زمیں زادوں کے زخم

215

تپتی دوپہر‘ سورج سوا نیزے پر اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا، فضا کی آلودگی، گرم ہوا کے تھپیڑے مل کر مانو منہ کو جھلسا رہے تھے اور پاؤں بنا چپلوں کے مستقل پانی میں رہ کر زمین کی کھردراہٹ سے اب پھٹنے لگے تھے، گھر کے ملبے گاہے بہ گاہے پیروں کے نیچے آتے جس سے چلنا اور بھی دشوار ہوگیا تھا۔ آدھے تر اور آدھے خشکی پر ہونے کے باوجود حلق میں پانی کی طلب اب کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی، ایک طرف فصلوں کے ڈوب جانے کا غم اور دوسری طرف ننھے بیٹے کا جو سیلابی ریلے میں کہیں کھو گیا تھا‘ جس کی لاش کی تلاش میں سیلاب کے پانی میں اپنی دو بیٹیوں اور بیوی کے ہمراہ گھوم رہا تھا، وقفے وقفے سے میڈیا والے آتے مختلف زاویے سے تصویریں بناتے وڈیو کوریج کرتے اور چلے جاتے۔ مختلف سیاست دان کیمرہ مین کے ساتھ آتے اپنی اپنی پارٹیوں کے نام کی خاطر لوگوں میں کچھ امداد تقسیم کرتے، جسے میڈیا اپنی پہلی ترجیح سمجھ کر شوٹ کرتا اور پھر وہ بھی چلے جاتے ، لیکن میرا غم کس نے جانا تھا۔
دن بھر کی کھوج کے بعد سورج ڈھلنے کو ہوتا، روشنی مدھم ہو چکی تھی ہم سب اب بھی کھلے آسمان تلے یوں ہی آدھے پانی میں ڈوبے تھے، ننھے بیٹے کی لاش آج بھی نہ ملنے پر بیوی ہلکان ہو چکی تھی، اور بھوک کے مارے پیٹ سے آوازیں آ رہی تھیں، جسم میں اب زندگی کے لیے مزید جدوجہد کرنے کی سکت باقی نہ تھی، تب ہی درخت کنارے کسی بچے کی لاش کے ملنے کا شور برپا ہوا، لاغر جسم کے ساتھ میں بھی دیکھنے جا پہنچا اسی آس پر کہ میرا بچہ ہوگا۔
پاس پہنچا تو دیکھا درخت کے نیچے دو گز خشک زمین کے ٹکڑے پر آدھے زمین میں دھنسے کسی بچے کے پاؤں نظر آ رہے تھے ، ہاتھ بڑھا کر کھینچا تو اپنے اکلوتے بیٹے کا چہرا دیکھ کر دل کو ڈھارس ہوا کہ اس نیم نڈھال جسم کے ساتھ اب مزید پانی میں کھوج نہیں کرنی ہوگی ، ماں نے جب اپنے اکلوتے بیٹے کی لاش کو دیکھا تو مٹی میں لپٹے اس کے چہرے کو کبھی صاف کرتی، چومتی اور کبھی سینے سے لگاتی۔
اب سورج ڈھل چکا تھا رات ہونے کو تھی ، یوں ہی چلتے چلتے خشک زمین کے ایک حصے پر اپنی بیوی بچیوں اور اکلوتے بیٹے کی لاش کو لے کر بیٹھے اپنے اُس خوب صورت گھر کے ملبے کو پانی میں گِرے دیکھ رہا تھا۔ وہی گھر ، جسے میں نے خون پسینے سے نہا کر محنت کرکے تیار کیا تھا‘وہی گھر جس کے آنگن میں میری بیٹیاں اور بیوی سر چھپائے عزت کے ساتھ رہتی تھی، گھر میں ننھے بیٹے کی ہنسی اور اس کی شرارتوں سے تنگ بیوی کی آوازیں گونجتی رہتی تھی۔
وہ گھر جو میری زندگی بھر کی جمع پونجی تھا، میری فصلیں، میرے کھیت اب کچھ بھی میرے ہاتھ میں نہ تھا، میں خالی ہاتھ کھلے آسمان تلے بیوی بچوں سمیت بیٹھا تھا، اسی آس میں کے کب یہ آلودہ پانی سوکھے گا، کب نئے سرے سے زندگی کی شروعات ہوگی۔
انہی سوچوں میں ڈوبے کب نیند کا غلبہ طاری ہوا کوئی خبر نہیں۔ جب آنکھ کھلی تو ارد گرد لوگوں کی آوازیں گونج رہی تھی، کوئی رئیس تاجر اپنی سیاہ لینڈ کروزر میں امدادی سامان لوگوں میں تقسیم کر رہا تھا۔ دونوں بچیاں اور بیوی بھوک سے بے حال، آنکھوں میں آس لیے میری جانب دیکھ رہی تھیں‘ مجبور دل کے ساتھ میں بھی ان لوگوں کے ہجوم میں کچھ امدادی سامان اور کھانے پینے کی اشیاء لینے چلے گیا۔
دھچکا لگا ! جب دیکھا اْس کے ایک آدمی نے ہاتھ میں مہنگا موبائل تھاما ہوا تھا اور ہر ایک کی امداد لیتے ہوئے تصویریں اتار رہا تھا، یہ تو امداد نہیں سراسر دکھاوا تھا۔
زمینی خدا اپنے سے نیچے طبقے کے لوگوں پر، اپنی طاقت کی زور آزمائی کرتے تاکہ معاشرے میں ان کا وقار بڑھ سکے، لیکن بھوک کے آگے مجبور ہوئے کوئی دوسرا راستہ نہ تھا، کچھ دیر کے بعد میری باری آئی ہاتھ بڑھایا امدادی سامان لیتے ہی جب میری تصویر اتاری گئی تو اْس وقت میری عزتِ نفس کی دھجیاں بکھر گئی، دل کیا پھوٹ پھوٹ کر رو دوں‘اسی وقت زمیں پھٹے اور میں دفن ہو جاؤں… میں یہ نہیں تھا جہاں زندگی مجھے لے آئی تھی، مگر میرے اختیار میں کچھ نہ تھا، لوٹتے وقت ٹوٹے دل سے یہ آہ نکلی، خدا کبھی کسی کو زندگی کے اس دوراہے پر نہ لائے جہاں جینا مرنا، کچھ بھی اپنے اختیار میں نہ ہو، رزق پہنچانے کا وعدہ توتُو نے کیا تھا یارب! لیکن جس کو وسیلہ بنایا اس نے ذلیل و خوار کر دیا۔ اب کی بار خدا جب رزق ہم تک پہنچانا تو تُو خود آنا ۔
واپس لوٹا ، کھانے پینے کی ساری اشیا بیوی بچیوں کو دے دیا ، جس سے اُن کا پیٹ تو بھر گیا مگر اُن میں سے کوئی ایک چیز بھی میرے حلق سے نہ اتری جو میں عزتِ نفس بیچ کر لایا تھاروزِ قیامت خدا سے کہوں گا رحم کر مالک ! میں تیرے بانٹنے والوں کو جھیل آیا ہوں۔

حصہ