کیا خدا نہیں ہے؟

اگر ہم کسی شخص سے کہیں کہ مکان بغیر معمار کے بن گیا، یا کرسی بڑھئی کی محنت کے بغیر خود بخود بن گئی، تو وہ اس بات پر بے اختیار ہنس دے گا اور یقین کرلے گا کہ کہنے والا یا تو مذاق کررہا ہے یا اس کے دماغ میں کچھ فتور ہے۔ لیکن یہ عجیب ماجرا ہے کہ مکان اور کرسی جیسی حقیر چیزوں کے متعلق جس دعوے کو تمسخر یا حماقت سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہی دعویٰ اتنے بڑے نظام کائنات کے متعلق کیا جارہا ہے، ہنسی سے نہیں سنجیدگی کے ساتھ کیا جارہا ہے، اور باوجود اس کے ان مدعیوں کے لئے پاگل خانوں کے دروازے بند ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ سارا عالم کسی صانع کے بغیر بن گیا ہے، کسی خالق کے بغیر پیدا ہوا ہے، کسی مدبر کے بغیر چل رہا ہے، اس حکیمانہ نظام کو کسی حکیم نے قائم نہیں کیا۔ اس کی عظیم الشان قوتوں پر کوئی حکمراں نہیں ہے، اس کے لاکھوں کروڑوں، بلکہ درحقیقت بے شمار مدبرات امور کے عمل میں توافق، یکسانیت اور اشتراک عمل کسی ایک حاکم اعلیٰ کی حکومت کے بغیر پیدا ہوگیا ہے۔ اتنا بڑا احمقانہ دعویٰ دنیا کے سامنے علی الاعلان پیش کیا جاتا ہے اور ادعائے تعقل و تفلسف کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے مگر حیرت کا مقام ہے کہ دنیا اس پر حقارت کا قہقہہ لگانے کے بجائے اس کے ابطال کے لئے دلائل کی طالب ہوتی ہے، حالانکہ کائنات کا ایک ایک ذرہ اور خود مدعیوں کا وجود اس کا ابطال کررہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی علم کی بنیاد حس پر ہے، اس کے ذریعے وہ اشیا کا ادراک کرتا ہے، مگر اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ موجود صرف وہی چیز ہے جس کو انسان براہ راست محسوس کرتا ہو۔ ہمارے محسوسات کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ ہم چند میل سے زیادہ فاصلے کی چیز نہیں دیکھ سکتے، چند میل سے زیادہ دور کی آواز نہیں سن سکتے، چند گز سے زیادہ فاصلے کی بو نہیں سونگھ سکتے اور جب تک کوئی چیز جسم سے بالکل لگ نہ جائے، نہ اس کو چھو سکتے ہیں اور نہ چکھ سکتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اتنے محدود ائرے میں جو اشیا بلاواسطہ ہمیں محسوس ہوتی ہیں وہ بہت ہی تھوڑی ہیں اور کوئی بے وقوف سے بے وقوف شخص بھی یہ اعتقاد نہیں رکھ سکتا کہ ان اشیا محسوسہ کے سوا دنیا میں کوئی شے موجود ہی نہیں ہے۔ ان محسوسات کے علاوہ دنیا کی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جن کے وجود کا اہم یقین رکھتے ہیں اور اس یقین کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ سب کی سب حس و مشاہدہ میں آجائیں۔ خود محسوسات میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں جن کا براہ راست احساس کئے بغیر ہم محض عقل سے ادراک کرتے ہیں۔ دیوار کی پیچھے سے آواز سن کر آواز دینے والے کے وجود کا ادراک، دھوئیں کو دیکھ کر آگ کے وجود کا ادراک، مکان کو دیکھ کر بانی مکان کے وجود کا ادراک اسی قبیل سے ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ مجرد حس پر بھروسہ کیا جائے تو ایک شے کے احساس سے دوسری شے کا احساس لازم نہیں آتا۔ پھر ان حواس کی فراہم کی ہوئی معلومات سے ہماری عقل بے شمار ایسی چیزوں کا ادراک کرتی ہے جو محسوس نہیں ہیں۔ کشش زمین کو کسی نے نہ دیکھا نہ سنا، نہ چکھا، نہ چھوا،نہ سونگھا۔ مگر زمین کی طرف اشیا کے انجذاب کو دیکھ کر عقل اس کے وجود کا ادراک کرتی ہے اور ہم اس پر یقین کرلیتے ہیں۔ زمین، آب و ہوا اور حرارت شمس کی نشوونما دینے والی قوتوں کو کسی نے حواس سے محسوس نہیں کیا مگر محسوسات میں اس کے ظاہر دیکھ کر عقل اس کے وجود کا یقین دلاتی ہے، اور ہم اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ خود ہمارے بدن کی قوت مدبرہ جس کو طبیعت سے موسوم کیا جاتا ہے، ایک غیر محسوس شے ہے۔ مگر اس کے افعال و اثرات دیکھ کر عقل یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ ایسی کوئی قوت ضرور موجود ہے، اور اس نتیجے سے ہم کبھی انکار نہیں کرتے۔ پس جب وہ بے شمار اشیا جو واقعی محسوسات سے ماورا غیر محسوسات، اور ان سے ماورا خالص معقولات پر مشتمل ہیں، غیر محسوس ہونے کے باوجود موجود ہیں، اور ان کے وجود سے انکار کی جرأت نہیں کی جاسکتی تو سمجھ میں نہیں آتا کہ خدا کے معاملے میں احمق انسان کو اس قدر اصرار کیوں ہے کہ جب تک اسے حوا س سے محسوس نہ کرلے گا، اس کے وجود پر ایمان نہ لائے گا۔

واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک مجرد وجود باری تعالیٰ کا تعلق ہے، اس کے مظاہر اس قدر روشن، نمایاں اور بے حساب ہیں کہ عقل سلیم اس تک پہنچنے سے ہرگز عاجز نہیں ہے۔ مگر اصلی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ انسان اسی عقل سے اس کی حقیقت اور حکمت کا راز معلوم کرنے کی کوشش شروع کردیتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ غیر محدود ہستی اس کے محدود پیمانہ فکر و عقل میں سما جائے۔ لیکن جو عقل اس عزوجل کے بنائے ہوئے ایک ذرے اور ایک پتے کی حقیقت کا بھی کلی ادراک نہیں کرسکتی، جو عقل اس ادنیٰ سے معمہ کو بھی سلجھا نہیں سکتی کہ ایک ماشہ بھر کے بیج سے کیونکر ایک تناور درخت پھوٹتا ہے اور اسی ایک مادہ سے لکڑی، چھال، پتے، رگیں، ریشے، پھل، پھول، رنگ، مختلف ذائقے اور مختلف رائحے پیدا ہوجاتے ہیں، وہ پوری کائنات کے بنانے والے کی حقیقت کو کیونکر سمجھ سکتی ہے، اور اس کے چھوٹے سے کوزے میں اس کی معرفت کاملہ کا بحر ناپیدا کنار کس طرح سما سکتا ہے۔ یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر انسانی عقل حیران و سرگرداں ہوجاتی ہے اور یہیں سے وجود و انکار کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن اگر انسان عقل و دماغ سے اس گتھی کو سلجھانے کے بجائے اپنے دل کی آنکھیں کھولے اور وجدانی احساسات سے اس کو محسوس کرنے کی کوشش کرے تو یہ الجھن خود بخود رفع ہوجاتی ہے۔ ممکن ہے کہ اسے اپنی روح کی قوتوں سے پرواز کرکے معرفت کی کسی خاص رفعت تک پہنچنے کا موقع بھی مل جائے، تاہم اگر ایسا نہ ہو تب بھی کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ اسے جستجو کی حیرانی سے نجات مل جائے گی، اور عقل صحیح کی روشنی میں وجود ذات کا جو علم اسے حاصل ہوا ہے، وہی ایمان کی صورت اختیار کرکے اس کے لئے باعث اطمینان و تسلی ہوجائے گا۔

