ہم کیوں مسلمان ہوئے

350

ڈاکٹر غرینیہ (فرانس)
مصر کے مشہور صحافی اور ادیب محمود بے مصری روایت کرتے ہیں:
’’میں کئی سال تک فرانس میں مقیم رہا اور اپنے ملنے والوں سے ایک ڈاکٹر کی تعریف و توصیف سنتا رہا۔ شرافت‘ راست بازی‘ روشن خیالی‘ عالیٰ ظرفی اور اخلاص مندی‘ کریم النفی‘ مہمان نوازی‘ غرض کوئی بھی انسانی وصف ایسا نہ تھا جس سے میرے ملاقاتی اسے نسبت نہ دیتے ہوں۔ میں سمجھتا بیماروں پر اس کی شفقت عام ہوگی مگر تعجب ہے کہ بیماروں سے بڑھ کر تندرست اس کی محبت کے مریض لگتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کا نام غرینیہ تھا۔ وہ فرانسیسی پارلیمنٹ کے رکن بھی تھے۔ یہ ان کی ہر دل عزیزی کا واضح ثبوت تھا۔ لیکن لوگوں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کی نیک دلی اور صاف باطنی اس اعزاز سے بہت بلند ہے۔ چنانچہ پارلیمنٹ کا ماحول اور اس کے ارکان کا عمومی کردار اور کھوکھلی تقریریں انہیں راس نہ آئیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ پیرس کی رہائش بھی ترک کی اور رونق و شہرت کے اس اعزاز کو چھوڑ کر فرانس کے ایک پُرسکون گائوں میں اقامت اختیار کرلی۔‘‘
محمود بے مصری لکھتے ہیں:
’’جب مجھے ان حالات کا علم ہوا اور ساتھ ہی یہ پتا چلا کہ اس عظیم انسان نے اسلام قبول کر لیا ہے تو دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ اس سے ملاقات کی جائے اور کم از کم قبولِ اسلام کا سبب دریافت کیا جائے۔ چنانچہ میں اس گائوں میں پہنچا جہاں ڈاکٹر صاحب کی رہائش تھی۔ میں نے امر شدت سے محسوس کیا کہ اس بستی میں بھی ڈاکٹر موصوف غیر معمولی طور پر ہر دل عزیز ہیں۔
ڈاکٹر غرینیہ کو پہلی نظر دیکھ کر ہی دل میں مسرت کے کنول کھِل اٹھے۔ ان کی پشانی پر محبت اور خوش اخلاقی کے معصوم ستارے کھیل رہے تھے۔ اگرچہ وہ اس وقت بہت مصروف تھے‘ تاہم بڑی گرم جوشی سے ملے۔ ایسی گرم جوشی سے جس سے اخوتِ اسلامیہ کا نام زندہ ہے۔ وہ اپنے کام سے فارغ ہوئے تو چند رسمی باتوں کے بعد میں نے دریافت کیا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے اسباب کیا ہیں؟‘‘
’’قرآنِ پاک کی صرف ایک آیت۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’تو کیا آپ نے کسی مسلمان عالمِ دین سے قرآن پڑھا اور اس کی کسی ایک آیت نے آپ پر یہ اثر کیا؟‘‘ میں نے وضاحت چاہی۔
’’نہیں‘ میں نے کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کی۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔
’’پھر قرآن کی کوئی تفسیر پڑھی؟‘‘ میرے سوال میں حیرت کا عنصر شامل تھا۔
’’نہیں تفسیر بھی نہیں پڑھی۔‘‘
’’تو پھر یہ واقعہ کیونکر گزرا؟‘‘
ڈاکٹر صاحب نے کہنا شروع کیا:
’’میری جوانی سمندری سفروں میں گزری ہے۔ مجھے سمندر کے نظاروں اور سروں کا شوق اس قدر دامن گیر تھا کہ ہمیشہ آبی مخلوق بنا رہتا تھا۔ میں نے ایک بحری جہاز پر ملازمت حاصل کرلی۔ اس طرح میں اپنے شب و روز پانی اور آسمان کے درمیان بسر کرتا تھا اور اس قدر مسرور تھا کہ گویا میری زندگی کا مقصد یہی ہے۔ میرا دوسرا معمول کتابوں کے مطالعے میں منہمک رہنا تھا۔ جب بھی فارغ ہوتا کوئی کتاب لے کر بیٹھ جاتا۔ مطالعے کا یہی شوق مجھے قرآن کے ایک فرانسیسی ترجمے تک لے آیا۔ یہ ترجمہ موسیوسا قاری کے قلم سے تھا۔ میں اس نسخے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ سورۂ نور کی ایک آیت پر نظریں جم کر رہ گئیں۔ اس میں ایک سمندری نظارے کی کیفیت بیان کی گئی تھی۔ اس آیت میں کسی گمراہ شخص کی حالت کے متعلق ایک نہایت ہی عجیب تمثیل بجان کی گئی تھی یعنی’’گمراہ شخص حالتِ کفر میں اس طرح ٹامک ٹویئے مارتا ہے جیے ایک شخص اندھیری رات میں‘ جب کہ بادل بھی چھائے ہوئے ہوں‘ سمندر کی لہروں کے نیچے ہاتھ پائوں مارتا ہو۔‘‘
’’اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے اس پر ایک اور موج اور اس کے اوپر بادل‘ تاریکی پر تاریکی مسلط ہے‘ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔‘‘ (سورۃ نور آیت نمبر: 40)
جب میں نے یہ آیت پڑھی‘ میرا دل تمثیل کی عمدگی اور انداز بیان کی واقعیت سے بے حد متاثر ہوا اور میں نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ایسے شخص ہوں گے جن کے دن اور رات میری طرح سمندروں میں گزرے ہوں گے۔ لیکن اس خیال کے باوجود مجھے حیرت تھی اور پیغمبرِ اسلام کے کمالِ اسلوب کا اعتراف تھا کہ انہوں نے گمراہوں کی آوارگی اور ان کی جدوجہد کی بے حاصلی کو کیسی مختصر مگر بلیغ اور جامع الفاظ میں بیان کیا ہے گویا وہ خود رات کی تاریکی‘ بادلوں کی دبیز سیاہی میں موجوں کے طوفان میں ایک جہاز پر کھڑے ہیں اور ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی بدحواسی کو دیکھ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سمندری سفروں کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر بھی اس قدر گنتی کے الفاظ یں ایسی جامعیت کے ساتھ خطراتِ بحر کی صحیح کیفیت بیان نہیں کرسکتا۔
لیکن تحقیق کی تو اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد مجھے معلوم ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور انہوں نے زندگی بھر کبھی سمندر کا سفر نہیں کیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد میرا دل روشن ہو گیا۔ میں نے سمجھ لیا کہ یہ محمدؐ کی آواز نہیں بلکہ اس خدا کی آواز ہے جو رات کی تاریکی میں ہر ڈوبنے والے کی بے حاصلی کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ میںنے قرآن کا دوبارہ مطالعہ کیا اور خصوصاً متعلقہ آیت کا خوب غور سے تجزیہ کیا۔ اب میرے سامنے مسلمان ہوئے بغیر کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ چنانچہ شرحِ صدر کے ساتھ کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔‘‘

حصہ