بچوں میں عدم برداشت اور والدین

440

’’ماما ٹیب کھیلنا ہے۔‘‘ جاذب نے آواز لگائی۔ ثانیہ نے سنی ان سنی کر دی۔ تھوڑی دیر بعد پھر جاذب کی آواز آئی ’’ماما آپ کہاں ہیں میں ٹیبلیٹ لے رہا ہوں۔‘‘ اس دفعہ جاذب کی آواز میں زیادہ زور تھا۔
’’ہوم ورک مکمل کرلیا؟‘‘ ثانیہ کو نوٹس لینا ہی پڑا۔
’’تھوڑا سا رہ گیا ہے‘ بعد میں کرلوں گا۔‘‘ جواب آیا کیوں کہ جاذب کو پتا تھا کہ یہ سوال تو سب سے پہلے ہونا ہے۔
’’پورا کر لو تب لے لینا۔‘‘ ثانیہ کا فیصلہ تھا۔
’’کہہ رہا ہوں ناں کر لوں گا۔‘‘
’’جب کر لو گے تو لے لینا۔‘‘ وزن برابر تھا۔
’’آخر کیوں…؟‘‘ اب جاذب خم ٹھونک کر میدان میں آ گیا تھا۔ اس نے پینسل پٹخ کر تیوری چڑھا لی۔
’’اس لیے کہ پھر رہ جائے گا۔ اس کا ابھی پورا ہونا ضروری ہے۔ ویسے بھی امتحان نزدیک آ گئے ہیں، پڑھائی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔‘‘ ثانیہ نے رسان سے بات سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں لیکن ایک گھنٹہ ٹیبلیٹ کھیلنے سے کوئی اتنا فرق نہیں پڑ جائے گا۔‘‘ دس سالہ جاذب کی آوازوں میں ضد اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ غصہ بھی نمایاں ہونے لگا۔ اس کو سامنے نظر آتی رکاوٹ دور کرکے ہر حالت میں ٹیبلیٹ پر گاڑیوں کی ریس کھیلنی تھی۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرکے ثانیہ کچن سے باہر آگئی ’’دکھاؤ کتنا کام باقی ہے؟‘‘ دیکھا تو کافی کام باقی تھا۔
’’سوائے انگلش کے کچھ نہیں کیا ہے تم نے‘ میتھس، اردو اور سائنس سب باقی ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ تھوڑا سا ہے۔‘‘
’’پھر بھی میں کر لوں گا۔‘‘جاذب نے ضد سے کہا۔
’’نہیں کام پہلے اور کھیل بعد میں۔ کووڈ کے دنوں میں یہ کھیل‘ کھیل کر تم اس کے عادی ہوگئے ہو‘ اب جب تک ہوم ورک مکمل کرکے نہیں دکھاؤ گے ‘ ٹیب نہیں ملے گا۔‘‘ ثانیہ قطعی انداز میں فیصلہ سناتے ہوئے واپس کچن میں چلی گئی۔‘‘
’’بھئی ما…ما…‘‘جاذب پوری قوت سے چلایا۔
’’کیا مصیبت ہے‘ ہر وقت یہی ہوتا ہے۔‘‘ غصے اور بے بسی سے اس کا چہرہ دہک اٹھا، آنکھیں سرخ انگارا ہو کر اُبل پڑیں۔ جاذب گلے کی رگیں پھلائے ہذیانی انداز میں چلا رہا تھا، پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘ اچانک خاموش ہوگیا‘ بہن کو ستا کر اس نے اپنا غصہ کسی حد تک اُس پر انڈیل دیا تھا۔ جاذب کا مزاج روز بہ روز خراب ہوتا جا رہا تھا۔ ذرا کوئی بات مرضی کے خلاف ہوئی تو آگ بگولا ہونا معمول بن گیا تھا خاص طور پر کسی مطالبے میں رکاوٹ پڑی یا فرمائش پر کوئی شرط عائد ہوئی تو اس کا ضبط جواب دے جاتا۔
یہ ایک بچے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر گھر کا ایک نقشہ ہے۔ بچوں میں عدم برداشت آہستہ آہستہ پروان چڑھتی ہے، ایک دم آکر کھڑی نہیں ہو جاتی۔ عدم برداشت دراصل خواہش، مرضی، پسند، خود مختاری اور جذبات ہی کی انتہائی شکل کا نام ہے‘ اس کی ابتدا وہاں سے ہوتی ہے جب بچوں کو ٹی وی یا موبائل کے سائے میں کھانا کھلایا جاتا ہے۔ وہی منظر بچے کے دل میں جگہ بناتے ہیں‘ وہ ان کی تمنا کرتے ہیں اور مہیا ہونے کی صورت میں آہستہ آہستہ ان کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اکثر اوقات بچوں کی شرارتوں سے بچنے کے لیے بھی اسکرین کا سہارا لیا جاتا ہے اور بچے اس پر نظر آنے والے جو خوب صورت مناظر میں دیکھتے ہیں، ان کا حصول اپنا فطری حق سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بچے سے کھانے پینے میں اس کی پسند پوچھی جاتی ہے کہ اس وقت کیا کھانا ہے؟
