عرب نے کہا۔ ’’جناب! عاصم کا مقصد اس علاقے میں دشمن کی صحیح قوت کا اندازہ لگانا تھا۔ اب اگر اُس کا ایک ساتھی بھی واپس نہ آیا تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ ہمارے لیے آگے بڑھنا کتنا خطرناک ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس براعظم کے تمام باشندے ہمارا راستہ روکنے کے لیے جمع ہوگئے ہیں‘‘۔
دوسرے عرب نے کہا۔ ’’جناب! میں عاصم کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ بہت دوراندیش ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی جانیں خطرے میں نہیں ڈالے گا۔ ممکن ہے وہ زیادہ دور نکل گیا ہو۔ ہمارے ساتھیوں کو بیکار بیٹھ کر اُس کا انتظار کرنا تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم ان قیدیوں سے نپٹ لیں‘‘۔
سپہ سالار نے کہا۔ ’’نہیں! قیدیوں کے متعلق ہم نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ‘‘
عرب نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’آپ انہیں زندہ رکھنا چاہتے ہیں؟‘‘
سپہ سالار نے جواب دیا۔ ’’میں نے عاصم سے وعدہ کیا تھا کہ قیدیوں کے ساتھ ہمارا سلوک اُس کے مشورے کے مطابق ہوگا‘‘۔
عرب نے کہا۔ ’’جناب! قیدیوں کے متعلق عاصم کا رویہ بہت نرم ہوتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اُس کے نزدیک بھی کسی رحم کے مستحق نہیں ہوں گے‘‘۔
’’بہرحال ہم اُس سے مشورہ کیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ کاش! ہمیں معلوم ہوتا کہ وہ لوگ اس وقت کیا کررہے ہیں۔ عاصم کا رومی غلام کہاں ہے؟‘‘۔
ایک افسر نے جواب دیا۔ ’’وہ یہیں ہے جناب! میں نے ابھی اُسے پڑائو میں دیکھا تھا‘‘۔
سپہ سالار نے مُڑ کر اپنے ایک محافظ کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’اُسے بلا لائو‘‘۔
سپاہی بھاگتا ہوا عاصم کے خیمے کی طرف بڑھا اور تھوڑی دیر بعد کلاڈیوس کو اپنے ساتھ لے آیا۔ یہ دراز قامت نوجوان اپنے گلے میں غلامی کا آہنی طوق پہننے کے باوجود مردانہ حسن و وقار کا ایک پیکر مجسم دکھائی دیتا تھا۔
سپہ سالار نے اُسے دیکھتے ہی پوچھا۔ ’’تم عاصم کے ساتھ کیوں نہیں گئے؟‘‘
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’جناب! انہوں نے مجھے ساتھ لیے جانا پسند نہیں کیا‘‘۔
’’تمہیں معلوم ہے کہ اُس کے اب تک واپس نہ آنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟‘‘۔
کلاڈیوس نے بے اعتنائی سے جواب دیا۔ ’’جناب! ایک غلام اپنے آقا کی مصلحتیں کیسے جان سکتا ہے۔
سپہ سالار نے کہا۔ ’’ہم جانتے ہیں کہ اُس نے کبھی تمہارے ساتھ غلاموں کا سا سلوک نہیں کیا اور خطرے کے وقت اُسے اپنی جان سے زیادہ تمہاری فکر ہوتی ہے‘‘۔
’’جناب! میرے آقا بہت رحم دل ہیں اور میں اُن کا شکر گزار ہوں۔ علی الصباح یہاں سے روانہ ہوتے وقت اُن کی باتوں سے میرے دل میں یہ خیال ضرور پیدا ہوا تھا کہ وہ کسی خطرناک مہم پر جارہے ہیں۔ لیکن مجھے یہ توقع نہ تھی کہ وہ شام تک واپس نہیں آئیں گے‘‘۔
’’اچھا بتائو، انہوں نے کیا کہا تھا؟‘‘۔
’’جناب! وہ یہ کہتے تھے کہ آج میری کامیابی پر اِس ساری مہم کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر مجھے دیر لگ جائے تو تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ وہ بہت دور نکل گئے ہیں‘‘۔
ایک عرب نے کہا۔ ’’جناب! طیبہ کے قیدیوں میں جو آدمی اس علاقے کے باشندوں کی زبان جانتے تھے اُن میں سے ایک کو عاصم اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اُس نے عاصم کو دھوکا دے کر کسی غلط راستے پر نہ ڈال دیا ہو‘‘۔
سپہ سالار نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ اگر اس بے وقوف نے کسی لمبے سفر پر جانے کا ارادہ کیا تھا تو اُسے مجھ سے مشورہ کرنا چاہیے تھا‘‘۔
