پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد سے تفصیلی تبادلہ خیال
(دوسری قسط)
س: : مولانا سے متعلق کوئی بات، کوئی واقعہ،کوئی ایسی چیز جو آپ قابلِ ذکر سمجھتے ہوں؟
ڈاکٹر انیس احمد : میرے خیال میں جو چیز بڑی نمایاں ہے وہ ان کا خاکساری کا رویہ ہے۔ انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ سیدزادے ہیں، وہ ایک سلسلۂ تصوف کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ایک تحریک کے بانی ہیں، وہ ایک مفکر ہیں، وہ ایک مفسر ہیں۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو ایک انتہائی منکسرالمزاج فرد کی حیثیت سے پیش کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان میں وہ انانیت نہیں تھی جو علم پیدا کرتا ہے تو یہ ایک جائز تجزیہ ہوگا۔
س: : مولانا مودودی کی فکر انقلابی فکر ہے اور اس نے پوری امت کے اندر بیداری کی لہر پیدا کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مولانا کی فکر کی انقلابیت آج بھی جو مذہبی تنظمیں ہیں اُن کی جدوجہد میں موجود ہے، یا پس منظر میں چلی گئی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:فکر اور اس کی عملی شکل یہ دونوں ملے ہوئے ہیں، لیکن ضروری نہیں ہے کہ ان میں ہمیشہ یکسانیت پائی جائے۔ بعض مفکرین جیسے علامہ اقبال کی فکر بڑی اعلیٰ ہے، بڑی گہری ہے، بہت مستند ہے۔ لیکن کیاعلامہ اقبال کوئی تحریک پیدا کرسکے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس بنا پر وہ ناکام ہوگئے؟ مولانا مودودی نے فکر بھی پیش کی، ایک تحریک بھی پیدا کی، اور اس تحریک کو ایک عملی شکل دی۔ گویا کہ وہ ایک مفکر بھی ہیں اور ایک منتظم بھی ہیں جنہوں نے افراد کے مزاج اور ضروریات کے لحاظ سے ایک اجتماعیت پیدا کی۔ یہ دو بالکل الگ چیزیں ہیں۔ ہر قائد ایسا نہیں ہوسکتا۔ جن لوگوں کو انہوں نے متاثر کیا ہو، ضروری نہیں ہے کہ علمی لحاظ سے انہیں وہ مقام حاصل ہو، نہ یہ ضروری ہے کہ ہر ایک ایسا منتظم اعلیٰ ہو کہ وہ چھوٹے بڑے کو ساتھ لے کر چلنے کا قائل ہو۔ اسی لیے کسی بھی تحریک میںان چیزوں کا پیدا ہونا ایک فکری عمل ہے، اور اگر اس تحریک میں جو انہوں نے برپا کی آپ یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی قیادت میں علمی کمی، جذباتیت یا بعض اوقات عدم توازن پایا جاتا ہے تو یہ ایک قدرتی عمل ہے، آپ ہر ایک کو ایک سانچے میں نہیں ڈھال سکتے، لیکن آپ یہ لازماً کرسکتے ہیں کہ جو بھی اہداف ہیں وہ آپ کی نظر میں رہیں، اور ہدف ہمیشہ سے یہی رہا ہے تحریک اسلامی کا کہ ایسے افراد پیدا کرے جن میں فکر بھی پاکیزہ ہو، سیرت بھی پاکیزہ ہو، اور جو معاشرے میں تبدیلی لانے والے بن سکیں۔ یہ تین پہلو ایسے ہیں جو مولانا مودودی نے اپنی تحریر اور زندگی سے پیش کیے، اور یہی میرے نزدیک ان کی تحریک کی خصوصیت کا پہلو ہے۔
س: :ایک خیال یہ ہے کہ تبدیلی کے لیے انتخابی سیاست کے راستے پر مولانا اپنے آخری دنوں میں مایوس تھے وہ شاید کچھ عرصے اور حیات رہتے تو اس طریقہ تبدیلی سے رجوع کرلیتے۔؟آپ اس خیال کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: میرا خیال ہے کہ مولانا مودودی نے بہت سوچ بچار کے بعد وہ مؤقف اختیار کیا تھا جس پر وہ آخر تک قائم رہے، انہوں نے بہت تحقیق سے سے فاشزم، کمیونزم اور سرمایہ داری کا مطالعہ کیا تھا، جس کی واضح مثال ان کی ’’تنقیحات‘‘ اور ’’سود‘‘ سمیت وہ تمام تحریرات ہیں جو انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑی ہیں۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تبدیلی اگر آئے گی تو وہ دستوری ذرائع ہی سے آئے گی،جس کا مطلب یہ نہیںہے کہ برطانوی پارلیمانی نظام یا امریکی صدراتی نظام ہی مسائل کا حل ہے۔