لباس میں پوچھا جاتا ہے کہ یہ پہننا ہے یا یہ؟
یہی چیز بچے کو خود مختاری کا احساس دلاتی ہے۔ بازار میں ہر چند روکنے کے باوجود بھی بچہ کچھ نہ کچھ اپنی پسند کا لے ہی آتا ہے۔ یہ رویے بچوں میں ’’من مانی‘‘ کو پروان چڑھاتی ہیں۔ وسائل کی افراط بھی بچے میں خود پسندی اور ذاتی تسکین کو ہوا دیتی ہے۔ آج کل اس طرح کے گھروں میں عام طور پر وسائل کی افراط اور بچے اکا دکا ہوتے ہیں۔ ماں باپ چراغ کے جن کی طرح بچوں کی فرمائش کی تکمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری طرف بچوں کو ناکافی توجہ ملنا بھی ان میں جھنجھلاہٹ‘ غصہ اور ضد پیدا کرتا ہے۔ بچہ اپنی پسند و ناپسند، خواہشات اور مشاہدات والدین سے بانٹنا چاہتا ہے مگر والدین اپنی مصروفیات کے علاوہ سامنے بیٹھ کر بھی موبائل پر توجہ رکھتے ہیں ایسی صورت میں بچے اپنی ہستی منوانے کے لیے غصہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل والدین بچوں کو حکم کی تعمیل کے لیے وقت بھی نہیں دیتے۔ ایک بات کہتے ہیں اور فرماں برداری کی جلدی کرتے ہیں بچہ دیر لگاتا ہے، لاڈ دکھانا چاہتا ہے ویسے بھی چھوٹا ہے اس کی رفتار بڑوں سے کم ہوتی ہے اور پھر ناپسندیدہ کام پر بجا آوری یوں بھی سست رفتار ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ماں باپ کا جلدی مچانا بچے کو جلدی مچانے کی راہ دکھاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ سیکولر میڈیا کے کار پردازوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بچوں کو سرکشی کی تربیت دینے کا آغاز نصف صدی قبل ہی کردیا تھا۔ انسانیت کو برباد کرنے والے منصوبہ گروں کو معلوم ہے کہ اسکرین کی تیز روشنی اور موسیقی ذہن کے خلیوں کو ناکارہ کر دیتی ہے، جذبات کو ابھارتی اور دماغ کی لہروں کو پریشان کرتی ہے۔ جتنی موسیقی کی رفتار تیز ہوگی، انسانوں میں عدم برداشت کی قوت اتنی ہی کم ہوگی۔ اس بات کا اعتراف بین الاقوامی میڈیا کے کارپردازوں نے ہمیشہ کیا ہے۔ رینڈ کارپوریشن اور اس سے ملحقہ کمپنیاں دنیا کو ایک لامتناہی ہیجان کی طرف لے جا رہی ہیں۔ ہر کچھ عرصے بعد میوزک اور روشنی کو تیز کرنے کے احکامات میڈیا ہاؤسز کی طرف سے جاری ہوتے ہیں اور ان کو بہ خوبی اس بات کا ادراک ہے کہ اس کی شدت کا شکار آنے والی نسل بری طرح ہوتی جا رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ والدین اس سلسلے کو روک پاتے ہیں یا نہیں؟
پہلی بات یہ کہ کونپل کو موڑنا آسان ہوتا ہے، درخت کا تنا نہیں موڑ سکتے۔ اس لیے اصلاحی تجاویز بھی بچپن ہی سے شروع ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں چند تجاویز درج ذیل ہیں:
1) چھوٹے بچوں سے کھانے اور پہننے میں ان کی پسند اور رائے ہر بار نہ پوچھیں۔ اُن کو اپنی مرضی کا کھلائیں اور پہنائیں اور بہت ورائٹی ان کو نہ دکھائیں۔ (پہلے تو کھانے میں کبھی کوئی چوائس نہیں تھی۔ جو پکتا تھا سب کے لیے ایک جیسا اور وہی کھانا ہوتا تھا۔) اگر بچہ ناپسندیدگی کا اظہار کرے پہلے اس خوراک کی محبت اس کے دل میں ڈالیے، اس میں یقیناً وقت لگے گا۔
2) بچوں کے ساتھ زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کر کے عجلت میں کام نہ نکالیں بلکہ دوستی اور محبت سے اپنی پسند کو اس کی پسند بنا دیں۔ اس میں آپ کی مہارت کا بھی امتحان ہے۔ یہ زیادہ مشکل نہیں ہے شروع میں آپ اس کو باتوں میں لگائیں بعد میں وہ خود چاہے گا کہ آپ سے مشورہ بھی کرے اور مزے دار کہانیاں بھی سنے۔
