شعرو شاعری

362

فیض احمد فیض
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضورِ یار ہوئی دفترِ جنوں کا طلب
گِرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سُوئے دار چلے

جوش ملیح آبادی
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
اب میں سو جان سے اس طرزِ تکلم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
حفیظ ہوشیار پوری
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک
شریک گریۂ شبنم نہ ہوں گے
ذرا دیر آشنا چشمِ کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے
دلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
حفیظؔ اُن سے میں جتنا بدگماں ہوں
وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے

حفیظ جونپوری
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
نہیں مرتے ہیں تو ایذا نہیں جھیلی جاتی
اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے
دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پہ
رات کو چادرِ مہتاب تنی ہوتی ہے
لٹ گیا وہ ترے کوچے میں رکھا جس نے قدم
اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے
ہُوک اُٹھتی ہے اگر ضبط فغاں کرتا ہے
سانس رکتی ہے تو برچھی کی انی ہوتی ہے
پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظ
صاف انکار میں خاطر شکنی ہوتی ہے​

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی
اک لحظہ بہے آنسو، اِک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے اندازِ شکیبائی
جلوئوں کے تمنائی جلوئوں کو ترستے ہیں
تسکین کو روئیں کے جلوئوں کے تمنائی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبّت کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی
یہ بزمِ محبّت ہے، اس بزمِ محبّت میں
دیوانے بھی شیدائی، فرزانے بھی شیدائی

ثاقب لکھنوی
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
آئینہ ہو جائے میرا عشق اُن کے حسن کا
کیا مزا ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے
سینہ سوزاں میں ثاقب گھٹ رہا ہے وہ دھواں
اُف کروں تو آگ کی دنیا ہوا دینے لگے

چراغ حسن حسرت
یا رب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
ناکامِ تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے

معین احسن جذبی
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

داغؔ دہلوی

وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

حصہ