ایک ایرانی افسر نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’جناب اُس طرف دیکھیے شاید وہ آرہے ہیں‘‘۔
سپہ سالار اور اُس کے ساتھی جنوب مغرب کی سمت ایک ٹیلے کی اوٹ سے نمودار ہونے والے سواروں کی طرف دیکھنے لگے اور آن کی آن میں پڑائو کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسرت کی لہر دوڑ گئی۔
تھوڑی دیر بعد جب سورج مغربی اُفق کو چھو رہا تھا، عرب سوار اپنے نیزوں سے سیاہ فام قیدیوں کو ہانکتے ہوئے پڑائو کے قریب ایک اور ٹیلا عبور کررہے تھے۔
’’سین کا انتخاب غلط نہ تھا۔ عاصم ہماری توقع سے زیادہ کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ جائو! اُسے سیدھا ہمارے پاس لے آئو‘‘۔ سپہ سالار یہ کہہ کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ اور اُس کے ساتھی بھاگتے ہوئے عاصم کے استقبال کے لیے بڑھے۔ کلاڈیوس چند قدم چلنے کے بعد رُک گیا اور ٹکٹکی باندھ کر سواروں کی طرف دیکھنے لگا۔ آنے والے قافلے کی رفتار سپہ سالار کی توقع کے خلاف بہت سست تھی۔ چنانچہ وہ بھی چند ثانیے انتظار کرنے کے بعد اُٹھ کر اپنے ساتھیوں کے پیچھے ہولیا۔ کلاڈیوس کے قریب پہنچ کر اُس نے کہا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنے آقا کے استقبال کے لیے آگے بڑھنا کسرِشان سمجھتے ہو‘‘۔
’’نہیں جناب‘‘۔ کلاڈیوس نے گھٹی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ ’’میرے آقا کو سب سے آگے ہونا چاہیے تھا، لیکن مجھے ان کا گھوڑا دکھائی نہیں دے رہا‘‘۔
سپہ سالار نے مضطرب ہو کر کہا۔ ’’تمہارا مطلب ہے کہ عاصم…‘‘
کلاڈیوس نے جواب دینے کی بجائے سپہ سالار کی طرف دیکھا اور اُس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔
سپہ سالار چلایا۔ ’’نہیں، نہیں یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔
کلاڈیوس اپنے آنسو پونچھنے کے بعد دوبارہ آنے والے قافلے کی طرف دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اچانک بلند آواز میں چلایا۔ ’’جناب وہ آرہے ہیں۔ وہ زندہ ہیں۔ وہ دوسرے گھوڑے پر سوار ہیں، لیکن شاید وہ زخمی ہیں‘‘۔
سپہ سالار آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سواروں کی طرف دیکھنے لگا اور کلاڈیوس اپنی پوری قوت سے اُن کی طرف بھاگنے لگا۔ سواروں کے قریب پہنچ کر اُس کی ہمت جواب دیتی محسوس ہوئی۔ عاصم گھوڑے کی زین پر جھکا ہوا تھا اُس کا زرد چہرہ اور سینے پر بندھی ہوئی خون آلود پٹی اُس کے زخمی ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔ کلاڈیوس کو دیکھ کر عاصم کے خشک ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اُس نے ذرا سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کلاڈیوس! میں زندہ ہوں، لیکن میرا عزیز ترین دوست اس لڑائی میں کام آگیا‘‘۔
’’آپ کا گھوڑا؟‘‘ کلاڈیوس نے کہا۔
’’ہاں! وہ میرا آخری دوست تھا۔ اُس نے زخمی ہو کر گرتے ہی دم دے دیا تھا۔ اب اپنے وطن کی کوئی نشانی میرے پاس نہیں رہی۔‘‘ عاصم نے یہ کہہ کر آنکھیں بند کرلیں اور کلاڈیوس گھوڑے کی باگ پکڑ کر اُس کے ساتھ ہو لیا۔
تھوڑی دیر بعد سیکڑوں سپاہی اُن کے گرد جمع ہورہے تھے۔ سپہ سالار ہانپتا ہوا آگے بڑھا۔ عاصم اُسے لیتے ہی گھوڑے سے اُتر پڑا اور ادب سے سلام کرتے ہوئے بولا۔ ’’جناب اگر آپ کو میری وجہ سے کوئی پریشانی ہوئی ہے تو میں معافی کا خواستگار ہوں‘‘۔
سپہ سالار نے کہا۔ ’’میں یقینا بہت پریشان تھا۔ لیکن اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ تم زخمی ہو کر آئے ہو اور تمہیں طبیب کی ضرورت ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’جناب میرا زخم بہت معمولی ہے‘‘۔
سپہ سالار نے کہا۔ ’’مجھے یقین تھاکہ تم کوئی اہم خبر لے کر واپس آئو گے‘‘۔
