سپہ سالار یہ کہہ کر خیمے کے دروازے کی طرف بڑھا لیکن اچانک کچھ سوچ کر رُک گیا اور عاصم کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’مجھے تمہارے گھوڑے کا سن کر بہت افسوس ہوا ہے اور میں تمہیں اس کے بدلے اپنا بہترین گھوڑا پیش کروں گا‘‘۔
سپہ سالار خیمے سے باہر نکل گیا۔ طبیب نے عاصم کی مرہم پٹی سے فارغ ہو کر اُس کے تیمارداروں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’میرے خیال میں اب انہیں آرام کی ضرورت ہے‘‘۔ وہ یکے بعد دیگرے باہر نکل گئے۔
تھوڑی دیر بعد کلاڈیوس نے کھانا لا کر عاصم کے سامنے رکھ دیا۔ عاصم نے چند نوالے کھائے۔ پانی پیا اور بستر پر لیٹ گیا۔
’’کلاڈیوس!‘‘ اُس نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’مجھے زخمی ہونے کے بعد سب سے پہلے تمہارا خیال آیا تھا، اور راستے میں بھی یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں ہلاک ہوجاتا تو تم پر کیا گزرتی۔ اگر مجھے یہ اطمینان ہوتا کہ راستے میں تمہیں کوئی خطرہ پیش نہ آئے گا تو میں اِسی وقت تمہیں آزاد کردیتا اور مجھے اِس بات کی پروا نہ ہوتی کہ سپہ سالار میرے متعلق کیا خیال کرے گا‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’میں راستے میں کسی ایرانی کے ہاتھوں ہلاک ہونے کی بجائے آپ کے غلام کی حیثیت سے زندہ رہنا بہتر سمجھتا ہوں‘‘۔
’’تم میرے غلام نہیں ہو، کلاڈیوس!‘‘
کلاڈیوس نے احسان مندی سے عاصم کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’اگر میں اپنے دل کی بات کہوں تو آپ بُرا تو نہیں مانیں گے‘‘۔
’’ہرگز نہیں‘‘۔
کلاڈیوس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’اگر میں نے آپ کو سمجھنے میں غلطی نہیں کی تو آپ اُن لوگوں سے مختلف ہیں جنہیں صرف انسانی خون کی پیاس تلوار اُٹھانے پر مجبور کردیتی ہے۔ آپ جس قدر بہادر ہیں اُسی قدر رحم دل ہیں۔ آج قیدیوں کے ساتھ آپ کا سلوک میرے لیے غیر متوقع نہ تھا۔ لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ اس جنگ سے آپ کی دلچسپی کی وجوہ کیا ہیں۔ آپ یہ خیال نہ کریں کہ یہ بات پوچھنے کے لیے میں آپ کے زخمی ہونے کا انتظار کررہا تھا۔ آج جب میں سوروں کو آتے دیکھ رہا تھا تو آپ کا گھوڑا غائب تھا اور میرے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ شاید آپ واپس نہیں آئے۔ اور پھر جب طبیب آپ کے زخم کا معائنہ کررہا تھا تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ انسان ہمیشہ کسی مقصد کے لیے جان دینا پسند کرتا ہے۔ ایرانیوں کا مقصد دنیا میں اپنے شہنشاہ کی فتوحات کے پرچم لہرانا ہے۔ رومیوں کا مقصد دنیا میں اپنے اقتدار کی حفاظت ہے۔ یہودی یہ سمجھ کر ایرانیوں کا ساتھ دے رہے ہیں کہ شاید رومی سلطنت کے کسی کھنڈر پر انہیں اپنے لیے کوئی عمارت کھڑی کرنے کا موقع مل جائے۔ عرب سے جو رضا کار ایرانیوں کے حلیف بن کر آئے ہیں وہ کشت و خون اور لوٹ مار سے آگے نہیں سوچتے۔ لیکن آپ کے متعلق مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ ظالم کے دوست اور مظلوم کے دشمن نہیں ہوسکتے۔ آپ کو لوٹ مار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایرانی فوج جب کسی خطرے کا سامنا کرتی ہے تو آپ سب سے آگے ہوتے ہیں؟‘‘۔