3) اسکرین کی محبت میں بچے جلد گرفتار ہو جاتے ہیں کیوں کہ بچوں کی نفسیات کے پیش نظر ہی رنگ برنگی دلچسپیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ کوشش کریں کہ بچے کا اسکرین کا سامنا کم سے کم ہو اور سامنا ہونے کی صورت میں اس کی مضمرات سے انہیں آگاہ کریں اور اس حوالے سے ان میں شعور پیدا کریں جو کہ مشکل نہیں ہے۔ بچہ اسکرین کی دل چسپی کو محدود انداز میں لے گا۔ چھوٹی عمر کا شعور ساری زندگی موجود رہتا ہے۔
4 ) جب اپنی کسی خواہش کی عدم تکمیل پر بچہ غصے میں ہو تو اُس وقت والدین زبردستی یا سختی کے ذریعے اس کے جذبات کو کچلنے کی کوشش نہ کریں بلکہ پیار سے سمجھاتے ہوئے متبادل دل چسپی یا مصروفیت کی طرف اس کی توجہ مبذول کرائیں۔
5) جس وقت بچہ غصے میں بے حال ہو اور کوئی بات نہ سن رہا ہو ، اس وقت فوری طور پر لاحول پڑھ کر اس کے چہرے پر دَم کریں کیوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور لاحول پڑھنے سے شیطان دفع ہوتا ہے اور فوری طور سے بچہ قابو میں آتا ہے۔ اس کے بعد بچے کو بھرپور توجہ اور محبت سے بہلا لیں۔ یہ طریقہ انتہائی آزمودہ اور تیر بہ ہدف ہے۔
6) غصیلے بچے بھرپور توجہ مانگتے ہیں۔ سرسری توجہ سے ان کا کام نہیں چلتا۔ والدین پوری طرح بچہ کی طرف اپنی توجہ مرکوز کریں۔ پیار سے سودے بازی سے کسی بھی لالچ سے کام نکالنے کی کوشش کریں اس سلسلے میں یہ باور کرانا ضروری ہے کہ اس کا سرکش یا بدتمیز رویہ اس کے لیے نہ صرف ابھی بلکہ آئندہ بھی مشکلات پیدا کرے گا۔
7) زندگی میں نظم و ضبط قائم کریں۔ نظم و ضبط کا فقدان انسان کو خواہشات کا غلام بنا دیتا ہے۔ اگر گھر میں کسی کام کا کوئی نظام الاوقات نہ ہوگا تو بچہ بھی یہی چاہے گا کہ جب جو جی چاہے کر لے۔ جب چاہے کھائے، جب چاہے کھیلے اور جب چاہے سوئے۔ نظم و ضبط قائم کرنا والدین کی صلاحیتوں اور باہمی تعاون کا امتحان ہے۔ جن والدین کے درمیان اعتماد اور تعاون کی فضا ہوتی ہے‘ بچوں کے لیے نظام الاوقات مقرر ہوتا ہے تو بچے بھی اپنی بے اعتدالی پر اصرار نہیں کرتے کیوں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کیا کچھ ہوسکتا ہے اور کیا نہیں۔
8) والدین کو لازمی طور سے اپنے رویوں سے عدم برداشت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اگر والدین انفرادی اور باہمی رویوں میں ضد، غصہ، خود غرضی اور چیخ و پکار یا لگائے جھگڑے پر کار بند ہوئے تو بچوں میں عدم برداشت کا ہونا فطری بھی ہے اور اکتسابی بھی۔
یاد رکھیے آپ اپنے بچے کا آئیڈیل ہیں چاہے اچھے ہوں یا برے۔ آئینہ بھی ہیں لہٰذا جیسے آپ ہیں ویسے ہی آئینہ آپ کو دکھائے گا۔ آئینہ بات نہیں سنتا اور بچہ بھی جو دیکھتا ہے وہی دکھاتا ہے‘ لہٰذا کوشش کریں کہ بچے کو آپ میں بھی اور ماحول میں بھی اچھا ہی نظر آئے تاکہ وہ بھی اچھا ہی دکھائے۔
جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اور باہر کے ماحول سے آشنا ہوتا ہے‘ اس میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں۔ ایسے میں بچے کو الزام دینے کے بجائے باہر کے ماحول کی خامیاں اور کمزوریاں اس کے سامنے رکھی جائیں اور گھرمیں سیکھی ہوئی باتوں کی اہمیت اور استحکام اس پر اجاگر کیا جائے تو بچوں میں خود اعتمادی اور برداشت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔

حصہ