سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ:مولانا کی نظر زمانوں کے پار دیکھ سکتی تھی

484

شخصیت ایک اوڑھی ہوئی چیز کو کہتے ہیں۔ انگریزی میں شخصیت کے لیے Personality کا لفظ مستعمل ہے جو ایک لفظ Persona سے ماخوذ ہے۔ انگریزی میں Persona اس مصنوعی چہرے کو کہتے ہیں جو اسٹیج کے اداکار ضرورت کے تحت اپنے چہرے پر لگا کر ’’کچھ اور‘‘ بن جاتے ہیں۔ عام لوگوں کی شخصیت ان معنوں میں اوڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ عام لوگ اپنے ماحول کے جبر کے اسیر ہوتے ہیں۔ ان کا ماحول جیسا ہوتا ہے وہ ویسے بن جاتے ہیں۔ لیکن بڑے لوگ بڑے ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ اپنے ماحول سے اکتساب ضرور کرتے ہیں مگر وہ اپنے ماحول کے اسیر نہیں ہوتے۔ ان کی شخصیت ان کے باطن سے نمودار ہوتی ہے اور اس کا اصول صداقت ہوتا ہے۔ مولانا مودودیؒ ہمارے عہد کی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں۔

مولانا ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ضرور ہوئے تھے مگر انہوں نے اپنی مذہبیت کو اپنے باطن میں خود دریافت کیا تھا چنانچہ خدا اور اس کے دین سے ان کا تعلق میکانکی نہیں بلکہ تخلیقی تھا۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور وہ اپنے علم و فضل اور تحریر کی خداداد صلاحیت کی بنیاد پر ابتداء ہی سے ’’ممتاز‘‘ ہوگئے تھے۔ چنانچہ ان کے ایک کرم فرما انہیں الجمعیت کا مدیر بنوانے کے لیے متعلقہ شخص کے پاس لے کر گئے۔ ان صاحب نے مولانا پر کوئی اور اعتراض تو نہ کیا البتہ کہا کہ ان کے ڈاڑھی نہیں ہے۔ مولانا کے کرم فرما نے کہا ان کے چہرے پر تو واقعتاً ڈاڑھی نہیں ہے مگر ان کے پیٹ میں ڈاڑھی ہے۔ ہماری معاشرت کی مذہبی فضا میں ڈاڑھی کو مذہبیت کی ’’پسند‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ مولانا کے زمانے میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین تھا۔ چنانچہ اگر مولانا کو مذہبیت ’’اوڑھنی‘‘ ہوتی تو وہ سب سے پہلے ڈاڑھی رکھتے۔ مولانا نے ڈاڑھی رکھی اور ویسی ہی رکھی جیسی کہ ان کو رکھنی چاہیے تھی مگر مولانا نے یہ کام باطنی تقاضے کے تحت کیا۔

مولاناکی فکر اور عملی جدوجہد کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ وہ چاہتے تھے کہ زندگی کے ہر دائرے اور ہر سطح پر اللہ کی بڑائی بیان ہو اور انفرادی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک ہر جگہ صرف اللہ کا حکم چلے لیکن مولانا کے لیے خدا محض ایک تصور نہیں تھا خدا کے ساتھ مولانا کا تعلق مولانا کی شخصیت کا اصول حرکت تھا اور مولانا کی زندگی فکر اور جدوجہد کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ مولانا کی زندگی کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھا جس پر خدا کی موجودگی یا اس کی Presence کا سایہ نہ ہو۔ اس کے بغیر مولانا عالم بن سکتے تھے‘ مفکر بن سکتے تھے‘ مفسر بن سکتے تھے مگر مولانا مودودیؒ نہیں بن سکتے تھے۔

مولانا مودودیؒ کی شخصیت کا ایک اہم پہلو مولانا کی جرأت اور ان کی بے خوفی تھی۔ ہماری تاریخ میں بڑے لوگوں کی کمی نہیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑے لوگوں کی زندگی میں جب خطرہ مجسم ہو کر سامنے آکھڑا ہوا اور زندگی واقعتاً دائو پر لگ گئی تو بڑے آدمیوں میں سے اچانک ایک چھوٹا سا آدمی برآمد ہوا اور بڑے آدمی کی پوری شخصیت کو مسمار کرکے غائب ہوگیا۔ لیکن مولانا کی زندگی میں بڑے خطرات آئے تاہم مولانا وہی رہے جو کہ وہ تھے۔ لاہور میں جماعت اسلامی کے اجتماع میں فائرنگ ہوگئی‘ مولانا اس وقت خطاب کررہے تھے اور فائرنگ کا ہدف وہی تھے۔ کسی نے کہا مولانا بیٹھ جایئے۔