عاصم نے اضطراب کی حالت میں آنکھیں بند کرلیں اور دیر تک خاموش پڑا رہا۔ بالآخر اس نے کلاڈیوس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’کلاڈیوس! میری زندگی دوستی اور دشمنی کے جذبات سے خالی ہے۔ چند سال پہلے میری تمام خواہشیں اپنے قبیلے کی عزت کے لیے لڑنے یا اپنے عزیزوں اور دوستوں کے قتل کا انتقام لینے تک محدود تھیں۔ پھر چند ایسے واقعات پیش آئے کہ میری دنیا یکسر بدل گئی۔ مجھے اپنے اسلاف کی روایات سے بغاوت کے جرم میں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ تم میری تمام سرگزشت سن چکے ہو۔ سین سے ملاقات کے بعد میری زندگی کا نیا دور شروع ہوا، اور میں نے ایک سپاہی کی حیثیت سے اپنے محسن کی بلند ترین توقعات پورا کرنا اپنا مقصد حیات بنالیا۔ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ میں نے اپنے لیے جو نیا راستہ منتخب کیا ہے وہ غلط ہے لیکن میرے لیے اور کوئی راستہ نہیں‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’فرض کیجیے! اگر سین ایک ایرانی کے بجائے ایک شامی یا رومی ہوتا تو کیا یہ ممکن نہ تھا کہ اس وقت آپ ایرانیوں کی بجائے رومیوں کے ساتھی ہوتے؟‘‘۔
عاصم نے برہم ہو کر کہا۔ ’’کلادیوس! مجھے پریشان نہ کرو، جائو سوجائو‘‘۔
’’میں معافی چاہتا ہوں‘‘۔ کلاڈیوس نے اُٹھتے ہوئے کہا۔ ’’اگر آپ مجھے اپنے دل کی بات کہنے کی اجازت نہ دیتے تو مجھ سے یہ گستاخی نہ ہوتی‘‘۔
عاصم نے قدر سے نرم ہو کر کہا۔ ’’نہیں، نہیں کلاڈیوس بیٹھ جائو۔ میں تم سے خفا نہیں ہوں۔ لیکن تم جانتے ہو کہ اب اپنا راستہ تبدیل کرنا میرے بس کی بات نہیں‘‘۔
کلاڈیوس بیٹھ گیا اور چند ثانیے خاموشی سے عاصم کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے کہا۔ ’’میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آپ اُن لوگوں سے مختلف ہیں جو ساری عمر آنکھیں بند کیے کسی غلط راستے پر چل سکتے ہیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ اپنی قبائلی روایات سے بغاوت نہ کرتے۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کسی دن آپ کو یہ جنگ عرب کی قبائلی جنگوں سے زیادہ بے مقصد محسوس ہوگی‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں ایرانی فوج کے ساتھ وفاداری کا عہد کرچکا ہوں اور تم مجھے غدار بننے کا مشورہ نہیں دے سکتے‘‘۔
’’کیا آپ نے اپنے قبیلے کے ساتھ وفاداری کا عہد نہیں کیا؟‘‘۔
’’کلاڈیوس تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘۔
’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایرانی فوج کے کارناموں سے آپ جیسے انسان کا ضمیر مطمئن نہیں ہوسکتا۔ کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آئے گا جب آپ کی بے چین روح آپ کو کوئی نیا راستہ تلاش کرنے پر مجبور کردے گی۔ میں اکثر یہ سوچا کرتا ہوں کہ جو شخص کسی مقصد کے بغیر اس قدر بہادری سے لڑ سکتا ہے وہ کسی مقصد سے آشنا ہونے کے بعد کیا نہیں کرسکتا۔ آپ کو فتوحات کا شوق یہاں تک لے آیا ہے لیکن اگر انسان کا ضمیر مطمئن نہ ہو تو اُس کی فتوحات بے معنی ہیں۔ سین اِس بات پر مطمئن ہوسکتا ہے کہ اُس نے بے یارومددگار انسان کو شہرت و ناموری کے راستے پر ڈال کر اُس کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے اور اُس کی بیٹی بھی اس بات پر خوش ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب آپ شاندار فتوحات حاصل کرنے کے بعد واپس جائیں تو سین آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کرنے پر آمادہ ہوجائے لیکن مجھے اس بات کا اندیشہ ہے ان سب باتوں کے باوجود آپ کا ضمیر مطمئن نہیں ہوگا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’تمہارے خیال میں میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘۔
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’آپ کی سرگزشت سننے کے بعد میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ کم سن لڑکی جسے آپ نے دمشق کے راستے میں دیکھا تھا آپ کی امیدوں کا مرکز بن چکی ہے اور میرے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ آپ کے دل میں شہرت و ناموری کی تمنا سین سے کہیں زیادہ اُس کی بیٹی نے پیدا کی ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’کلاڈیوس! میں تمہاری بات سے انکار نہیں کرتا۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جب میں اپنے حال اور مستقبل سے مایوس تھا تو فسطینہ نے میرے دل میں زندگی کی دھرکنیں بیدار کی تھیں۔ اُس نے مجھے احساس دلایا تھا کہ میں عام انسانوں سے مختلف ہوں۔ اور میں یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میں اُس کی بلند ترین توقعات پوری کرسکتا ہوں، لیکن اگر میں یہ سمجھوں کہ عظیم ترین فتوحات حاصل کرنے کے بعد بھی میں سین کی بیٹی کے لیے ہاتھ پھیلا سکتا ہوں تو مجھ سے بڑا احمق کوئی نہیں ہوسکتا۔ رات کا مسافر چاند کی روشنی میں اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے لیکن اُسے نوچنے کی کوشش حماقت کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے۔ جب میں پہلی مرتبہ سین کے ہمراہ محاذِ جنگ کی طرف روانہ ہوا تھا تو میرے خیالات یہی تھے کہ جب میں فتوحات کے پرچم لہراتا ہوا واپس آئوں گا تو فسطینہ میرا انتظار کررہی ہوگی۔ لیکن یہ ایک دیوانے کے خواب تھے۔ اب مجھے ان خیالات پر ہنسی آتی ہے۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ سین نے مجھے اپنے گھر کی چار دیواری سے دور رکھنے کے لیے مصر کی طرف پیش قدمی کرنے والی فوج کے ساتھ روانہ کردیا تھا۔ کلاڈیوس! جب میں گھر سے نکلا تھا تو میری تمام خواہشین صرف زندہ رہنے تک محدود تھیں، اُس وقت میں کسی کی بھیڑیں چرا کر بھی مطمئن رہ سکتا تھا لیکن فسطینہ کی دُنیا میں چند سانس لینے کے بعد میرے لیے گمنامی اور بے چارگی کی زندگی پر قناعت کرنا ممکن نہ تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں نے جو راستہ اختیار کیا ہے اُس کی آخری منزل کیا ہوگی، لیکن اب میں اتنی دور آچکا ہوں کہ میرے لیے یہ راستہ بدلنا تو درکنار مڑ کر پیچھے دیکھنا بھی ممکن نہیں‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’آپ چند حادثات کے نتیجہ میں یہاں تک پہنچے ہیں۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک اور حادثہ آپ کی زندگی کا دھارا بدل دے۔ اس فوج کے حالات مجھ سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کے سپاہیوں کو گرمیوں کی شدت اور طرح طرح کی بیماریوں نے نڈھال کردیا ہے۔ ایک عام سپاہی سے لے کر سپہ سالار تک ہر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس مہم کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ رسد کی کمی آپ کے لیے ایک تشویش ناک مسئلہ بن چکی ہے اور اب آپ کے راستے میں وہ شہر نہیں ہوں گے جہاں لوٹ مار کرکے یہ لوگ اپنا پیٹ بھرسکیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ جب یہ بد دل اور مایوس لشکر حبشہ کی حدود میں داخل ہوگا تو اِس کا مقابلہ ان غیر منظم قبائل کی بجائے اُس منظم فوج سے ہوگا جس کا ہر سپاہی اپنے وطن کی آزادی کے لیے موت و حیات سے بے پروا ہو کر لڑے گا۔ پھر آپ کو اگر کسی میدان سے پسپا ہونا پڑا تو حبشہ کے سپاہی طیبہ تک آپ کا پیچھا کریں گے۔ کسریٰ کو اس بات کی پروا نہ ہوگی کہ اس لشکر کے بیشتر سپاہی اُس کی ہوس ملک گیری کی نذر ہوچکے ہیں۔ اور اُس کی لاشیں دریائے نیل کے کنارے بکھری ہوئی ہیں۔ بلکہ اُس کے سامنے صرف یہ مسئلہ ہوگا کہ جو لوگ زندہ واپس آگئے ہیں اُن کے لیے بدترین سزا کیا ہوسکتا ہے؟‘‘۔
عاصم کی قوت برداشت جواب دے چکی تھی وہ اچانک اُٹھ کر بیٹھ گیا، اور بولا۔ ’’کلاڈیوس! تم اپنی حدود سے تجاوز کررہے ہو۔ اگر تمہارا خیال ہے کہ میں تمہاری باتوں سے مرعوب ہوجائوں گا تو کان کھول کر سن لو کہ حبشہ کا تخت و تاج عنقریب ہمارے قدموں میں ہوگا۔ ہم شکست کھا کر بھاگنے کی نیت سے اتنی دور نہیں آئے‘‘۔
کلاڈیوس نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’اگر آپ کو شکست یا پسپائی کا لفظ اس قدر بُرا محسوس ہوتا ہے تو میں معافی کا خواستگار ہوں۔ لیکن فرض کیجیے آپ حبشہ فتح کرلیتے ہیں اور صرف حبشہ ہی نہیں بلکہ سارے براعظم میں بسنے والے انسانوں کو باندھ کر کسریٰ کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں تو بھی آپ کو اِس سے کیا حاصل ہوگا؟۔ کیا وہ مجوسی حکمران جو ساری دنیا پر تسلط جمانے کے خواب دیکھ رہا ہے، آپ سے مزید فتوحات کا مطالبہ نہیں کرے گا؟۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کسریٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے آپ کب تک انسانوں کی لاشیں روندتے رہیں گے؟ آپ کو مفتوحہ ممالک میں ایرانیوں کے مظالم کا اعتراف ہے اور آپ یقیناً اس خود فریبی میں مبتلا نہیں ہوسکتے کہ جب ساری دنیا کسریٰ کی غلام بن جائے گی تو ظالم اور مظلوم کی یہ داستان ختم ہوجائے گی۔ آپ دو قبیلوں کی نہ ختم ہونے والی جنگ کی ہولناکیوں سے دل برداشتہ ہو کر وطن سے نکلے تھے۔ کیا ایران اور روم کی یہ جنگ اُس سے کہیں زیادہ ہولناک نہیں۔ میں یہ کیسے یقین کرسکتا ہوں کہ وہ نوجوان جس نے ایک زخمی دشمن کی فریاد سے متاثر ہو کر اپنے قبیلے کی تمام روایات کو ٹھکرا دیا تھا۔ کروڑوں انسانوں کو ایران کے آہنی استبداد کی چکی میں پستا دیکھ کر مطمئن رہ سکے گا۔ جس دن آپ نے میری جان بچائی تھی آپ میرے لیے معما تھے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ کسریٰ کی فوج کے ایک سپاہی کے دل میں رحم اور مروت کے جذبات بھی ہوسکتے ہیں لیکن اب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ایک نیک دل انسان اپنا راستہ بھول کر بھیڑیوں کے گروہ میں شامل ہوگیا ہے۔ اگر میں نے آپ کو سمجھنے میں غلطی نہیں کی تو وہ وقت دور نہیں جب آپ اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوجائیں گے‘‘۔ (جاری ہے)