ہمارے آس پاس بہت سے لوگ اپنے اندر ایک کہانی رکھتے ہیں‘ ان بندوں پر بیتے لمحات صرف ان کے قریبی لوگ ہی جانتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اندر غم و خوشی کی داستانیں چھپائے بظاہر عام لوگوں کی طرح نظر آتے ہیں حالانکہ ان میں سے بہت سے بڑی بڑی آزمائشوں میں سے گزر کر ’’کندن‘‘ بن چکے ہوتے ہیں‘ صبر و تحمل اور شکر کے ساتھ اپنا ناتا اپنے رب سے مضبوطی سے جوڑے رکھتے ہیں۔ ایسے ہی اللہ کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں میں ’’آفتاب قریشی‘‘ بھی ہیں۔
آفتاب قریشی کی بیٹی میری پیاری چچا زاد بہن ایک دن مجھ سے کہنے لگی ’’باجی! آپ تو آس پاس لوگوں پر بیتے لمحوں کو اپنی تحریر میں جگہ دیتی ہیں‘ آپ نے کبھی میرے والد کے بارے میں کچھ تحریر نہیں کیا۔‘‘
چنانچہ اس تحریر میں‘ میں اپنے پیارے چچا آفتاب قریشی کی زندگی کے چند صفحے آپ سے شیئر کروں گی۔
…٭…
یاور: مصطفی سے (جو اس کا بہترین دوست تھا) ’’یار کب تک اس طرح تنہا زندگی گزارو گے۔ بھابھی کے انتقال کو لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور ماشاء اللہ تمہارا بیٹا حبیب بھی جوان ہو چکا ہے۔‘‘
مصطفی: ’’نہیں میرے دوست وقت گزر رہا ہے اور گزر ہی جائے گا‘ اب تو بیٹا میٹرک کرلے تو پھر اس کے بارے میں سوچوں گا‘ میں تو ویسے ہی بڑھاپے میں قدم رکھنے والا ہوں۔‘‘ (ایک قہقہہ لگایا)
یاور: (بڑے غور سے مصطفی کی طرف دیکھتے ہوئے) ’’یار!ایک بات کہوں؟ تم ایک بڑے مشترکہ خاندان کے کفیل ہو‘ تمہارے چچا‘ اس کے بیوی‘ بچے‘ تمہارے بھائی‘ اس کے بیوی بچے‘ سب تمہاری ذمہ داری ہیں۔‘‘
مصطفی: ’’تو…؟‘‘
یاور: ’’میرا مطلب ہے تمہارے چچا کی دونوں بیٹیاں بھی اب جوان ہو رہی ہیں‘ ویسے ہی ان کی تمام ذمہ داری تمہارے اوپر ہے‘ گھر کی بات گھر میں رہے گی‘ میرا مطلب تم سمجھ رہے ہو…؟ بڑی سے تم شادی کرلو اور چھوٹی… تم کہو تو تمہارے چچا سے میں بات کروں؟‘‘
مصطفی: ’’میں نے کبھی اس طرف سوچا ہی نہیں اور وہ لڑکی تو مجھ سے کافی چھوٹی ہوگی میں اس کا کفیل ہوں لیکن کبھی میں نے یہ سوچا بھی نہیں۔‘‘ (مصطفی نہایت شریف اور خواتین سے دور رہنے والا شخص تھا۔)
یاور نے مصطفی کو کسی نہ کسی طرح راضی کر لیا اس طرح تمام کنبے کی رضا مندی سے حاکم زادی کی شادی مصطفی سے ہوگئی۔ حاکم زادی نہایت شریف و نفیس اور خوب صورت دوشیزہ تھی۔ مصطفی نے گرچہ ایک چھت تلے اکٹھے رہنے کے باجود حاکم زادی پر ایک نظر نہیں ڈالی تھی لیکن شادی کے بعد وہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھنے لگا کہ اللہ نے اسے ایک نیک اور خوب سیرت زوج عطا کی ہے۔ حاکم زادی بیماری کے بعد سات آٹھ ماہ کے بچے کو اس دنیا میں چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملی۔ یہ ایک بڑا سانحہ تھا اس گھرانے کے لیے جس سے پورا کنبہ متاثر ہوا لیکن اللہ کی رضا کے آگے سب بے بس تھے‘ بچے کی دیکھ بھال کے لیے تو پورا ننھیال اس گھر میں موجود تھا لیکن حاکم زادی کی موت نے حاجی صاحب پر بڑا اثر کیا‘ پہلی بیوی بھی چند سال کی رفاقت کے بعد انہیں جدائی کا داغ دے گئی تھی‘ وہ بھی نہایت ذہین‘ خوب صورت و خوب سیرت‘ پڑھی لکھی‘ تعلیم و تدریس وابستہ خاتون تھی لیکن دوسری بیوی بھی اس کے لیے اللہ کی نعمت تھی لیکن اللہ کی مصلحت اللہ ہی جانے۔
اس ساری صورت حال کی وجہ سے اس کنبے نے حبیب کی شادی حاکم زادی کی چھوٹی بہن کنیز سے کر دی۔ حبیب کو میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر باد کرنا پڑا کیوں کہ باپ کا کاروبار اب حبیب کو سنبھالنا تھا جو کہ ان دو بیویوں کے انتقال کے بعد کافی افسردہ ہو گئے تھے‘ اپنا زیادہ وقت سیر و سیاحت اور عبادت میں گزارنے لگے۔ اس شادی سے مصطفی کے چھوٹے بیٹے کو گویا خالہ کی صورت میں ماں اور بھائی کی سرپرستی و محبت بھی مل گئی۔ حبیب اور کنیز نے اپنے بیٹے کی پیدائش کے بعد بھی آفتاب کو اسی پیار و محبت سے نوازا اور توجہ دی۔ آفتاب بھی اپنے باپ سے زیادہ ماں اور بھابھی (خالہ) سے زیادہ مانوس تھا جس کی وجہ سے آنے والے وقت میں اس نے اپنی بھابھی کے ساتھ اس کے دوسرے بچوں کی پرورش و دیکھ بھال میں بڑا ساتھ دیا کیوں کہ حبیب کا زیادہ وقت باپ کے ’’گرے ہوئے کاروبار‘‘ کو منظم و مستحکم کرنے میں لگ رہا تھا حبیب اور آفتاب دونوں کی مائوں کی یہ نیکی تھی کہ دونوں بھائی نیک صالح تھے گھر میں محبت و اتفاق تھا‘ کاروبار نے ترقی کی تو حبیب نے اپنے والد کی رضا سے چچا اور سسرال والوں کو الگ الگ مکان خرید کر دیے۔ آفتاب اپنی تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا گھر کے تمام بچے جو اس کے بھتیجے بھتیجیاں تھیں‘ انہیں یہی معلوم تھا کہ یہ ہمارے بڑے بھائی ہیں‘ سب امی سے اسی طرح محبت و احترام کا رویہ رکھتے جو اپنے بڑے بھائی سے رکھتے تھے اسی لیے گھر کے سارے بچے اسے چاچا نہیں بلکہ ’’ادا‘‘ کہتے۔
حاجی مصطفی نے بیٹے کو تعلیم سے فارغ پا کر اس کی شادی اپنی بھانجی سے کر دی سمجھو کہ اسے بھی آفتاب کی وجہ سے اس گھر کی بڑی بھابھی کا درجہ حاصل ہو گیا۔ حسینہ کو سب ہی بچے بھابھی ہی کہتے ہیں شادی کے وقت گھر کے چھوٹے بچوں کو پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ آفتاب ان کے بھائی نہیں بلکہ چچا ہیں۔ شادی کے ایک سال کے بعد آفتاب کی بیوی کے یہاں پہلے بچے کی ولادت ہوئی تو سارا آشیانہ مہک اٹھا یہ ننھا بچہ سب کی آنکھوں کا تارا تھا لیکن اللہ کی مرضی کہ اللہ نے دو سال کے بعد اس تحفے کو اپنے پاس بلا لیا۔ یہ وقت پورے کنبہ کو افسردہ کر گیا لیکن آفتاب اور اس کی بیوی نے نہایت تحمل و صبر سے اس دکھ کو سہا۔ اللہ نے کچھ عرصے بعد دوبارہ اولاد سے نوازا تو دکھ میں کمی آئی۔ بڑے بیٹے کے بعد تین بیٹیاں اور پھر بیٹا ماشاء للہ۔