اس کے جواب میں مولانا نے تاریخی فقرہ کہا‘ ’’میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا؟‘‘ لیکن مولانا نے موت کو اس سے بھی کہیں زیادہ قریب سے دیکھا تھا۔ انہیں ختم نبوت کی تحریک میں کردار کے حوالے سے سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا سے جیل میں کہا گیا کہ آپ معافی نامے پر دستخط کردیں تو سزا بھی معاف ہوجائے گی اور رہائی بھی مل جائے گی۔ مگر مولانا نے کہا کہ جب میں نے کوئی غلط کام ہی نہیں کیا تو معافی کا کیا سوال؟ یہ دراصل مولانا کا امتحان تھا اور مولانا اس امتحان میں سرخرو ہوئے۔ لوگ امتحانات میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ اپنی کامیابی کو جھنڈا بنا لیتے ہیں مگر مولانا نے اپنی کسی بھی کامیابی کو کبھی پرچم میں تبدیل نہیں کیا۔

آرنلڈ ٹوائن بی نے کہیں کہا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کے دو ہی صورتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ انسان چیلنج کو بوجھ بنالے اور ساری زندگی اس بوجھ کو سر پر اٹھائے پھرے۔ دوسری یہ کہ انسان چیلنج کو قوتِ محرکہ یا Motivational force بنالے۔ مولانا چیلنج کے ساتھ اس تعلق کا کامل ترین نمونہ تھے۔ مولانا نے اگر 120 کتابیں لکھی ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ مولانا نے 120 جنگوں میں شرکت کرکے اسلام کو فتح یاب کیا ہے۔ انہوں نے اگر زندگی میں دس ہزار تقریریں کی ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے دس ہزار محاذوں پر دادِ شجاعت دی ہے۔ اس کے بغیر مولانا کا فکری کام اتنا متنوع نہیں ہوسکتا تھا کہ تاریخ اس پر رشک کرے۔

مولانا کا صبر‘ درگزر اور وسیع القلبی بے مثال تھی۔ برصغیر کا شاید ہی کوئی فرقہ‘ مسلک اور مکتبۂ فکر ایسا ہوگا جس نے مولانا پر رکیک حملے نہ کیے ہوں۔ لیکن مولانا نے کبھی ذاتی حملوں کا جواب نہیں دیا۔ البتہ اگر کسی حریف نے کوئی علمی اعتراض کیا ہوتا تو مولانا اس کا علمی جواب دینے کی کوشش کرتے۔ مولانا کا ایک امتحان یہ تھا کہ ان کے آس پاس موجود کئی لوگ اپنا موازنہ مولانا سے کرنے میں لگے رہتے۔ ان کی انا پرستی انہیں یہ دیکھنے پر اکساتی تھی کہ وہ مولانا سے کتنے بڑے ہوگئے ہیں۔ مولانا اس صورت حال سے لاعلم نہیں تھے مگر مولانا نے اس بات کو کبھی ذاتی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ مولانا وحید الدین کی فکر اور شخصیت مولانا کی فکر کا حاصل تھی مگر ایک مرحلے پر انہوں نے مولانا پر ایک خط میں ہولناک اعتراضات کیے۔ انہوں نے مولانا سے کہا کہ آپ نے قرآن کے تمام بنیادی تصورات کو غلط سمجھا ہے چنانچہ آپ کی تو پوری تعبیر دین ہی غلط ہے۔

مولانا نے اپنی روایتی وسیع القلبی کے تحت مولانا وحید الدین کے کئی خطوط کا جواب نہیں دیا۔ مگر مولانا وحید الدین مولانا کے تعاقب میں لگے رہے تو مولانا نے ایک خط میں اپنے نقطۂ نظر کو واضح کیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مولانا کے اس جواب میں غصہ اور ترشی در آئی ہے لیکن مولانا کا یہ ردعمل فطری تھا اس لیے کہ مولانا وحید الدین جہل کا نہیں جہل مرکب کا اظہار کررہے تھے۔ مولانا اختلافِ رائے کو کتنا پسند کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی کی شوریٰ کے اجلاس میں مسائل پر گفتگو کے وقت مولانا کبھی بھی پہلے تقریر نہیں کرتے تھے۔ جب سب لوگ کلام کرتے تو مولانا اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ مولانا نے یہ روش اس لیے اختیار کی ہوئی تھی کہ لوگوں کی رائے مولانا کی رائے سے متاثر نہ ہو حالانکہ مولانا کے علم اور فہم کے مقابلے پر پوری شوریٰ کا مجموعی علم اور فہم بھی کچھ نہ تھا۔