عاصم بولا۔ ’’جناب! اس مہم میں ہمارے سات آدمی کام آئے ہیں اور دس زخمی ہوئے ہیں۔ دشمن کے نقصانات ہم سے بہت زیادہ تھے‘‘۔
سپہ سالار نے پوچھا۔ ’’قیدیوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’ہم نے بچپن آدمی گرفتار کیے تھے لیکن راستے میں تین قیدیوں کو رہا کردیا گیا‘‘۔
سپہ سالار نے کہا۔ ’’ہمارے پاس چند قیدی اور بھی ہیں اور ہمیں سونے سے پہلے ان کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’اگر میں ان کے متعلق کچھ کہنے کا حق رکھتا ہوں تو میری یہ درخواست ہے کہ ان کا فیصلہ کل پر چھوڑ دیا جائے اور آج رات انہیں کوئی تکلیف نہ دی جائے‘‘۔
سپہ سالار نے کہا۔ ’’میں جانتا ہوں کہ تم قیدیوں کے معاملے میں بہت رحم دل ہو لیکن یہ لوگ کسی اچھے سلوک کے مستحق نہیں‘‘۔
ایک عرب نے کہا۔ ’’ہمیں ان لوگوں کو پڑائو میں لے جانے کی بجائے یہیں قتل کردینا چاہیے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’اگر انہیں قتل کرکے ہمیں کوئی فائدہ پہنچ سکتا تو میں آپ کو منع نہیں کرتا لیکن ہمارا فائدہ اسی میں ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ اچھا برتائو کیا جائے۔ میں نے جن تین قیدیوں کو رہا کیا ہے وہ اپنے سرداروں کے پاس یہ پیغام لے گئے ہیں کہا گر وہ کل تک یہاں آکر اس بات کی ضمانت دیں کہ اس کے بعد راستے میں ہم پر کوئی حملہ نہیں ہوگا تو تمام قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا‘‘۔
’’اور تمہیں یقین ہے کہ ان کے سردار تمہارا پیغام سن کر ہمارے پاس آجائیں گے؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’ان لوگوں کا ایک بااثر سردار ہماری قید میں ہے اور میں نے اُسی سے گفتگو کرنے کے بعد باقی سرداروں کو پیغام بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہم اس علاقے پر قبضہ کرنے کی نیت سے آئے ہیں۔ لیکن جب انہیں یہ معلوم ہوگا کہ ہماری منزل مقصود حبشہ ہے تو یہ راستے میں ہم سے کوئی تعرض نہ کریں گے‘‘۔
سپہ سالار نے کہا۔ ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ ہماری نرمی ان وحشیوں پر کوئی اچھا اثر ڈال سکتی ہے۔ بہر حال میں تمہاری رائے سے اختلاف نہیں کرتا۔ لیکن اب ہمیں تمہارے علاج کی فکرکرنی چاہیے۔ تمہارے زخم سے ابھی تک خون رس رہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ تم گھوڑے پر سوار ہوجائو‘‘۔
’’نہیں جناب! اب میرے لیے چند قدم پیدل چلنا زیادہ آسان ہوگا‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر آگے بڑھا لیکن چند قدم اُٹھانے کے بعد اُس کی ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں۔ کلاڈیوس نے آگے بڑھ کر اُسے سہارا دینے کی کوشش کی۔ لیکن عاصم نے اُسے ایک طرف ہٹادیا۔
تھوری دیر بعد طبیب عاصم کے زخم پر نئی پٹی باندھ رہا تھا اور چند افسر اُس کے گرد کھڑے تھے۔ سپہ سالار خیمے میں داخل ہوا اور اُس نے طبیب سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ ’’اسے کوئی خطرہ تو نہیں‘‘۔
’’نہیں، جناب! یہ بہت خوش نصیب ہیں۔ اگر دشمن کا نیزہ پسلیوں کے اوپر سے پھسلنے کی بجائے سیدھا لگتا تو ان کے بچنے کی کوئی اُمید نہ تھی‘‘۔
سپہ سالار نے عاصم سے کہا۔ ’’تمہارے ساتھی قیدیوں کو زندہ رکھنے کے سخت مخالف ہیں۔ ہم نے بڑی مشکل سے اُن کا جوش و خروش ٹھنڈا کیا ہے‘‘۔
’’جناب! انہیں یہ معلوم نہیں کہ قیدیوں کو کل تک زندہ رکھنا ہمارے لیے کتنا ضروری ہے۔ آپ فوج کو حکم دے دیجیے کہ انہیں ہر ممکن آرام پہنچانے کی کوشش کی جائے‘‘۔
’’تم فکر نہ کرو میں اُن کے لیے بہترین کھانا مہیا کرنے کا حکم دے چکا ہوں، لیکن اگر کل تک ان لوگوں کے سردار یہاں نہ پہنچے تو ہمارے لیے قیدیوں کو ٹھکانے لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا‘‘۔
(جاری ہے)