف سے روگردانی نہ فرماتے جب تک وہ شخص اٹھ کر نہ چلا جاتا۔ یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ آپؐ اپنے جاں نثاروں کی مجلس میں بیٹھے ہوں اور اپنا پائوں کسی کی طرف دراز کیا ہو۔‘‘
رحمتِ عالمؐ اپنے صحابہؓ کے ساتھ ایک سفر پر تھے، ایک جگہ آرام فرمانے کے لیے رکے تو صحابہؓ کو حکم دیا کہ بکری کا گوشت تیار کریں۔ ایک صحابیؓ نے بکری ذبح کرنے کی ذمے داری اٹھائی‘ دوسرے نے اس کی کھال اتارنے کا کام اپنے ذمے لیا۔ ایک اور صحابیؓ نے اسے پکانے کی ہامی بھری۔ آپؐ نے فرمایا ’’تم لوگ یہ کام کرو، میں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لائوں گا۔‘‘ صحابہؓ آپؐ کا یہ ارشاد سن کر بے چین ہوئے اور عرض کیا ’’یارسول اللہؐ ہمارے ہوتے ہوئے آپؐ کیوں یہ زحمت کرتے ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو تم پر فوقیت دوں‘ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ وہ اپنے احباب میں سے اپنے آپ کو ممتاز دیکھے۔‘‘
آپؐ کے حُسنِ خلق میں حلم‘ عفو‘ صبر‘ درگزر بدرجہ اتم موجود تھے۔ آپؐ نے فرمایا ’’مجھے میرے پروردگار نے 9 باتوں کا حکم دیا ہے:
-1 ظاہر و باطن میں اخلاص کو اپنا شعار بنائوں۔
-2 خوشنوی اور ناراضی دونوں حالت میں عدل کروں۔
-3 خوش حالی اور تنگ دستی میں میانہ روی اختیار کروں۔
-4 جو مجھ پر ظلم کرے اس کو معاف کردوں۔
-5 جو مجھ سے قطع رحمی کرے اس سے صلۂ رحمی کروں۔
-6 اس کو دوں جو مجھے محروم رکھے۔
-7 میری زبان گویا ہو تو ذکرِ الٰہی سے۔
-8 خاموشی کی حالت میں اس کی آیتوں میں غور و فکر کروں۔
-9 میرے دیکھنے میں عبرت پذیری ہو۔
آپؐ اپنے تمام احوال و اقوال میں کبائر اور صغائر سے معصوم تھے۔ آپؐ نے قصداً اور سہواً گناہ سے ہمیشہ اجتناب کیا۔ آپؐ کی فطرتِ سلیمہ کے چند اہم واقعات درج ذیل ہیں:
جنگِ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد قلیل تھی اور مسلمانوں کو ایک ایک فرد کی اشد ضرورت تھی‘ حذیفہ بن الیمانؓ اور ابوحنبلؓ دو صحابیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہؐ ہم مکہ سے آرہے ہیں‘ راستے میں ہم کو کفار نے گرفتار کرلیا تھا اور اس شرط پر رہا کیا ہے کہ ہم لڑائی میں آپؐ کا ساتھ نہیں دیں گے‘ لیکن یہ مجبوری کا عہد تھا‘ ہم ضرور کافروں کے خلاف لڑیں گے۔‘‘ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہرگز نہیں، تم اپنا وعدہ پورا کرو اور لڑائی کے میدان سے واپس چلے جائو‘ ہم مسلمان ہر حال میں اپنا وعدہ پورا کریں گے‘ ہم کو صرف خدا کی مدد درکار ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
غزوہ حنین کے موقع پر کفار کے تیروں کی وجہ سے صحابہ کرام میں ایک قسم کا ہیجان‘ پریشانی‘ تذبذب اور ڈگمگاہٹ پیدا ہوگئی تھی۔ مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ فرمائی حالانکہ گھوڑے پر سوار تھے۔ ابوسفیان بن حارث آپؐ کے گھوڑے کی لگام پکڑے کھڑے تھے۔ کفار چاہتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کردیں۔ چنانچہ آپؐ گھوڑے سے اترے اور اللہ سے مدد مانگی۔ زمین سے ایک مشتِ خاک لے کر دشمنوں کی طرف پھینکی تو کوئی کافر ایسا نہ تھا جس کی آنکھ خاک سے نہ بھر گئی ہو۔ اس روز آپؐ سے زیادہ بہادر‘ شجاع اور دلیر کوئی نہ دیکھا گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدسؐ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے‘ کوئی بھی آپؐ کی سخاوت کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا حالانکہ خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عطا کرنے میں بادشاہوںکو شرمندہ کرتے۔ ایک دفعہ نہایت سخت احتیاج کی حالت میں ایک عورت نے چادر پیش کی اور سخت ضرورت کی حالت میں آپؐ نے اسے پہن لیا۔ اسی وقت ایک شخص نے آپؐ سے وہ چادر مانگی اور آپؐ نے اس کو وہ چادر مرحمت فرما دی۔ آپؐ قرض لے کر ضرورت مندوں کی ضروریات پوری فرما دیتے تھے اور قرض خواہ کے سخت تقاضے کے وقت کہیں سے اگر کچھ آگیا اور ادائے قرض کے بعد بچ گیا تو جب تک وہ تقسیم نہ ہوجائے گھر تشریف نہ لے جاتے تھے، بالخصوص رمضان میں یہ عطا اور بڑھ جاتی۔ اس وقت آپؐ بھلائی اور نفع رسانی میں تیز بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔
آپؐ سخت گو نہ تھے، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے‘ نہ بازاروں میں خلافِ وقار باتیں کرتے تھے۔ غایتِ حیا سے آپؐ کی نگاہ کسی شخص کے چہرے پر نہ اٹھتی تھی۔ آپؐ کشادہ دل‘ بات کے سچے‘ طبیعت کے نرم‘ معاشرت میں کریم تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو ساری قوم دشمن بن گئی اور آپؐ کو ستانے میں کسر نہ چھوڑی، مگر ایسی حالت میں بھی کوئی مشرک ایسا نہ تھا جو آپؐ کی امانت اور دیانت پر شک کرتا ہو، بلکہ اپنی امانتیں آپؐ ہی کے پاس رکھواتے۔ مکہ میں آپ سے بڑھ کوئی امین اور صادق نہ تھا، اسی لیے ہجرتِ مدینہ کے موقع پر حضرت علیؓ کو آپؐ نے لوگوںکی اُن امانتوں کو لوٹانے کی تاکید کی جو آپؐ کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔
یہ آپؐ کے خلقِ عظیم کی چند مثالیں ہیں جنہوں نے عرب کے بدوئوں کو دنیا کا فاتح بنادیا۔