دستوری ذرائع کا مطلب یہ ہے کہ توڑ پھوڑ کی سیاست سے تبدیلی نہیں آسکتی۔تبدیلی کے لیے طویل عرصہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت کی ضرورت ہے۔ تبدیلی ایک فطری عمل ہے، جب بھی افرادکار اس قابل ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ امامت، امارت اور قیادت سونپ دے، وہ اس میں تاخیر نہیں کرے گا۔تعمیری تبدیلی مشروط ہے ان انسانوں کی جماعت سے جو قرآن کی چلتی پھرتی تصویر ہوں۔رہا یہ معاملہ کہ جہادی طریقہ اسلامی نہیں ہے تو مولانا نے اس وقت جب پوری امت مسلمہ معذرت پسند رویہ کے ساتھ جہاد پر بات کرنے سے گریز کر رہی تھی کھل کر علمی اور قرآنی دلائل سے یہ بات ثابت کی کہ جہاد اسلام کا رکن ہے اور قیامت تک رہے گا۔ہاں جہاد کا مطلب نہ خون خرابہ ہے نہ خود کش حملے بلکہ وہ منظم و مرتب اور ذمہ دارانہ جدوجہد جس میں جو کچھ انسان کے اختیار میں ہے اسے لگا دیا جائے۔ گویا تبدیلی دستوری اور پرامن ذرائع سے ہونی چاہیے، جو اسی وقت ممکن ہے جب افراد کی تربیت فکری اور عملی تطہیرکی کی شکل میں ہواور وہ تبدیلی کا ذریعہ بنے۔یہ بات پیش نظر رہے کہ مولانا قوت کے استعمال کو مکمل رد نہیں کرتے۔اس کی واضح مثال ان کی وہ علمی کاوش ہے جسے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘کا عنوان دیا گیا ہے۔ وہ جہاد کے موضوع پر بغیر کسی معذرت کے دوٹوک بات کرتے ہیں۔ یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ جہاد پر مولانا کی اس تحریر کے محرک مولانا محمد علی جوہر تھے اور جہاد کے موضوع پر مولانا کے یہ مضامین توازن و اعتدال کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں جہاد ایک اصلاحی عمل ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ جہاد ایک خونریز عمل ہے۔ اور اصلاحی عمل کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس حد تک ممکن ہوگا ایک طبیب کی طرح سے حالات کی اصلاح کریں گے۔ لیکن اگر کہیں پر جراحت کی ضرورت ہے تو اس بناء پر کہ جراحت ایک نازک عمل ہے کیاآپ مریض کو مرنے دیں گے؟ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوا کہ آپ جراحت کا نشتر لے کر ہر ایک کو اس سے کریدتے پھریں۔ گویا کہ ان کا جو مائنڈ سیٹ ہے وہ یہ کہ آپ دستوری ذرائع سے، وہ ذرائع جو پبلک ہیں، جو صبر آزما ہیں، جو طویل ہیں، جن کے لیے ضروری ہے کہ انبیائے کرام کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے آپ نرم گفتاری کے ساتھ، بھلائی کے ساتھ ایک چیز کو لوگوں کے دلوں میں بٹھائیں، ان میں تبدیلی پیدا ہو، اس تبدیلی کے اثرات ظاہر ہوں ان کے طرزِعمل سے، ان کے معاملات وہ ہوں جو دوسروں کے لیے مثال ہوں، ایک مخالف بھی یہ کہے کہ مجھے اگر کسی رفاہی کام میں پیسہ لگانا ہے تو چاہے میں ووٹ ان کو دوں نہ دوں لیکن یہی لوگ امانت دار اور قابلِ اعتماد ہیں۔ ان کے معاملات درست ہیں۔اس لیے اللہ کے نام پر جو کچھ خرچ کرنا ہے تو وہ ان کے ذریعے خرچ ہو۔ یہ وہ امیج ہے جو اُسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب آپ ایک طویل عمل کے ذریعے افراد کی تطہیرِ فکر کرتے ہوئے، تعمیرِ سیرت کرتے ہوئے انہیں بطور ایک نمونے کے پیش کریں کہ یہ وہ عام شہری ہیں جن کے ذریعے مثالی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔
