پردہ داری

296

چھاجوں برستی بارش کہہ رہی تھی کہ رکنا نہیں‘ تھمنا نہیں… بڑھے چلو… بڑھے چلو۔ اور بوندوں کی قطار تھی جو ایک کے بعد ایک قطار اندر قطار سے موسلا دھار اور موسلا دھار سے دھواں دار کی صورت برستی چلی جا رہی تھی۔
تنگ و تاریک اندھیرے کمرے میں ٹوٹے ہوئے اکلوتے شہتیر کے سہارے مٹھل‘ اُس کی بیوی رانی اور اس کی گود میں دو سال کا موسیٰ سہمے ٹھٹھرتے کھڑے تھے۔
’’مٹھل! یہ بالا (شہتیر) بھی ٹوٹ گیا تو ہم کیا کریں گے ؟‘‘رانی نے اپنے خدشات کو زبان دی۔
’’اوئے جھلیئے یہ بھی ٹوٹ گیا تو اللہ کی زمین بہت وسیع ہے کہیں نہ کہیں پناہ مل ہی جائے گی تو پریشان نہ ہو۔‘‘ مٹھل نے اس سے زیادہ گویا خود کو تسلی دی۔
’’پر مٹھل! تُو ایسا کر ہم ابھی نکل پڑتے ہیں یہ بالا گرا تو ہم اس کے نیچے دب جائیں گے اور پھر ایسے مر گئے تو مٹھل…‘‘رانی کی بولتے ہوئے ہچکی بندھ گئی۔
’’کیا ہوا زندگی ہوگی تو بچ جائیں گے ورنہ جہاں اور سب مرے ہیں ہم بھی مر جائیں گے‘ سب کے ساتھ ہی ہیں۔‘‘
مٹھل ارد گرد کی لاشیں دیکھ رہا تھا جانتا تھا، سمجھ رہا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں بہت زور کی سنسناہٹ ہو رہی تھی۔ موت کی پھریری کیسی ہوتی ہے یہ موت کے سامنے کھڑے ہوئے ہی جان سکتے ہیں۔
’’نہیں مٹھل! مجھے موت کا خوف نہیں ہے۔‘‘ رانی نے اپنے گرد لپٹی چادر کو اپنے چہرے کے گرد اور سختی سے لپیٹا جیسے چہرے کی کھال کے ساتھ اس چادر کو سی دینے کی خواہش ہو۔
’’پھر…؟‘‘مٹھل نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’ہم جب مر گئے تو، تُو بھی نہیں ہوگا ناں؟ اگر میرے ساتھ ہی مر گیا تو مجھے کون دفنائے گا؟ غیر مرد دیکھ لیں گے اور وہی دفنائیں گے بھی۔‘‘رانی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
مٹھل اس کی حیا کا گواہ تھا‘ وہ تو جب سے بالغ ہوئی تھی اس کا چہرہ اس کے بال کسی نامحرم نے نہیں دیکھے تھے‘ اس کے سگے چاچے کی بیٹی ہونے کے باوجود سارا بچپن ساتھ گزار کر ایک دْم سے ہی وہ سب سے چھپنے لگ گئی تھی۔ قرآن پڑھانے والی آپا تو سب کو ہی پردے، حیا اور اوڑھنی کا درس دیتی تھی مگر سب ویسے ہی رہتے جیسے سب کو عادت تھی۔ گھر اور خاندان کے مردوں کے سامنے آ جاتیں‘ کہیں باہر جاتے ہوئے چادر تان کر گھر آتے ہی سب سے پہلے چادر اتار کر رکھی جاتی۔ مگر رانی کو نہ جانے کس بات نے مجبور کر دیا تھا‘ مٹھل نے بھی اسے شادی کے دن ہی دیکھا تو باقی سب سے زیادہ حسین پایا۔
’’بچپن میں تو ایسی تو نہ تھی رانی۔‘‘مٹھل گویا مبہوت ہو کر بولا تو رانی محجوب سی ہو کر نگاہ جھکا گئی۔
شادی کے بعد مٹھل نے بہت کوشش کی کہ گھر میں جیسے خاندان کی عام عورتیں رہتی ہیں ویسے رہے۔ یہ پردہ وغیرہ تو باہر کے مردوں سے ہے گھر کے چاچے‘ مامے کے بچے جوان تو سب ’’اپنے‘‘ ہی ہیں۔ مگر رانی پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ میں نے وہ بننا ہے جس سے اللہ پیار کرتا ہے۔
’’جھلی اللہ سے تو سب ہی پیار کرتے ہیں تو کو بوہتا پیار جتائے گی۔‘‘مٹھل کو ہنسی آئی۔
’’رب سے تو سب پیار کرتے ہیں مٹھل میں نے وہ بننا ہے جس سے رب پیار کرے۔‘‘یہ کہتے ہوئے اک نور کا ہالہ اتر آتا تھا اس کے وجود پر یہ بات مٹھل نے ہمیشہ محسوس کی۔
’’پھر تو تجھے مولوی کا کورس کرنا پڑے گا کوئی چلے شلے کٹ… چھڈ یہ ہانڈی روٹی اور میری چاکری دفع کر یہ سب تو بس رب کو راضی کر۔‘‘مٹھل نے اسے چھیڑا۔