یہی مضمون ہے جس کو اس نظم میں بیان کیا گیا ہے۔ اگر اس پر کوئی متکلم یا فلسفی کلام کرتا تو غالباً اس کو معقولات کے سارے آلات و اسلحہ اس میدان جنگ میں جمع کرنے پڑتے، وہ منطقی طرز استدلال سے مقدمات کو ترتیب دے کر صورت قیاس قائم کرتا، بربان، جدل، خطابت یا سفسطہ کی قسم میں سے کسی قسم کے مواد کو جمع کرتا۔ مخاطب کی حجتوں کو اپنے براہین کی پیہم ضربوں سے توڑتا۔ اولیات، فطریات، حدسیات، مشاہدات، تجربیات، متواترات، غرض تمام بیقینیات کے انبار لگادیتا۔ اور آخر میں کہتا ہے کہ مدعا ثابت ہے کیونکہ اگر مدعا ثابت نہیں ہے تو نقیض مدعا ثابت ہوگا۔ لیکن نقیض مدعا کا اثبات محال کا اثبات ہے اور محال کا اثبات ناممکن ہے۔ لہٰذا مدعا ہی ثابت ہے، ورنہ ارتفاع نتیفین لازم آئے گا۔ اس طرح ایک اچھی خاصی مجلس مناظرہ گرم ہوجاتی۔ لیکن ایک شاعر کا انداز بیان اور طرز استدلال منطقی سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ دماغ کو خطاب نہیں کرتا، بلکہ دل کو خطاب کرتا ہے۔ چبھتے ہوئے انداز بیان میں انہیں پیش کرتا ہے اور شعر و نغمہ کے ذریعے نشاط پیدا کرکے سمع و قبول کے انہی دروازوں کو کھلوالیتا ہے جو منطقی کے سامنے بند ہوتے ہیں، یا اگر کھلتے بھی ہیں تو دل کی جانب نہیں بلکہ دماغ کی طرف کھلتے ہیں۔ متکلم اپنی بحث کی ابتدا ایسے مقدمات سے کرتا جو حریف کے نزدیک بھی مسلم ہوتے ہیں مگر شاعر کو دیکھو کہ اس نے یہ راہ چھوڑ کر سب سے پہلے حریف کے سامنے صاف اقرار کیا ہے کہ اول اول میں خود بھی تمہارا ہم خیال تھا اور مجھ پر بھی وہی دور گزر چکا ہے، جس میں تم اب مبتلا ہو۔ یہ اقرار پہلی نفسیاتی ضرب ہے جو ذہن سامع پر لگتی ہے۔ اس کا قدرتی اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ شاعر کے کلام کو ایک واقف کار کے کلام کی طرح سنتا ہے اور خود بخود نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ جو شخص اس کوچے سے گزرچکا ہے، وہ اس کے نشیب و فراز اور پیچ و خم سے ضرور آگاہ ہوگا۔ اور جب اس نے اس مقام کی بود و باش ترک کی ہے تو ضرور کوئی کمزوری دیکھی ہوگی۔ شاعر اپنی اس ضرب کے قدرتی اثر کو محسوس کرلیتا ہے اور فوراً اس سے فائدہ اٹھا کر دل میں ایک چٹکی لیتا ہے تاکہ سننے والے کو ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوجائے کہ جب وہ الحاد و انکار کی حالت میں مبتلا تھا تو اس کی زندگی کس قدر تلخ تھی،

چنانچہ کہتا ہے:
تمہیں خبر ہے کہ میں سمجھتا ہوں کیا ان اوقات زندگی کو
وہ خود پرستی کے تلخ لمحے کہ زہر ہیں نفس آدمی کو
وہ میرے دل کی تجلیوں کو غبار ظلمت بنا رہے تھے
وہ میرے اجزائے زندگانی پہ موت کی طرح چھا رہے تھے
چمن کے سینے میں گرچہ روح تبسم فصل گل دواں تھی
مگر مری شب پرستیوں پہ ضیائے حسن سحر گراں تھی
ہزار عرش اپنے بازوئوں پر اگرچہ فطرت اٹھا رہی تھی
تلاش ناکام مجھ کو لے کر عمیق غاروں میں جا رہی تھی

