علامہ اقبال
تيری متاعِ حیات، علم و ہنر کا سرور
ميری متاعِ حیات ایک دلِ ناصبور!
معجزہ اہلِ فکر، فلسفہء پيچ پيچ
معجزہ اہلِ ذکر، موسیٰ و فرعون و طور
مصلحتاً کہہ دیا میں نے مسلماں تجھے
تیرے نفس میں نہیں، گرمیِ یوم النشور
ايک زمانے سے ہے چاک گريباں مرا
تو ہے ابھی ہوش میں، ميرے جنوں کا قصور
فیضِ نظر کے لیے ضبطِ سخن چاہیے
حرف پریشاں نہ کہہ اہلِ نظر کے حضور
خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم
عشق ہو جس کا جسور ، فقر ہو جس کا غيور
مرزا اسداللہ خاں غالب
نکتہ چیں ہے، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بُلاتا تو ہوں اُس کو، مگر اے جذبۂ دل
اُس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے، کہیں چھوڑ نہ دے، بھول نہ جائے
کاش! یُوں بھی ہو کہ بِن میرے ستائے نہ بنے
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ، اگر
کوئی پُوچھے کہ یہ کیا ہے، تو چُھپائے نہ بنے
اِس نزاکت کا بُرا ہو، وہ بھلے ہیں، تو کیا
ہاتھ آویں، تو اُنھیں ہاتھ لگائے نہ بنے
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے
موت کی راہ نہ دیکھوں؟ کہ بِن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں؟ کہ نہ آؤ، تو بُلائے نہ بنے
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ!
کہ لگائے نہ لگے، اور بُجھائے نہ بنے
اکبر الٰہ آبادی
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گلِ تصویر کا شیدا نہیں ہوتا
اللہ بچائے مرضِ عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا
تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گُلِ تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
مومن
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
نارسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر!
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
چارئہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
حسرت موہانی
نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
دلوں کو فکرِ دو عالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی
مجھے وہ شاملِ اربابِ امتیاز کرے
غمِ جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے دردِ محبت سے ساز باز کرے
ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے
جگرمُرادآبادی
دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گُناہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند
خود حُسن کو گواہ کیے جارہا ہوں میں
معصومئ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کُچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں
تنقیدِ حُسن مصلحتِ خاصِ عشق ہے
یہ جُرم گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں
اُٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اُس کے رُوبرُو
نا دیدہ اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جارہا ہوں
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کیے جارہا ہوں میں
مجھ سے جگر، ہُوا ہے ادا جستجوکا حق
ہر ذرّے کو ، گواہ کیے جارہا ہوں میں
بہادر شاہ ظفر
نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غُبار ہوں
مرا رنگ روپ بگڑ گیا‘ مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا، میں اسی کی فصلِ بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع آ کے جلائے کیوں کہ میں بے کسی کا مزار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا، مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مولانا محمد علی جوہر
دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدعا کے بعد
تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد
لذت ہنوز مائدہء عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنا سزا کے بعد
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
بشیر بدر