مولانا کی بے غرضی اور فروتنی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے شعوری طور پر جماعت کی قیادت ترک کی۔ کسی نے محاورتاً کہا کہ مولانا پیغمبر بھی کبھی ریٹائر ہوتے ہیں۔ بلاشبہ جماعت کے پاس جو کچھ تھا وہ سب کچھ مولانا کا تھا۔ علم مولانا کا تھا۔ فہم مولانا کا تھا‘ تقویٰ اور کردار اور ساکھ مولانا کی تھی‘ تنظیم مولانا کی تھی مگر مولانا نے فرمایا کہ میں جماعت کے بارے میں یہ رائے عام نہیں ہونے دینا چاہتا کہ بہت سی دوسری جماعتوں کی طرح یہ بھی شخصی جماعت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کی امارت تو ایک پردہ تھی ورنہ مولانا اوّل و آخر غلبہ اسلام کے لیے برپا ہونے والی تحریک کے محض ایک کارکن تھے اور انہوں نے عملاً خود کو امیر سے کارکن بنا کر دکھا دیا۔ میاں طفیل محمد کے دور میں جماعت اسلامی نے پی این اے کا حصہ ہونے کی وجہ سے ضیا الحق کی کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو مولانا اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے لیکن انہوں نے کہا کہ چونکہ شوریٰ سے فیصلے کی منظوری لی جاچکی ہے اس لیے اب میری ذاتی اور شخصی رائے کا کوئی مفہوم نہیں۔ اس مرحلے پر مولانا اگر اپنی شخصی رائے کا پرچم بلند کردیتے جو کہ مولانا کی مخصوص بصیرت کا عکس ہوتا تو جماعت کی قیادت کے لیے سنگین مسئلہ کھڑا ہوجاتا لیکن مولانا نے اجتماعیت پر اپنی ذاتی رائے کو قربان کردیا۔

مولانا کی شخصیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مولانا کی نظر زمانوں کے پار دیکھ سکتی تھی۔ مشرقی پاکستان 1971ء میں الگ ہوا لیکن مولانا نے 1969ء ہی میں کہہ دیا تھا کہ حالات یہی رہے تو مشرقی پاکستان کو الگ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اسی طرح مولانا نے 1950ء میں یہ پیشگوئی کردی تھی کہ سوشلزم کو ماسکو اور سرمایہ دارانہ نظام کو اس کے بڑے بڑے مراکز میں پناہ نہیں ملے گی۔ مولانا کی اس اہلیت اور صلاحیت کی دو بنیادیں ہیں ایک وہبی اور دوسری تجزیاتی۔ وہبی صلاحیت کا مطلب یہ ہے کہ مولانا کا قلب اتنا مصفہ تھا کہ وہ الہام کی قبولیت کے لیے پوری طرح کفایت کرتا تھا۔ دوسری طرف مولانا تاریخ کے گہرے شعور کی بنیاد پر یہ جانتے تھے کہ انسانی ساختہ نظام خواہ کتنے ہی شاندار کیوں نہ نظر آئیں ان کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔

مولانا کی شخصیت اپنے نظریاتی تشخص کے ایک ایک نکتہ پر اصرار کرنے والی تھی مگر اس کے باوجود مولانا کی وسیع المشربی بے مثال تھی چنانچہ انہوں نے اپنے نظریاتی حریفوں کے ساتھ مل کر بھی سیاسی جدوجہد کی۔ وہ جنرل ایوب کے سخت خلاف تھے مگر 1965ء کی جنگ شروع ہوئی تو وہ جنرل ایوب کے ساتھ کھڑے تھے۔ بھٹو صاحب نے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے انکار نہ کیا۔ مولانا عورت کی سربراہی کے قائل نہ تھے مگر انہوں نے جنرل ایوب کے مقابلے پر فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ کسی نے اعتراض کیا تو مولانا نے کہا کہ جنرل ایوب میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں اور فاطمہ جناح میں اس کے سوا کوئی خامی نہیں کہ وہ عورت ہیں۔ مولانا ذاتی تعلقات کو ان کے تقاضوں کے ساتھ نبھانے کا ہنر بھی خوب جانتے تھے۔

جماعت کے رہنمائوں میں جو لوگ جماعت کے کل وقتی کارکن تھے ان کو جماعت کی طرف سے مشاہرہ دیا جاتا تھا اور اس کام کا طریقہ یہ تھا کہ مشاہرہ لینے والوں کو دفتر جماعت سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔ مگر مولانا امین احسن اصلاحی کے اپنے بیان کے مطابق ان کی شخصیت اس اصول سے مستثنیٰ تھی۔ چنانچہ ہر ماہ مولانا خود یا ان کی اہلیہ مولانا اصلاحی کے گھر جا کر مشاہرے کی رقم مولانا امین احسن اصلاحی یا ان کی بیگم کے سپرد کرتے۔

حصہ