سوشل میڈیا ۔ ویلیو نیوٹرل نہیں ہے، مطلب ایسا نہیں ہے جیسا لوگ لاعلمی میں چھری والی مثال میں پیش کرتے ہیں کہ چاہو تو آلو کاٹ لو چاہو تو گردن کہ چاقو اپنی جگہ تو بے قصور ہے، نیوٹرل ہے۔ خودکچھ کر نہیں سکتا۔یقین مانیں یہ وہ عظیم “لالی پاپ “ہے جس نے سب کو ایسا دھوکے میں ڈال رکھا ہے کہ شاید اس سے بڑا دھوکہ کوئی اور نہیںہو سکتا زہر کو تریاق سمجھ کر پینے کے لیے۔ان کو یہ لگتا ہے کہ ساری ذمہ داری تو صرف استعمال کرنے والے کی ہے۔ چاہے تو وہ کوئی درس دے بیٹھ کر یا گانا سنائے، کوئی دینی معلومات ڈالے یا کوئی فحش تصویر یہ سب کرنے والے پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ غلط تصور اس لیے ہی پیدا کیا گیا ہے کہ لوگ کبھی میڈیا کی مابعد الطبیعیات کو نہ جان سکیں اورنہ سمجھ سکیں،بس ظاہری چکا چوند میںہی کھوئے رہیں۔
میں اپنی تحریروں میں مستقل بتاتارہا ہوںکہ اس وقت دنیا کی مہنگی اور قیمتی ترین پروڈکٹ تیل، گیس ،پیٹرول نہیں بلکہ ڈیٹا ہے یعنی معلومات ۔اب 2022 تک دنیا میں سب سے بڑا ڈیٹا “انسانی رویہ “یعنی Human Behaviour کا بن چکا ہے۔مثال سے سمجھنا ہے تو ذرا دُنیا بھر کے یو ٹیوب کے مشہورترین وی لاگرزکو چیک توکریں۔آپ ذرا فیس بک، انسٹا گرام پر دو تین منٹ اسکرولنگ تو کریں۔ذرا “شارٹس “دیکھیں۔پھر میری اس بات کو کم از کم 2بار پڑھیں ۔”سوشل میڈیا ہر نج کو ظاہر داری میں لانے کا عنوان بن چکا ہے”۔جی ہاں۔ نج سےمراد”پرائیوٹ”۔ ذاتی۔گھریلو۔اندرونی۔ مطلب یہ سارے معاملات بلکہ یوں کہیں بیڈروم تک پہنچ گیا ہے۔سوشل میڈیا کی سرایت کے بعد اب گھر اور باہر کی تفریق کہاں باقی رہی ہے ؟کوئی بتائےگامجھے؟سماجی میڈیا کے اس دور میں اب ہر قسم کی نجی زندگی عام ہو چکی ہے۔پیدائش،شادی،سیر تفریح ، موت،شاپنگ،دسترخوان،کھانا پکانا،ہوٹلنگ، ایکسرسائز ۔ واک، دوستیاں، نوکریاں، نماز،حج، افطار، عمرہ، اسکول کالج داخلے،ان کے نتائج،سیلاب،زلزلہ،الیکشن،کاروبار،سماجی مسائل،ذہنی علاج،جسمانی علاج،روحانی علاج،مذہبیات،فقہی معاملات،جنسیات سمیت سب کچھ تو پبلک ہو چکا ہے۔گھر کی کوئی بات رہی ہی نہیں۔ہر انسان جتنا اپنی نجی زندگی ظاہر کرتا ہے اتنا ہی مقبول ہوتا ہے۔یہ جاننے کے باوجود بھی کہ ان ساری معلومات سے کئی جرائم پیشہ افراد کئی گھناونے جرائم کر رہے ہیں،مگر لائکس، سبسکرائب کا مزہ نشے سے بدتر کیفیت اختیار کر چکا ہے۔یہاں تک کہ اب یہ لائک، سبسکرائب فروخت بھی ہو رہے ہیں ۔آئے دن میرے پاس میسج آتاہے کہ اتنے لائکس بڑھانے ہیں تو اتنے پیسے دیں۔ تازہ ترین اشتہار یہ آیا جس میں یوٹیوب کے ایک ہزار سبسکرائبر صرف 1200روپے میںاور 15 دن کے اندر۔انسٹاگرام کے ایک ہزار لائکس صرف 100روپے میں۔ایک ہزار ویوز صرف150روپے میں اور1ہزار فالوورز صرف250روپے میں۔