یہ حالت جس مؤثر اور پردرد انداز میں بیان کی گئی ہے اس کو سن کر اضطراری طور پر ایک منکریہ سوچنے لگے گا کہ کہیں وہ خود بھی اس حالت میں مبتلا نہ ہو اور جب وہ فی الواقع اپنے دیدۂ دل پر ایک پردہ سا پڑا ہوا محسوس کرے گا تو بے اختیار اس کا جی یہ چاہے گا کہ یہ پردہ کسی طرح اٹھے اور جن جلوئوں سے میری نگاہ محروم ہے، وہ کسی طرح سامنے آجائیں۔ جب شاعر اس طریقے سے سامع کے دل میں راہ حق کی چٹک پیدا کرچکتا ہے تو اس کے بعد اصل موضوع کی طرف قدم بڑھاتا ہے اور قاعدے کے مطابق منکرین کے ان خیالات کو نقل کرتا ہے جن کی اسے تردید کرنی ہے مگر یہاں پھر اس کی راہ فلسفی اور متکلم کی راہ سے الگ ہوجاتی ہے۔ متکلم اس موقع پر منکرین کے عقلی دلائل کو نقل کرتا کیونکہ اس کی رائے میں انکار کی بنا یہی دلائل ہیں اور ان کو توڑ دینے سے انکار رفع ہوجاتا ہے۔ مگر شاعر سرے سے عقلی دلائل کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا۔ وہ اس کا قائل نہیں کہ ان کے انکار کے اصلی محرک یہ عقلی دلائل ہیں بلکہ اس کے نزدیک ذہن کی ایک الجھن نے ان لوگوں کو انکار پر آمادہ کیا ہے اور پھر عقل نے اس انکار کی تائید میں دلیلیں پیدا کردی ہیں۔ اس لئے وہ سب کو چھوڑ کر خود سبب کی طرف بڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ محض تخلیق کا عقدہ لایخل اور کارگاہ عالم کے گوناگوں کرشموں کا معمہ ہے جس کو حل کرنے کی فکر نے انسانی دماغ کو اپنے اندر الجھا رکھاہے۔ یہ بے پایاں کائنات کہاں سے آئی اور کیونکر پیدا ہوگئی؟ کس طرح ان بے حساب جلوئوں اور رنگ برنگ کی صورتوں سے سج گئی؟ پھر اس میں یہ کون و فساد کا سلسلہ کیسا ہے؟ ہر آن ہماری عقل، توقعات اور خواہشات کے خلاف امور کیوں پیش آتے ہیں؟ بہار خزاں پر کیوں غالب آتی ہے؟ حق پر باطل کو کیوں فتح نصیب ہوتی ہے؟ خوبی کو برائی کے مقابلے میں، حسن کو قبح کے مقابلے میں، عیب کو صواب کے مقابلے میں کیوں کامیابی حاصل ہوتی ہے؟ج یہ اور اس قسم کے بے شمار سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، مگر ان کا کوئی معقول جواب نہیں ملتا۔ آخر انسان گھبرا کر کہہ اٹھتا ہے:

یہ ہر طرف ابتری ہے کیسی یہ محشر فتنہ ساز کیا ہے
خدا اگر ہے تو اس ہجوم ملال و عبرت کا راز کیا ہے

اس طرح مرض کی تشخیص کرنے کے بعد شاعر اس کے علاج کی طرف توجہ کرتا ہے، مگر یہاں بھی طرز استدلال متکلمانہ کے بجائے وہی شاعرانہ ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ تمہاری عقل، خدا تو درکنار، کائنات کے ایک ذرے کی حقیقت کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے، پھر جب تم بے شمار موجودات عالم کی حقیقت کو نہ سمجھنے کے باوجود ان کے وجود سے انکار نہیں کرتے تو اسی فارسی عقل کی بنا پر وجود خدا کی تکذیب کیوں کرتے ہو؟ اس مضمون کو شاعر نے جس بلیغ انداز میں بیان کیا ہے، وہ دیکھنے سے

تعلق رکھتا ہے۔ کہتا ہے:
اگر یہ سچ ہے کہ عقل اب نارسی کی حد سے گزر چکی ہے
تمام وا ہوچکے ہیں عقدے کہ زلف دوراں سنور چکی ہے
کوئی بتائے کہ پختہ کاران عقل بھید ان کا پا سکے ہیں
نمو کے جو بے شمار چشمے زمین کی تہہ سے اہل رہے ہیں
کسی نے سمجھے ہیں راز اب تک چمن کی سرشار ہستیوں کے
کسی نے پائے ہیں بھید اب تک بہار کی مے پرستیوں کے

اس سلسلے کو پھیلا کر جب وہ عقل سے خود اس کی عاجزی کا اقرار کرالیتا ہے تو زور کے ساتھ کہتا ہے:

کہ باہمہ عجز عقل پھر بھی کریں جو تکذیب ہم خدا کی
کمال دانشوری تو کیا ہے دلیل ہے جہل ناسزا کی

