’’ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے؟ کبھی تم نے غور کیا، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو، اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں‘‘۔ (الواقعہ:57، 59)
دنیا کی تمام دوسری چیزوں کو چھوڑ کر انسان اگر صرف اسی ایک بات پر غور کرے کہ وہ خود کس طرح پیدا ہوا ہے تو اسے نہ قرآن کی تعلیم توحید میں کوئی شک رہ سکتا ہے نہ اس کی تعلیم آخرت میں۔ انسان آخر اسی طرح تو پیدا ہوتا ہے کہ مرد اپنا نطفہ عورت کے رحم تک پہنچادیتا ہے۔ مگر کیا اس نطفے میں بچہ پیدا کرنے کی، اور لازماً انسان ہی کا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت آپ سے آپ پیدا ہوگئی ہے؟ یا انسان نے خود پیدا کی ہے؟ یا خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کردی ہے؟ اور کیا یہ مرد کے، عورت کے، یا دنیا کی کسی طاقت کے اختیار میں ہے کہ اس نطفے سے حمل کا استقرار کرادے؟ پھر استقرار حمل سے وضع حمل تک ماں کے پیٹ میں بچے کی درجہ بدرجہ تخلیق و پرورش، اور ہر بچے کی الگ صورت گری، اور ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک خاص شخصیت کا انسان بن کر اٹھے، کیا یہ سب کچھ ایک خدا کے سوا کسی اور کا کام ہے؟ کیا اس میں کسی اور ذرہ برابر بھی کوئی دخل ہے؟ کیا یہ کام ماں باپ خود کرتے ہیں؟ یا کوئی ڈاکٹر کرتا ہے؟ یا وہ انبیا اور اولیا کرتے ہیں جو خود اسی طرح پیدا ہوئے ہیں؟ یا سورج اور چاند اور تارے کرتے ہیں جو خود ایک قانون کے غلام ہیں؟ یا وہ فطرت (Nature) کرتی ہے جو بجائے خود کوئی علم، حکمت، ارادہ اور اختیار نہیں رکھتی؟ پھر کیا یہ فیصلہ کرنا بھی خدا کے سوا کسی کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکی ہو یا لڑکا؟ خوب صورت ہو یا بدصورت؟ طاقتور ہو یا کمزور؟ اندھا بہرا لنگڑا، لُولا ہو یا صحیح الاعضا؟ ذہین ہو یا کند ذہن؟ پھر کیا خدا کے سوا کوئی اور یہ طے کرتا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں کس وقت کس قوم کے اندر کن اچھی یا بری صلاحیتوں کے آدمی پیدا کرے جو اسے عروج پر لے جائیں یا زوال کی طرف دھکیل دیں؟ اگر کوئی شخص ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا نہ ہو تو وہ خود محسوس کرے گا کہ شرک یا وہریت کی بنیاد پر ان سوالات کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جاسکتا۔ ان کا معقول جواب ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان پورا کا پورا خدا کا ساختہ و پرداختہ ہے اور جب حقیقت یہ ہے تو خدا کے ساختہ و پرداختہ اس انسان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنے خالق کے مقابلے میں آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کرے؟ اس کے سوا کسی دوسرے کی بندگی بجالائے؟
توحید کی طرح یہ سوال آخرت کے معاملے میں بھی فیصلہ کن ہے۔ انسان کی تخلیق ایک ایسے کیڑے سے ہوتی ہے جو طاقتور خوردبین کے بغیر نظر تک نہیں آسکتا۔ یہ کیڑا عورت کے جسم کی تاریکیوں میں کسی وقت اس نسوانی انڈے سے جاملتا ہے جو اسی کی طرح ایک حقیر سا خوردبینی وجود ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خلیہ بن جاتا ہے جو حیات انسانی کا نقطہ آغاز ہے، اور یہ خلیہ بھی اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ خوردبین کے بغیر اس کو نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس ذرا سے خلیے کو ترقی دے کر اللہ تعالیٰ 9 مہینے چند روز کے اندر رحم مادر میں ایک جیتا جاگتا انسان بنادیتا ہے، اور جب اس کی تخلیق مکمل ہوجاتی ہے تو ماں کا جسم خود ہی اسے دھکیل کر دنیا میں اودھم مچانے کے لئے باہر پھینک دیتا ہے۔ تمام انسان اسی طرح دنیا میں آئے ہیں اور شب و روز اپنے ہی جیسے انسانوں کی پیدائش کا یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو خدا اس طرح انسانوں کو آج پیدا کررہا ہے وہ کل کسی وقت اپنے ہی پیدا کئے ہوئے ان انسانوں کو دوبارہ کسی اور طرح پیدا نہ کرسکے گا۔
’’ہم نے تمہارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے، اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمہیں پیدا کردیں جس کو تم نہیں جانتے‘‘۔(الواقعہ:60،61)
تمہاری پیدائش کی طرح تمہاری موت بھی ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم یہ طے کرتے ہیں کہ کس کو ماں کے پیٹ ہی میں مر جانا ہے، اور کسے پیدا ہوتے ہی مر جانا ہے، اور کسے کس عمر تک پہنچ کر مرنا ہے۔ جس کی موت کا جو وقت ہم نے مقدرکردیا ہے اس سے پہلے دنیا کی کوئی طاقت اسے مار نہیں سکتی، اور اس کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی زندہ نہیں رکھ سکتی۔ مرنے والے بڑے بڑے اسپتالوں میں بڑے سے بڑے ڈاکٹروں کی آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں، بلکہ ڈاکٹر خود بھی اپنے وقت پر مر جاتے ہیں۔ کبھی کوئی نہ موت کے وقت کو جان سکا ہے، نہ آتی ہوئی موت کو روک سکا ہی، نہ یہ معلوم کرسکا ہے کہ کس کی موت کس ذریعے سے ’کہاں‘ کس طرح واقع ہونے والی ہے۔
جس طرح ہم اس سے عاجز نہ تھے کہ تمہیں تمہاری موجودہ شکل و ہیئت میں پیدا کریں، اسی طرح ہم اس سے بھی عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری تخلیق کا طریقہ بدل کر کسی اور شکل و ہیئت میں، کچھ دوسری صفات و خصوصایت کے ساتھ تم کو پیدا کریں۔ آج تم کو ہم اس طرح پیدا کرتے ہیں کہ تمہارا نطفہ قرار پاتا ہے اور تم ماں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ بن کر ایک بچے کی صورت میں برآمد ہوتے ہو۔ یہ طریق تخلیق بھی ہمارا ہی مقرر کیا ہوا ہے۔ مگر ہمارے پاس بس یہی ایک لگا بندھا طریقہ نہیں ہے جس کے سوا ہم کوئی اور طریقہ نہ جانتے ہوں، یا نہ عمل میں لاسکتے ہوں۔ قیامت کے روز ہم تمہیں اسی عمر کے انسان کی شکل میں پیدا کرسکتے ہیں جس عمر میں تم مرے تھے۔ آج تمہاری بینائی، سماعت اور دوسرے حواس کا پیمانہ ہم نے کچھ اور رکھا ہے۔ مگر ہمارے پاس انسان کے لئے بس یہی ایک پیمانہ نہیں ہے جسے ہم بدل نہ سکتے ہوں۔ قیامت کے روز ہم اسے بدل کر کچھ سے کچھ کردیں گے یہاں تک کہ تم وہ کچھ دیکھ اور سن سکوگے جو یہاں نہیں دیکھ سکتے اور نہیں سن سکتے۔ آج تمہاری کھال اور تمہارے ہاتھ پائوں اور تمہاری آنکھوں میں کوئی گویائی نہیں ہے، مگر زبان کو بولنے کی طاقت ہم ہی نے تو دی ہے۔ ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ قیامت کے روز تمہارا ہر عضو اور تمہارے جسم کی کھال کا ہر ٹکڑا ہمارے حکم سے بولنے لگے۔ آج تم ایک خاص عمر تک ہی جیتے ہو اور اس کے بعد مر جاتے ہو۔ یہ تمہارا جینا اور مرنا بھی ہماری ہی مقرر کردہ ایک قانون کے تحت ہوتا ہے۔ کل ہم ایک دوسرا قانون تمہاری زندگی کے لئے بناسکتے ہین جس کے تحت تمہیں کبھی موت نہ آئے۔ آج تم ایک خاص حد تک ہی عذاب برداست کرسکتے ہو، جس سے زائد عذاب اگر تمہیں دیا جائے تو تم زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ ضابطہ بھی ہمارا ہی بنایا ہوا ہے۔ کل ہم تمہارے لئے ایک دوسرا ضابطہ بناسکتے ہیں جس کے تحت تم ایسا عذاب ایسی طویل مدت تک بھگت سکوگے جس کا تم تصور تک نہیں کرسکتے، اور کسی سخت سے سخت عذاب سے بھی تمہیں موت نہ آئے گی۔ آج تم سوچ نہیں سکتے کہ کوئی بوڑھا جوان ہوجائے، کبھی بیمار نہ ہو، کبھی اس پر بڑھاپا نہ آئے اور ہمیشہ ہمیشہ وہ ایک ہی عمر کا جواب رہے، مگر یہاں جوانی پر بڑھاپا ہمارے بنائے ہوئے قوانین حیات ہی کے مطابق تو آتا ہے۔ کل ہم تمہاری زندگی کے لئے کچھ دوسرے قوانین بناسکتے ہیں جن کے مطابق جنت میں جاتے ہی ہر بوڑھا جوان ہوجائے اور اس کی جوانی و تدرستی لازوال ہو۔
’’اپنی پہلی پیدائش کو تم جانتے ہو، پھر کیوں سبق نہیں لیتے؟‘‘(الواقعہ:62)
تم یہ تو جانتے ہی ہو کہ پہلے تم کسے پیدا کئے گئے تھے۔ کسی طرح باپ کی صلب سے وہ نطفہ منتقل ہوا جس سے تم وجود میں آئے۔ کس طرح رحم مادر میں، جو قبر سے کچھ کم تاریک نہ تھا، تمہیں پرورش کرکے زندہ انسان بنایا گیا۔ کس طرح ایک ذرہ بے مقدار کو نشوونما دیکر یہ دل و دماغ، یہ آنکھ کان اور یہ ہاتھ پائوں اس میں پیدا کئے گئے اور عقل و شعور، علم و حکمت، صنعت و ایجاد اور تدبیر و تسخیر کی یہ حیرت انگیز صلاحیتیں اس کو عطا کی گئیں۔ کیا یہ معجزہ مُردوں کو دوبارہ جِلا اٹھانے سے کچھ کم عجیب ہے؟ اس عجیب معجزے کو جب تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور خود اس کی زندہ شہادت کے طور پر دنیا میں موجود ہو تو کیوں اس سے یہ سبق نہیں لیتے کہ جس خدا کی قدرت سے یہ معجزہ شب و روز رونما ہورہا ہے اسی کی قدرت سے زندگی بعد موت اور حشر و نشر اور جنت و دوزخ کا معجزہ بھی رونما ہوسکتا ہے؟
’’کبھی تم نے سوچا، یہ بیج جو تم بوتے ہو، ان سے کھیتیاں تم اگاتے ہو یا ان کے اگانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں توان کھیتیوں کو بھس بناکر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جائو کہ ہم پر تو الٹی چٹی پڑ گئی، بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں‘‘۔(الواقعہ:63، 67)
اوپر کا سوال لوگوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلارہا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساختہ و پرواختہ ہو اور اسی کی تخلیق سے وجود میں آئے ہو۔ اب یہ دوسرا سوال انہیں اس دوسری اہم حقیقت کی طرف توجہ دلارہا ہے کہ جس رزق پر تم پلتے ہو وہ بھی اللہ ہی تمہارے لئے پیدا کرتا ہے۔ جس طرح تمہاری پیدائش میں انسانی کوشش کا دخل اس سے زائد کچھ نہیں ہے کہ تمہارا باپ تمہاری ماں کے اندر نطفہ ڈال دے، اسی طرح تمہارے رزق کی پیداوار میں بھی انسان کی کوشش کا دخل اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے کہ کسان کھیتی میں بیج ڈال دے۔ زمین، جس میں یہ کاشت کی جاتی ہے، تمہاری بنائی ہوئی نہیں ہے۔ اس زمین کو روئیدگی کی صلاحیت تم نے نہیں بخشی ہے۔ اس میں وہ مادے جن سے تمہاری غذا کا سامان بہم پہنچتا ہے، تم نے فراہم نہیں کئے ہیں۔ اس کے اندر جو بیج تم ڈالتے ہو، ان کو نشوونما کے قابل تم نے نہیں بنایا ہے۔ ان بیجوں میں یہ صلاحیت کہ ہر بیج سے اسی نوع کا درخت پھوٹے جس کا وہ بیج ہے، تم نے پیدا نہیں کی ہے۔ اس کاشت کو لہلہاتی کھیتیوں میں تبدیل کرنے کے لئے زمین کے اندر جس عمل اور زمین کے اوپر جس ہوا، پانی، حرارت، برودت اور موسمی کیفیت کی ضرورت ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی تمہاری کسی تدبیر کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اللہ ہی کی قدرت اور اسی کی پروردگاری کا کرشمہ ہے۔ پھر جب تم وجود میں اسی کے لانے سے آئے ہو، اور اسی کے رزق سے پل رہے ہو، تم کو اس کے مقابلے میں خودمختاری کا، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کا حق آخر کیسے پہنچتا ہے؟
اس آیت کا ظاہر استدلال تو توحید کے حق میں ہے، مگر اس میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے، اس پر اگر آدمی تھوڑا سا مزید غور کرے تو اسی کے اندر آخرت کی دلیل بھی مل جاتی ہے۔ جو بیج زمین میں بویا جاتا ہے وہ بجائے خود مُردہ ہوتا ہے، مگر زمین کی قبر میں جب کسان اس کو دفن کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اندر وہ نباتی زندگی پیدا کردیتا ہے جس سے کونپلیں پھوٹتی ہیں اور لہلہاتی کھیتیاں شان بہار دکھاتی ہیں۔ یہ بے شمار مُردے ہماری آنکھوںکے سامنے آئے دن قبروں سے جی جی کر اٹھ رہے ہیں۔ یہ معجزہ کیا کچھ کم عجیب ہے کہ کوئی شخص اس دوسرے عجیب معجزے کو ناممکن قرار دے جس کی خبر قرآن ہمیں دے رہا ہے، یعنی انسانوں کی زندگی بعد موت۔
’’کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو، اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بناکر رکھ دیں، پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے؟‘‘(الواقعہ:68، 70)
تمہاری بھوک مٹانے ہی کا نہیں، تمہاری پیاس بجھانے کا انتظام بھی ہمارا ہی کیا ہوا ہے۔ یہ پانی جو تمہاری زندگی کے لئے روٹی سے بھی زیادہ ضروری ہے، تمہارا اپنا فراہم کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اسے ہم فراہم کرتے ہیں۔ زمین میں یہ سمندر ہم نے پیدا کئے ہیں۔ ہمارے سورج کی گرمی سے ان کا پانی بھاپ بن کر اٹھتا ہے۔ ہم نے اس پانی میں یہ خاصیت پیدا کی ہے کہ ایک خاص درجہ حرارت پر وہ بھاپ میں تبدیل ہوجائے۔ ہماری ہوائیں اسے لے کر اٹھتی ہیں۔ ہماری قدرت اور حکمت سے وہ بھاپ جمع ہوکر بادل کی شکل اختیار کرتی ہے۔ ہمارے حکم سے یہ بادل ایک خاص تناسب سے تقسیم ہوکر زمین کے مختلف خطوں پر پھیلتے ہیں تاکہ جس خطہ زمین کے لئے پانی کا جو حصہ مقرر کیا گیا ہے وہ اس کو پہنچ جائے، اور ہم بالائی فضا میں وہ برودت پیدا کرتے ہیں جس سے یہ بھاپ پھر سے پانی میں تبدیل ہوتی ہے۔ ہم تمہیں صرف وجود میں لاکر ہی نہیں رہ گئے ہیں بلکہ تمہاری پرورش کے یہ سارے انتظامات بھی ہم کررہے ہیں جن کے بغیر تم جی نہیں سکتے۔ پھر ہماری تخلیق سے وجود میں آکر، ہمارا رزق کھاکر اور ہمارا پانی پی کر یہ حق تمہیں کہاں سے حاصل ہوگیا کہ ہمارے مقابلے میں خودمختار بنو، یا ہمارے سوا کسی اور کی بندگی بجالائو؟
(یہاں) اللہ کی قدرت و حکمت کے ایک اہم کرشمے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو حیرت انگیز خواص رکھے ہیں، ان میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس کے اندر خواہ کتنی ہی چیزیں تحلیل ہوجائیں، جب وہ حرارت کے اثر سے بھاپ میں تبدیل ہوتا ہے تو ساری آمیزشیں نیچے چھوڑ دیتا ہے اور صرف اپنے اصل آبی اجزا کو لے کر ہوا میں اڑتا ہے۔ یہ خاصیت اگر اس میں نہ ہوتی تو بھاپ میں تبدیل ہوتے وقت بھی وہ سب چیزیں اس میں شامل رہتیں جو پانی ہونے کی حالت میں اس کے اندر تحلیل شدہ تھیں۔ اس صورت میں سمندر سے جو بھاپیں اٹھتیں، ان میں سمندر کا نمک بھی شامل ہوتا اور ان کی بارش تمام روئے زمین کو زمین شور بنادیتی۔ نہ انسان اس پانی کو پیکر جی سکتا تھا، نہ کسی قسم کی نباتات اس سے اگ سکتی تھی۔ اب کیا کوئی شخص دماغ میں ذرا سی عقل رکھتے ہوئے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اندھی بہری فطرت سے خود بخود پانی میں یہ حکیمانہ خاصیت پیدا ہوگئی ہے؟ یہ خاصیت، جس کی بدولت کھاری سمندروں سے صاف ستھرا میٹھا پانی کشید ہوکر بارش کی شکل میں برستا ہے اور پھر دریائوں، نہروں، چشموں اور کنوئوں کی شکل میں آب رسانی و آب پاشی کی خدمت انجام دیتا ہے، اس بات کی صریح شہادت فراہم کرتی ہے کہ ودیعت کرنے والے نے پانی میں اس کو خوب سوچ سمجھ کر بالارا وہ اس مقصد کے لئے ودیعت کیا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کی پرورش کا ذریعہ بن سکے۔ جو مخلوق کھاری پانی سے پرورش پاسکتی تھی وہ اس نے سمندر میں پیدا کی اور وہاں وہ خوب جی رہی ہے، مگر جس مخلوق کو اس نے خشکی اور ہوا میں پیدا کیا تھا اس کی پرورش کے لئے میٹھا پانی درکار تھا اور اس کی فراہمی کے لئے بارش کا انتظام کرنے سے پہلے اس نے پانی کے اندر یہ خاصیت رکھ دی کہ گری سے بھاپ بنتے وقت وہ کوئی ایسی چیز لے کر نہ اڑے جو اس کے اندر تحلیل ہوگئی ہو۔
(اب) کیوں یہ کفران نعمت کرتے ہو کہ تم میں سے کوئی اس بارش کو دیوتائوں کا کرشمہ سمجھتا ہے، اور کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ سمندر سے بادلوں کا اٹھنا اور پھر آسمان سے پانی بن کا برسنا ایک فطری چکر ہے جو آپ سے آپ چلے جارہا ہے، اور کوئی اسے خدا کی رحمت سمجھتا بھی ہے تو اس خدا کا اپنے اوپر یہ حق نہیں مانتا کہ اسی کے آگے سر اطاعت جھکائے؟ خدا کی اتنی بڑی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہو اور پھر جواب میں کفر و شرک اور فسق و نافرمانی کرتے ہو؟
’’کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ ہم نے اس کو یاد دہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لئے سامان زیست بنایا ہے‘‘۔ (الواقعہ:71، 73)
اس آگ کو یاد دہانی کا ذریعہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز ہے جو ہر وقت روشن ہوکر انسان کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے۔ اگر آگ نہ ہوتی تو انسان کی زندگی حیوان کی زندگی سے مختلف نہ ہوسکتی۔ آگ ہی سے انسان نے حیوانات کی طرح کچی غذائیں کھانے کے بجائے ان کو پکار کر کھانا شروع کیا اور پھر اس کے لئے صنعت و ایجاد کے نئے نئے دروازے کھلتے چلے گئے۔ ظاہر ہے کہ اگر خدا وہ ذرائع پیدا نہ کرتا جن سے آگ جلائی جاسکے اور وہ آتش پذیر مادے پیدا نہ کرتا جو آگ سے جل سکیں تو انسان کی ایجادی صلاحیتوں کا قفل ہی نہ کھلتا۔ مگر انسان یہ بات فراموش کرگیا ہے کہ اس کا خالق کوئی پروردگار حکیم ہے جس نے اسے ایک طرف انسانی قابلیتیں دے کر پیدا کیا تو دوسری طرف زمین میں وہ سروسامان بھی پیدا کردیا جس سے اس کی یہ قابلیتیں روبعمل آسکیں۔ وہ اگر غفلت میں مدہوش نہ ہو تو تنہا ایک آگ ہی اسے یہ یاد دلانے کے لئے کافی ہے کہ یہ کس کے احسانات اور کس کی نعمتیں ہیں جن سے وہ دنیا میں متمتع ہورہا ہے۔
’’پس اے نبیؐ، اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔(الواقعہ:74)
(تفہیم القرآن، جلد4، ص284، 290)