اسی طرح ٹک ٹاک کے بھی ریٹس تھے ۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ ہر ہر سطح پراس سے پوری “اٹینشن اکانومی” کھڑی ہوتی جا رہی ہے۔لوکل آدمی یہ کام کر رہا ہے، اس سے اوپر ڈجیٹل مارکیٹنگ والے ،اس سے اوپر متعلقہ پلیٹ فارمز، پھر مزید اوپر گوگل بابا، اب اس میں حکومتیں ملوث ہونگی۔ سفید فام نسلی تعصب کا شکار مشہور امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے اوپر یہی الزام ہی تو لگا تھا ۔کہاگیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مستقل چوبیسوں گھنٹے امریکیوں کو مشتعل کرنے اور ان کی توجہ ہٹانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرکے اپنا ایجنڈا آگے بڑھایا، یہ صرف پوسٹیں کرنے سے نہیں بلکہ پوسٹوں کی ریچ ،لائکس بڑھوانےسے ہوا۔یہ باتیں صرف میرا تجزیہ نہیں ہیں۔ اس ضمن میں حوالے کے طور پر ایک مضمون کی سرخی پیش ہے جسے آپ مکمل پڑھنے کے لیے گوگل کر کے باآسانی نکال سکتے ہیں۔
Big Tech’s power in the attention economy is a challenge to democracy
According to philosopher Sebastian Watzl, what you pay attention to is a moral question that concerns society as a whole.
اس ہفتہ ایران میں حجاب کا معاملہ اسی کی اہم مثال ہے۔مطلب سیاسی مقاصد کے لیےمنصوبہ بندی کے ساتھ کسی ایشو کا مصنوعی پھیلاو تاکہ وہ توجہ پا سکے۔آپ دیکھیں کہ کیسے ایران کے اندر حجاب کے خلاف خواتین کی مہم کو زبردست کوریج دی جا رہی ہے۔16 صوبوں میں بتا رہے ہیں کہ یہ احتجاج پھیل چکاہے۔ حجاب قوانین پر عمل نہ کرنے کے جرم میں گرفتار کرد خاتون، مہسا امینی ،پولیس کی حراست کے دوران کومہ میں چلی گئی اور بعد ازاں مر گئی۔ 22سالہ خاتون تہران کے ایک میٹرو اسٹیشن کے باہر سے ایرانی قوانین کی سرعام خلاف ورزی کرنے پر گرفتار ہوئی۔ جان بوجھ کر خاتون پر تشدد کی خبریں پھیلا کر ایشو کو سوشل میڈیا سے ہائپ دی گئی اور بعد ازاں مظاہرے کرادیئے گئے۔پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں دو لوگ بھی مارےگئے۔حکومتی بیانیے کے مطابق خاتون کو پہلے سے ہی کوئی دماغی مسائل تھے۔مگر پورا گیم حجاب کے خلاف عوامی رد عمل کےلیے آن رہا۔اس میںاصل بات سب نے محو کر دی۔کچھ لمحوں کے لیے مان لیا جائے کہ خاتون کی موت اگر پولیس تشدد سے ہوئی تو حجاب قوانین کیسے و کہاں درمیان میں آگئے؟
پولیس کےمبینہ تشدد آمیز سلوک روکنے کے مطالبے کے بجائے حجاب کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ یہ قوانین ایران میں دو ہفتے قبل تو نہیں بنے ، یہ تو ایران میں 40 سال سے نافذ ہیں، وہاں کی معاشرت کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس لیے آپ نوٹ کریںکہ ساراز ور حجاب پر ہے۔یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ کون چاہتاہوگا؟یقین جانیں کہ یہ سارے ٹرینڈ ، ان ساری پوسٹوں کومنصوبہ بندی سے بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔
بعینہ یہی مثال سمجھنے کے لیے بدھ۔ جمعرات کو پاکستانی ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ میں ایل جی بی ٹی کیو کے ٹرینڈ کا ابھرنا تھا، صرف 9ہزار ٹوئیٹس پر وہ دو دن ٹرینڈ لسٹ میں دندناتا رہا اور آپ اس کی ذیل میں جاتے تو پوسٹیں دیکھ کر او ر ٹائمنگ دیکھ کرمیری بات کا یقین کیا جا سکتا ہے۔دوسری طرف صاف محسوس کیا گیا کہ سوشل میڈیا پربرطانیہ کے شہر لسٹر میں ایشیا کپ کے نتائج کے بعد ہونے والے مسلم ہندو جھگڑوں کو پوری طرح دبایا گیا، کیونکہ اس موضوع پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے یکجا ہونے کےامکانات واضح تھے۔
اب ایسے میں کوئی کیسے کہے گا کہ سوشل میڈیا ویلیو نیوٹرل ہے؟یہ کیسا نیوٹرل ہے جودینی و معاشرتی اقدار کا مکمل قتل کر رہا ہے پھر بھی معصوم ہے؟دینی مباحث یا مذہبی تعلیمات عام کرنے کی نیت والے بتاہی نہیں سکتےکہ کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں معاشرے پر انکی تبلیغ کے؟یقین مانیں سب کچھ صرف لائک، فالوورز، سبسکرائبرز، کمنٹس کے دائرے میں نظرآئےگا ۔دوسری جانب یہ سوشل میڈیا آپ کی ہر نج کو، پسند نا پسند کو، خواہشات کو، گفتگو کو، ارادوں کو بھی بیچ رہا ہے۔آپ کی پرائیوسی کو، آپ کی اسکرین پر بیٹھنے،دیکھنے کے عمل کو فروخت کررہا ہے۔ان ساری معلومات کا سب سے بڑا خریدار “گوگل“ بن کر سامنے آیا ہے۔اس سوشل میڈیا نے دنیا میں اس وقت نئی معیشت جو قائم کی ہے، وہ Attention Economyکہلاتی ہے ، جس کا ذکر 2 مرتبہ اوپر کرا ہے۔ سوشل میڈیا نے جو اقدار وضع کی ہیں اس کے مطابق اسکرین کے تعلقات ، حقیقی انسانی تعلقات پرغالب آچکے ہیں اور ان کے درمیان میں اب آگیا ہے “ڈالر”۔یقین مانیں کہ وڈیوز یا پوسٹ کے لائک ، سبسکرائب، اس حد تک حاوی ہوجاتے ہیں کہ انسان زمان و مکان کاایک قیدی بن جاتا ہے اوردوسری جانب “کوالٹی آف کمیونیکیشن “پست ہوتا جا رہا ہے۔ اس سارے عمل سے آپ مستقل فروخت ہو رہے ہوتے ہیں۔مال کی طمع اولین ہدف بن جاتا ہے جو اس عا لمی سرمایہ دارانہ باطل نظام کا اصل مطلوب ہے۔انسان اپنی پوری علمیت کو از خود اسکے مطابق ڈھالتا ہے اور اس سمندر میں چھلانگ لگا ڈالتا ہے۔نتیجہ دیکھیں کہ منبر و محراب جو 1400 سال سے تربیت ،تذکیر کا مسنون مرکز تھے اب اس کی جگہ اسٹوڈیو نے بتدریج لے لی ہے۔اب ایک عالم دین کو اپنے اطراف ، اپنے محلے، اپنے نمازیوں، اپنے قریبی افراد سے زیادہ پوری د نیامیں اسلام کی نمائندگی اور اسلام پھیلانے کی فکر کہیں زیادہ ہوچکی ہے ۔