’’ہونہہ…!‘‘اس نے ناز سے ہنکارا بھرا۔
’’تو کیا سمجھتا ہے کہ میں تیرے کہنے پر ہانڈی روٹی اور تیری چاکری کرتی ہوں‘ یہ سب بھی میرے رب نے کہا ہے تو میں کرتی ہوں اور مولوی شولوی تو مجھے نہیں بننا۔ قرآن والی آپا نے کہا تھا مولوی کا علم اسے نہیں بخشواتا بلکہ مولوی کا عمل اسے بخشواتا ہے تو بس میں نے تو جو کچھ سیکھا اسی پر سچے دل سے عمل کر لوں ناں تو اللہ مجھ سے پیار کرنے لگے گا… ہائے مٹھل! وہ بادشاہ، وہ ہمیں بنانے والا ہم سے راضی ہو گیا تو سب کچھ اچھا ہی اچھا ہوگا۔‘‘
وہ اپنی بات پر قائم رہی اور مٹھل اس کا پاسبان بنا رہا جو کوئی اسے اس کے اتنے سخت پردے پر ٹوکتا تو مٹھل اپنے اوپر بات لے لیتا یوں وہ اپنے مٹھل کے سائے میں اپنے رب کی محبت کی متلاشی رہی‘ اسے اللہ نے اک پیارا سا بیٹا موسیٰ بھی دے دیا‘ وہ بہت خوش تھے مگر اب کے برس کی بارشوں نے ان کے سارے خاندان اور گھر بار کو نگل لیا تھا اور اب وہ بھی مرنے کی تیاری میں گم صم تھے۔
صبح کا سورج اپنے ساتھ جیسے ہی روشنی لے کر آیا پوری بستی میں بے گور و کفن لاشوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا‘ پوری بستی اجڑ گئی تھی۔ بارش تھمتے ہی رضا کاروں کا ٹولہ ادھر ادھر بکھری لاشیں سمیٹ کر کفن دفن کے انتظامات میں لگا ہوا تھا۔ مٹھل، رانی اور موسیٰ بھی مر چکے تھے۔ موسیٰ رانی کی گود میں ہی اکڑ چکا تھا۔ رانی کی پوری چادر اس کے سر سے جسم پر جیسے پیوست تھی رضا کاروں نے اکڑے ہوئے موسی کو رانی کے جسم سے الگ کرنے کی کوشش کی مگر نہ کر سکے موسی الگ نہ ہوا تو چادر بھی الگ نہ ہو سکی رانی کے رب کا وعدہ پورا ہو رہا تھا اس کا حجاب‘ اس کی حیا‘ اس کے رب کے لے تھا ناں تو اس کی حفاظت کا وعدہ،اس پر مغفرت کا وعدہ بھی اسی رب کا تھا اور وہ خالقِ حقیقی اپنے وعدے پورے کرنا جانتا ہے۔
ایک رضاکار کار فون پر رندھی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا کہ’’بھائی! لاشیں دفنانے کے لیے خشک زمین نہیں مل رہی‘ جیسے ہی ہم دفنانے کی سوچتے ہیں بارش شروع ہو جاتی ہے اور ان لاشوں پر مزید گیلی مٹی جمتی جاتی ہے۔‘‘
’’بس رہنے دو جب تک بارشیں نہیں رکتیں کیا کر سکتے ہیں اور یہ تو ویسے بھی پوری بستی ہی اجڑ کر قبرستان بن چکی ہے۔‘‘دوسری طرف سے جواب آیا۔
آج دس دن بعد سورج نکل آیا تھا اس بستی والوں کے وہ رشتے دار جو دوسرے شہروں کے مکین تھے‘ وہ اپنے اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو ڈھونڈتے ہوئے آ رہے تھے۔ انہی میں سے رانی کے دو سگے بھائیوں سمیت دیگر عزیز بھی آ چکے تھے رانی کی سر سے پیر تک چادر تلے چھپی ہوئی لاش انہوں نے موسیٰ کو اس کی گود میں دیکھ کر پہچانی۔
سب اپنے اپنے رشتے داروں کی تدفین کر چکے تھے مگر رانی کے بھائیوں کے گھر ابھی تک تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا وجہ اس کی قبر سے اٹھنے والی خوشبو کی لپیٹیں تھیں کہ انجان اشخاص بھی اس خوشبو کے تعاقب میں اس کے بھائیوں کے گھر تک صاحب قبر کی کرامات پوچھنے آ جاتے تھے اور بھائی تو خود حیران تھے ایسا کچھ بھی تو نہ تھا ان کی بہن میں بس وہ چاہتی تھی کہ اللہ اس سے پیار کر لے تو بس اللہ سائیں نے اس کی سن لی تھی اور تو کچھ بھی ناں تھا کچھ خاص نہیں۔

حصہ