شاعر اس پر بس نہیں کرتا بلکہ اس گرم گرم چوٹ پر چابک دستی کے ساتھ ایک اور ضرب لگاتا ہے تاکہ عقل و خرد کے پندار میں جو کچھ جان باقی رہ گئی ہو، وہ بھی نکل جائے۔ کہتا ہے کہ علوم انسانی کے ہزارہا شعبے ہیں اور ان میں سے ایک ایک شعبے کا یہ حال ہے کہ لوگ اس کی تحقیق و تفتیش میں پوری پورے عمریں صرف کردیتے ہیں تب جاکر کچھ نظر پیدا ہوتی ہے۔ آج دنیا میں کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی ایسا نہیں ہے جو تمام علوم پر حاوی ہو اور جس کی عقل و فہم نے علم و حکمت کے تمام جزئیات و کلیات کا احاطہ کرلیا ہو۔ پھر جب تمہارے دماغ کی فضا اس قدر تنگ ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ کائنات عالم کے تمام اسرار تمہاری سمجھ میں آجائیں اور تمہاری محدود عقل، غیر محدود علم حقیقت کی حامل بن جائے۔ اس وسیع مضمون کو شاعر نے جس دل نشین پیرایہ میں بیان کیا ہے، اس کا لطف اٹھانے کے لئے پانچویں بند کو بغور پڑھو اور دیکھو کہ شعر کی زبان نے ایک پوری کتاب کے مبحث کو کس طرح چند لفظوں میں ادا کیا ہے۔

اب یہ اعتراض باقی رہ جاتا ہے کہ دنیا میں بے شمار ایسے معاملات دن رات پیش آتے ہیں جو سراسر خلاف عدل و مصلحت معلوم ہوتے ہیں۔ اگر کوئی حکیم و دانا ہستی اس کارخانے پر حکمران ہوتی تو یہ بدنظمی ہرگز نہ ہوتی۔ شاعر اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ دنیا کے جو معاملات تمہاری عقل و خواہشات کے خلاف ہیں ان کے متعلق یہ خیال کرنا کہ ان میں کوئی حکمت و مصلحت ہی نہیں ہے، ایک غیر معقول بات ہے۔ جس طرح تم ایک شفیق باپ ہونے کے باوجود اپنے بچے کو مارتے ہو اور اس میں ایک مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے، جس طرح ایک جراح مریض کا ہمدرد ہونے کے باوجود اس پر نشتر چلاتا ہے اور اس میں ایک حکمت مستور ہوتی ہے، جس طرح ایک سلطنت رعایا پر مہربان ہونے کے باوجود تعزیر و قصاص کے قوانین نافذ کرتی ہے اور اس میں ایک فائدہ متصود ہوتا ہے، بالکل اسی طرح کائنات عالم میں بہار و خزاں، نشیب و فراز، کون و فساد، موت و حیات کا جو سلسلہ جاری ہے اس سب میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضروری ہے، مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ اس مصلحت کو ہم سمجھ بھی لیں اور اگر وہ سمجھ میں نہ آئے تو خوامخواہ اس نظام کائنات کو لغو اور عبث خیال کرلیں۔ اس بحث میں جس موقع پر شاعر نے بظاہر خلاف مصلحت نظر آنے والے معاملات کی مصلحتوں پر روشنی ڈالی ہے وہاں شعر و حکمت گلے ملتے نظر آتے ہیں۔ کہتا ہے:

بہار گل پوش، آتش افگن خزاں میں تبدیل ہو رہی ہے
مگر تمہیں کیا خبر کہ اس میں چمن کی تکمیل ہو رہی ہے
تم اپنی پستی کا راز سوچو ہوس ہے گر سر بلندیوں کی
کہ خود شناسی کی تہ میں پنہاں کلید ہے فتح مندیوں کی
حیات خوش مرگ تلخ سب میں غرض کوئی مصلحت ہے پنہاں
کہ رہنمائے شگفتگی ہے چمن کا شیرازۂ پریشاں
یہ منتشر کائنات وقف ارادۂ انتظام بھی ہے
جسے سمجھتے ہو ابتری تم اسی میں اس کا نظام بھی ہے