گوگل سے یہ ہمارا ڈیٹا خریدنے والی سرفہرست قوتیں طاقتور کارپوریشن یا ملٹی نیشنل ہیں جو “ڈیجیٹل مستقبل“ کو طاقت کی نئی شکل کے طور پربخوبی سمجھتی ہیں۔ ان کارپوریشنوں نے ڈجیٹل مستقبل اور اٹینشن اکانومی پر تسلط کی خاطر “سرمایہ دارانہ نگرانی” کے تصور کو جنم دیا ہے۔یہ نگرانی ہمارے رویوں کی پیش گوئی اور ساتھ ساتھ اسکو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یعنی میں آپ کو وہی سوچنے پر مجبور کرونگا جو میں چاہوں گا اور پھر وہی چیز آپ سےخریدواؤں گا جو میں چاہوں گا۔اس موضوع پر انتہائی زبردست تفصیلی و تحقیقی کام شوشانا زبوف نے اپنی کتاب “سرویلنس کیپٹلزم“ میں پیش کیا ہے۔مصنفہ کے مطابق رویے میں تبدیلی کا عالمی فن اکیسویں صدی میں انسانی فطرت کو اسی طرح خطرے میں ڈال رہا ہے جس طرح صنعتی سرمایہ داری نے بیسویں صدی میں قدرتی دنیا کو بگاڑ دیاتھا۔ذرا تصور کریں کہ ایک وقت تھا کہ اپنے مادی فائدے کے لیے انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی ، اب اپنے مادی فائدے کے لیے انسانوں کے نجی رویے اور پسند ناپسند بیچی و خریدیں جا رہی ہیں۔
Production of goods and services is subordinated to a new “means of behavioral modification.”
یقین مانیں یہ جملہ بطور واقعاتی حقیقت بہت زیادہ خطرناک ہے۔اس سے بھی زیادہ خطرناک بات سوشانہ نے اپنی کتاب میں یہ کہی کہ
With little resistance from law or society, surveillance capitalism is on the verge of dominating the social order and shaping the digital future -if we let it.
جی ہاں۔ہم خود، ہم خود ہی تو اپنی معلومات ڈالتے ہیں، خود ہی تو ایپلیکیشن کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے کونٹیکٹس، کیمرے، لوکیشن، گیلری تک رسائی کے لیے۔پھر جو کچھ وہ ہمارابیچ دیتے ہیں اور با آسانی کہتے ہیں کہ اس میں کیا برائی ہے کہ میں نے آپ کے دل کی خواہش کہاں سے کس سے پوری ہوگی میں نے اس میں آپکی مفت مدد کردی، آپ کو لگتا ہے کہ یہ بہت سادہ بات ہے؟؟ بہرحال اس موضوع پر گفتگو آئندہ بھی وقتا فوقتاً گفتگوجاری رہے گی۔
اس ہفتہ چلنے والے اہم ٹرینڈ میں “اسرائیلی ایجنٹ بے نقاب”، یوں اہمیت کا حامل رہا کہ اس کی آڑ میں تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے عوام کویہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مذہب کے نام پریادینی جماعتوں کی ہی اصل میں اسرائیلی ایجنٹ ہیں۔یہ بیانیہ انہوں نے خالص “بغض شہباز “میں بنایاتھا کہ جس نے ملعون فرانسیسی وزیر اعظم سے ملاقات کرکے سیلابی مدد قبول کی۔اب فرانس کے معاملے پر تحریک لبیک کا بھاری موقف ،کئی شہادتیں، عظیم الشان دھرنے سب کو دوبارہ بے اثر قرارد ینے اور شہباز کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اُکسایا گیا۔