س: : مولانا نے بھی اس نظام کو مختلف جگہوں پر گلا سڑا نظام کہا، زہر کے پیالوں سے تشبیہ دی، اس کی کیا وجہ تھی؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:ان تمام چیزوں کا جب میں تجزیہ کرتا ہوں تو صرف دو الفاظ ان تمام چیزوں کا حل ہیں، ایک ہے تبدیلیٔ اقتدار اور ایک ہے تبدیلیٔ نظام۔ مولانا قائل ہیں تبدیلیٔ نظام کے جبکہ تبدیلیٔ اقتدار مسئلے کا حل نہیں ہوتی لیکن حل معلوم ہوتی ہے۔ حزب التحریر نے یہی سوچا کہ پہلے تبدیلی اقتدار ہواور جب اقتدار ہاتھ میں آ جائے تو تبدیلی کا عمل ہوگا اور پھر پہاڑی کی چوٹی سے نور بہتا ہوا آجائے گا نیچے تک، مولانا اس کے قائل نہیں ہیں، مولانا یہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلیٔ نظام ہونا چاہیے۔ نظام کیسے بدلے گا؟ توڑ پھوڑ سے؟ خون خرابے سے؟ جنگ و جدال سے؟ نہیں! وہ نظام بدلے گا اس طریقے سے جس نظام میں آپ افراد کو تیار کرسکیں۔ مولانا مودودی اور علامہ اسد کا مشترکہ موقف اگر آپ سمجھنا چاہیں تو دونوں کو پڑھیے تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ دونوں اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تحریک کے اندر جو بڑی کمی رہی وہ یہ تھی کہ سرکردہ افراد وہ تھے جو نواب، جاگیردار، انگریز کی طرف سے اعزاز یافتہ بیوروکریٹس، جن کو یہ بات معلوم تھی کہ جمعہ کی نماز پڑھنا بہت کافی ہے اسلام کے قیام کے لیے اور یہ بات علامہ اسد نے اپنی تحریرات میں کھل کر بیان کی ہے اور اس کا ذکر مولانا مودودی کی تحریروں میں بھی ملتاہے، کیا محض ملک حاصل کرنا ہے یا وہ نظام جس کے ذریعے اس ملک میں وہ ادارے ہوں جن میں اسلامی اصول کارفرما ہوں اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ کے پاس ایسے معیشت کے ماہر، دفاع کے ماہر، سائنس کے ماہرین، ادب و ثقافت کے ماہرین ہوں جن کا نقطۂ نظر اسلامی ہو، اس کا نام ہے تبدیلیٔ نظام۔ تبدیلیٔ نظام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ حکومت پر قابض ہوگئے، آپ نے جھنڈا لگا لیا اسلام کا اور جو کچھ ہورہا ہے وہ ہوتا رہے۔ یہ بنیادی فرق اگر سمجھ لیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مولانا مودودی تبدیلیٔ نظام کے داعی ہیں، تبدیلیِ اقتدار کے قائل نہیں ہیں۔
س: پاکستان7 194ء میں معرضِ و جود میں آیا اور1971ء میں دولخت ہوگیا۔ آخر 24سال میں ایسا کیا ہوا کہ ہمارا مشرقی بازو ہم سے الگ ہوگیا ؟
پروفیسرڈاکٹر انیس احمد : دیکھیے! پاکستان نہیں ٹوٹا بلکہ وہ افراد جو پاکستان کے قائل نہیں تھے وہ پاکستان کے جسم کے ایک حصے کو یک کھلی حکمت عملی کے ذریعہ کاٹنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ وہ افراد تھے جو روزِ اوّل سے لسانیت، صوبائیت کے علَم بردار تھے، جن کی نگاہ میں پاکستانیت محض ایک تبدیلیٔ نام تھی اور انہوں نے یہ چاہا کہ وہ بنگال کی زبان کی تحریک کو، اور دس فیصدہندوآبادی کے90فیصد مسلمان آبادی کے ہونے کے باوجود عدم توازن پیدا کر کے ایک تبدیلی وہاں پر لے آئیں۔ اگر وہ افراد جو اس کے محرک تھے اور وہ جن کے ہاتھوں یہ کام ہوا، تصورِِ پاکستان کے قائل ہوتے تو یہ بات کبھی نہ ہوتی۔ میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود شیخ مجیب الرحمٰن نے شاید خود بھی نہ سوچا ہو کہ وہ الگ ہوجائیں گے۔ جوبھی مذاکرات ہورہے تھے وہ تھے بارگیننگ آف پاور کے، لیکن جب ایک شخص کو آپ دیوار سے لگادیں اور کہیں کہ ’’تم کچھ نہیں، سب کچھ ہم ہیں، اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ تو وہ مجبور ہوگیا، اورجب آپ نے کہا کہ ’’اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی جو اُس طرف رخ کرے گا‘‘ یہ سیاست کے لیے بہت ہی نازیبا کلمات ہیں، کیونکہ سیاست کا مطلب ہوتا ہے کہ دروازے کھلے رہیں بند نہ ہوںیہ ہمارا اپنا ایک سیاسی گناہ تھا جس کی بنا پر ملک دو لخت ہوا۔ اس کا تعلق نظریۂ پاکستان کے ساتھ نہیں ہے۔ نظریۂ پاکستان تو آج بھی برقرار ہے، آج بھی اتنا ہی زندہ ہے جتنا پہلے تھا، اور جو کچھ آج مودی ہندوستان میںکر رہا ہے اس نے ثابت کردیا کہ نظریہ پاکستان ہی درست تھا۔ یہ جو تصور تھا کہ ہندو اور مسلمان ساتھ رہ سکتے ہیں وہ ختم ہو چکا ہے۔ چار مہینے سے جو ظلم و ستم کشمیر میں ہورہا ہے وہ اپنی جگہ، لیکن جو جو ذلت آمیز رویہ ہندوستان میں سات دہائیوں سے مسلمانوں کے سا تھ ہندوئوں کا رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر آج پاکستان نہ بنتا اور آپ ایک قوم ہوتے تو کیا آپ آج اپنا نام باقی رکھ سکتے تھے؟ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہاں کے نظامِ تعلیم نے، وہاں کے ماحول نے اُن گھرانوں کو جو اپنے آپ کو بہت مسلمان گھرانا کہتے تھے، یہ کہنے پر آمادہ کردیا کہ ہم تو اصل میں ہندی ہیں، اسلام ہمارا ذاتی مذہب ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ان کا مقصود تھا، اور آج بھی ہے۔اوراسی کے خلاف علامہ اقبال،قائداعظم، مولانا مودودی، علامہ اسد نے جہاد کیا، اور یہ چیز ان حالیہ واقعات سے ثابت ہوجاتی ہے کہ نظریۂ پاکستان درست تھا اور آج بھی اتنا ہی زندہ ہے جتنا پہلے تھا، کیونکہ اس کی بنیاد یہی تھی کہ ہماری قومیت، ہماری نسل، ہماری نسبت، پہچان اور شخصیت صرف اسلام ہے۔ ہم رنگ و نسل، زبان اور کسی اور عصبیت کے بندے نہیں ہیں، ہم صرف اللہ کے بندے ہیں۔ اس بنیاد پرہم نے ایک ملک کو حاصل کیا اور قائم کیا اور اسی چیز کو آج انڈیا میں ثابت کیا جارہا ہے کہ تم جو مسلمان اپنے آپ کو کہتے ہو یہ تمہاری جگہ نہیں ہے، یہ تو ہندوئوں کی جگہ ہے، ہندوتوا ہے، مسلمانوں کا کام یہاں پرکیا ہے؟ تم کیسے کہتے ہو کہ ہمارے آبا و اجداد دو سو سال سے یہاں پر تھے؟ اور ہم ہندوستانی ہیں، ہم نہیں مانتے اس بات کو۔ یہ کس بات کا ثبوت ہے! یعنی پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ صرف سقوطِ ڈھاکہ ہی نہیں بلکہ جو بھی حالات اس خطے میں رہے ہیں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ نظریہ آج بھی زندہ ہے اور درست تھا۔ اس کی موت کبھی واقع نہیں ہوئی۔ یہ محض ہمارا واہمہ ہے، اور خاص طور پر جو افراد خود کو لبرل، سیکولر اور روشن خیال قرار دیتے ہیں یہ ان کا پھیلایا ہوا واہمہ ہے جس کو ہمارے ابلاغ عامہ نے، صحافت میں اور برقی ابلاغ دونوں میں اتنا دوہرایا ہے کہ عوام کا ذہن دھندلا گیا ہے۔
س: لیکن کیا ملک ٹوٹنے کی ذمہ داری صرف بھٹو کے چند جملوں پرہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: میں نے قطعاً یہ نہیں کہا، میں نے کہا کہ وہ افراد جو نظریۂ پاکستان سے وابستگی اور وفاداری نہیں رکھتے تھے، یہ بیوروکریٹس بھی تھے، فوج میں بھی تھے، سیاست میں بھی تھے، تاجر بھی تھے۔ آپ بتائیے کہ قائداعظم کے ساتھ جو لوگ شامل ہوئے کیا وہ سرکاری اعزاز یافتہ نہیں تھے؟ہمارے پہلے وزیر خارجہ ’’سر‘‘کا خطاب رکھتے تھے۔ یہ لوگ اسلام کے وفادارتھے یا تاجِ برطانیہ کے وفادارتھے؟ یہ کس کے خلیفہ ہوسکتے تھے؟ جو بہت سے افراد ہمارے یہاں برسرِ اقتدار آئے آپ کو علم ہے کہ جب چودھری رحمت علی نے پاکستان کا نام تجویز کیاتو کس نے اس کی مخالفت کی؟ ظفر اللہ خاں نے کہا یہ بالکل ناقابلِ عمل تصور ہے، بعد میں جو جو حالات پیش آئے، جو بھٹو نے کیا وہ اسی ذہنیت کا تسلسل تھا جو ہمارے پورے نظام پر قابض ہے۔
(جاری ہے)