ان دلائل سے منکرین کے حجابات نظر کو اچانک کردینے کے بعد شاعر اپنی طرف سے وجود باری کے اثبات میں دو دللیں پیش کرتا ہے اور دونوں دل کو لگنے والی ہیں۔ اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ انسان کی فطرت خدا کو ڈھونڈ رہی ہے۔ جب سے انسان پیدا ہوا ہے، پیہم خدا کی تلاش میں ہے اور کسی نہ کسی صورت میں اس کی پوجا کررہا ہے۔

یہ تلاش بے وجہ نہیں ہے۔ دراصل روح کی آنکھیں گلشن ہستی کی پتی پتی مکیں ایک جلوہ کو دیکھ رہی ہیں، دل کے کان کائنات کے ذرے ذرے کی خاموش زبان سے ایک دم پیام سن رہے ہیں۔ فطرت سلیمہ کے لطیف و نازک و جدانی احساسات پر ہر آن ہرجہت سے کچھ نرم نرم ضربیں پڑ رہی ہیں اور ان سب تجلیوں، صدائوں اور ضربوں نے اسے اس طرح بے چین کر رکھا ہے کہ وہ اس ہستی کو دیوانہ وار تلاش کررہا ہے جو نظروں سے اوجھل ہے، مگر ہر وقت پہلو میں گد گدا رہی ہے؎

کسی نے سمجھا کہ سینہ سنگ میں یہ رنگیں نوا چھپی ہے
کسی نے آب رواں کے شیریں سروں میں اس کی تلاش کی ہے
کسی نے سورج کی شوخ کرنوں کے رقص میں اس کی جستجو کی
کسی نے آتش کو موج انوار جان کر اس کی آرزو کی
خدا نہیں گر تو پھر تلاش خدا میں یہ کارزار کیوں ہے
اگر یہ فطرت نہیں تو انسان کی روح پھر بے قرار کیوں ہے

دوسری دلیل یہ ہے کہ وہ نفوس قدسیہ جنہوں نے حق کی تلاش میں اپنی عمر کے بہترین لمحوں کو قربانی کیا، اپنے نفس کی بے شمار لذتوں کو تج دیا، غور و فکر، گیان دھیان، مجاہدہ و مراقبہ میں عمریں صرف کردیں، ایک زبان ہوکر خدا کے وجود کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کی زندگیوں میں ہمیں کذب و افترا کا نشان تک نہیں ملتا۔ صرف یہی نہیں کہ خود ان کی زندگیاں معصیت کی آلودگی سے پاک ہیں بلکہ ان کے فیض و ہدایت نے دوسرے اپنائے نوع کو بھی بہیمیت کی سطح سے اٹھا کر انسان اور انسانیت کی سطح سے بلند کرکے انسان کامل بنادیا ہے۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان کو جھوٹا اور فریبی سمجھیں؎

جو ہر برائی سے احتراز اتم کی راہیں بتا رہے ہوں
ہزار صبر آزما مصائب شعار حق میں اٹھا رہے ہوں
ضمیر انسانیت کو باطل کی ظلمتوں سے بچانے والے
جو نشر حق کے لئے بنے ہوں وہ کیا کسی کو فریب دیں گے
ہزار ہو رہبر بلندی نشیب آخر نشیب ہوگا
وہ خیر ہی کے لئے سہی پھر فریب آخر فریہ ہوگا

یہ اس نظم کی ایک مختصر تشریح ہے۔ اب قاعدۂ عام کے مطابق میرا دوسرا کام یہ ہونا چاہئے تھا کہ نظم کی زبان و انداز بیان پر شاعرانہ نظر سے تبصرہ کرتا، مگر میں اس سے معافی چاہتا ہوں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ دوستانہ جنبہ داری سے احتراز کی کوشش میں شاید میں اپنے دوست سے انصاف نہ کرسکوں گا۔ تاہم میں کسی خوف کے بغیر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ علی اختر صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جو خیال کی نزاکت، فکر کی گہرائی، نظر کی وسعت اور بیان کی بلاغت کے اعتبار سے ہندوستان کے جدید شعرا کی صف اول میں کھڑے ہونے کے قابل ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ نہ ان کی بے نیازی اپنے جوہر کی تشہیر پسند کرتی ہے اور نہ ان کی قوم میں اب وہ جوہر شناسی باقی ہے ان کے کمال کی ازخود قدر کرے۔

حصہ