دوسری جانب مہنگائی کی بڑھتی لہر پر جے یو آئی کا پچھلی حکومت میں بیانیہ اب اس سے کئی گنا بڑھتی مہنگائی میں خاموش رہنا، اسرائیل جانے والے وفد میں حکومتی نمائندوں کا شامل ہونا ان کے خلاف پروپیگنڈے کی وجہ بن گیا۔جبکہ تحریک لبیک نے کسی قسم کی رعایت و مصلحت سے بچتے ہوئے صاف صاف پالیسی دیتے ہوئے ٹرینڈ چلایا کہ “گستاخوں کے حمایتی کنفرم لعنتی” مگر انہوں نے اس میں عمران،شہباز دونوں کو دھویا۔دوسری جانب ن لیگ کی جانب سے “انقلاب کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں” کا ٹرینڈ چلایا گیا ، جس میں عمران خان کی امریکی وفد سے ملاقا ت سمیت کئی ایشوز اٹھائے گئے۔عمران خان کی حمایت میں “تم ہوتے کون ہو ڈرانے والے” کا ٹرینڈ چلایا گیا۔
سوشل میڈیا پر کئی افراد کو سمجھانے کے باوجود بھی “ٹرانسجینڈربل“موضوع بنا رہا۔ٹاپ ٹرینڈ بھی بنا۔ مذہبی جذباتیت میں ڈوب کر لوگ ثواب دارین سمجھ کر کروڑوں لوگوں کو وہ کچھ سمجھاتے رہے جو عالمی قوتیں قانون منظور کروا کر بھی نہ کرسکیں۔میں نے کئی افراد کو بہت مدلل انداز سے سمجھایا، کوئی ایک انسان میرے کسی سوال کا جواب نہ دے سکا مگر ازخود ثواب کمانے کا جعلی ٹوٹکا لیے سوشل میڈیا پر نامنظور ۔۔ نامنظور کی فائرنگ کرتا رہا۔میں آپ کی تسلی کےلیے بھی سوال دہرا دیتا ہوں۔
1: بل کے نام “ٹرانسجینڈر بل”سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی مقامی مسئلہ ہے ہی نہیں جس کے تحت یہ پاس ہوا ہے اس کے پیچھے عالمی قوتیں مطلب آقا کھڑے ہیں۔پاکستان کی جامعات میں یہ موضوع دس سال سے پڑھایا جا رہا ہے ، تو کیا 75 سال سےہمارے حکمرانوں کی ایسی کوئی تاریخ ہے جو ان کو صاف منع کر سکےیا اس طرح کے غیر موثر اور 4 سال بعد کیے جانے والے عوامی پریشر سے آج تک ہوا کیا ہے؟
2:ترمیم یعنی میڈیکل بورڈ کے بعد بھی یہ قانون غیر شرعی ہی رہےگا، تو اس وقت کیا ہوگا جب غیر مسلم اس قانون کے حق میں کھڑے ہوں گے تو پھر کیا شراب کی طرح یہ بھی غیر مسلموں کے لیے منظور کرلیاجائیگا؟
3: کیا پاکستانی معاشرہ بحیثیت مجموعی ایسی کیفیت کا شکار ہو چکا ہے کہ لوگ مرد کی مرد سے شادی صر ف شناختی کارڈ پر عورت لکھادیکھ کر کرادیں گے یا اہل پاکستان کے نزدیک یہ کوئی بہت اچھا فعل سمجھا جانے لگاہے؟
4: اس قانون کے بننےکے بعد سے ۴ سال تک اہل پاکستان اس قانون کے بار ے میں زیادہ جانتے تھے یا اب مخالفت کی تحریک میں ہر ہر شخص جینڈر اسٹڈیز کا استاد بن کر سب کچھ سکھا رہا ہے؟
5: شناختی کارڈ سے جنس کا خانہ نکال دیاجائے تو کیا یہ مسئلہ ختم نہیں
ہوسکتا۔کیا ضروری ہے ریاست جنس کے بارے میں فیصلہ کرے لوگ اسلامی علمیت کے مطابق مشاہدے کی بنیاد پر کیوں نہ کریں جیسا صدیوں سے کرتے آرہے ہیں؟