پورا گھرانہ الحمدللہ مل جل کر محبت سے زندگی گزار رہے تھے۔ حبیب کے بچے بھی جوان ہو گئے ان کی شادیوں کا وقت بھی قریب آگیا۔
آفتاب قریشی کی اپنے کنبے کے ہر فرد سے بے لوث محبت تھی لیکن فیملی ممبر بڑھتے گئے۔ حبیب کے بڑے بیٹے کی شادی ہوگئی تو یہ 5 کمروں کا اپارٹمنٹ گھر کے مکینوں کے لیے چھوٹا پڑ گیا آفتاب کی ملازمت بہت اچھی تھی اس لیے بھائی‘ بھابھی اور والد کی اجازت سے اس نے نزدیکی علاقے میں نیا اپارٹمنٹ خرید لیا جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ شفٹ ہو گیا لیکن اس دوری اور فاصلوں نے ان کی آپس کی محبت کم نہیں کی بلکہ بڑھا دی۔
یہ دنیا ویسے ہی عارضی ٹھکانہ ہے‘ ہر انسان کو اپنی ابدی گھر کی طرف لوٹنا ہے مصطفی اور پھر حبیب کی بیوی کا بھی رضائے الٰہی سے انتقال ہو گیا۔ لیکن آفتاب کے لیے اس کے جواں سال بیٹے آفاق کی ناگہانی موت ایک بڑا سانحہ تھا۔ تھیلیسمیا کا شکار آفاق بظاہر ٹھیک ٹھاک تھا اپنی پڑھائی میں مشغول معمول کے مطابق زندگی گزار رہا تھا لیکن میرے رب کی مصلحت وہی جانے۔ اس غم نے آفتاب اور حسینہ کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا لیکن دونوں صبر و تحمل کے پیکر تھے‘ تینوں بچیوں کی اچھی جگہوں پر شادی ہوگئی تو کچھ غم ٹھنڈے پڑ گئے لیکن نہیں ابھی اور امتحان بھی باقی تھے‘ چھوٹا بیٹا جو جوانی کی دہلیز پار کر رہا تھا‘ تھیلیسمیا کا شکار ہو گیا۔ ابھی بڑے بیٹے کی موت نہیں بھلا پائے تھے کہ ایک نئی آزمائش نے دستک دی۔ آفتاب تو مرد تھا لیکن حسینہ ہمت ہار بیٹھی‘ تیسرے جواں سال بیٹے کی موت برداشت کرنے سے پہلے ہی اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئی۔ یکے بعد دیگرے یہ سانحات جس نے آفتاب کی کمر توڑ دی لیکن سبحان اللہ اس بندے کی زبان پر اللہ سے شکوہ کسی نے نہ سنا بلکہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے رب کی دوستی میں گزارنے لگا۔ وہ آفاق کی موت سے اندازہ لگا چکا تھا کہ تیسرا بیٹا بھی تھیلیسیمیا کی نذر ہو جائے گا لہٰذا حقوق اللہ اور حقوق العباد سے جڑ گیا۔ اللہ شاید نہیں بلکہ حقیقتاً اپنے نیک بنوں کو آزمائش کی بھٹی میں پکا پکا کر آخرت کی زندگی کے لیے کندن بنا دیتا ہے۔ آج آفتاب تیسرے جواں بیٹے کو بھی اپنے رب کے حوالے کرکے جی رہا ہے کہ یہی میرے رب کی رضا ہے۔
زندگی موت سب میرے رب کے اختیار میں ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ان دیے ہوئے رشتوں کے ساتھ محبت و الفت کے ناتے جڑے ہوئے ہیں۔ ان رشتوں کی ذرا سی تکلیف بھی انسان کو بے چین کر دیتی ہے لیکن آفتاب نے اپنے رب کی رضا کو مقدم جان کر ان قیمتی رشتوں کو خود اپنے ہاتھ سے قبر میں اتارا اور اپنا ناتا رب سے اور مضبوط کر لیا ہے۔ دعا ہے اللہ رب العزت میرے چچا کی صحت و تندرستی کے ساتھ عمردراز رکھے‘ آمین۔