سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بھتیجے سیدنا لوط علیہ السلام کو ’’ملک شام‘‘ کے صوبے ’’حمص‘‘ کے شہر ’’سدوم‘‘ کی طرف برائیوں سے روکنے کے لیے بھیجا۔ جہاں لوگ بقیہ تمام گناہوں کے ساتھ ایک ایسا بے حیائی کا کام کیا کرتے تھے جو قرآن کے مطابق آج سے پہلے کسی انسان نے نہیں کیا تھا۔
قرآن کے مطابق سیدنا لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے اس طرح وعظ فرمایا:
’’اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔‘‘
حضرت لوط علیہ السلام کے اس اصلاحی اور مصلحانہ وعظ کو سن کر ان کی قوم نے نہایت بے باکی اور انتہائی بے حیائی کے ساتھ کیا کہا؟
’’اور ان کی قوم کاجواب سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو بڑے پاک صاف رہنا چاہتے ہیں۔‘‘
لوط علیہ السلام کی امت جن بستیوں میں تھی وہ بہت ہری بھری سر سبز اور مال دولت سے بھری ہوئی تھیں ہر شے کی فراوانی تھی۔ لیکن جب اللہ نے ان پر عذاب بھیجا تو اس بستی کو الٹ کر رکھ دیا۔ آج وہ بستی بحر ِ مردار میں دفن ہے جس کا پانی اس گھنائونے فعل کی وجہ سے آج تک کڑوا ہے اور اس بستی کے آثار غوطہ خور دریافت بھی کر چکے ہیں۔ اس قوم کی داستان قرآن سے پہلے بھی آسمانی کتب میں آچکی ہے کہ اس پر جو عذاب ہوا وہ قرآن اور تفاسیر میں موجود ہے۔
جب قومِ لوط کی سرکشی اور بدفعلی قابل ہدایت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کو ہمراہ لے کر آسمان سے اتر پڑے۔ پھر یہ فرشتے مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور یہ سب فرشتے بہت ہی حسین اور خوب صورت لڑکوں کی شکل میں تھے۔ ان مہمانوں کے حسن و جمال کو دیکھ کر اور قوم کی بدکاری کا خیال کر کے حضرت لوط علیہ السلام بہت فکرمند ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا محاصرہ کر لیا اوردیوار پر چڑھنے لگے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے دل گرفتہ ہو کر بڑے ہی مخلصانہ انداز میں ان کو سمجھایا اور اس برے کام سے منع کیا روکنے کی بھرپور کوشش کی جیسا کہ ایک نبی کے شایان شان ہوتا ہے۔
مگر یہ سرکش قوم اپنے بے ہودہ جوابات اور گھناؤنے اقدامات سے سے ذرہ برابر باز نہ آئی۔ تو آپ اپنی بے بسی اور مہمانوں کے سامنے رسوائی سے دل برداشتہ ہوکر کبیدہ خاطر اور رنجیدہ ہو گئے۔ آپ کے رنج و الم کی یہ صورت حال دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’اے اللہ کے نبی آپ بالکل کوئی فکر نہ کریں۔ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے ان بدکاروں پر عذاب لے کر اترے ہیں۔ لہٰذا آپ ایمان والوں اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبردار کوئی شخص پیچھے مڑ کر اس بستی کی طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔‘‘
چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور اپنے صاحبِ ایمان رفقا کو ہمراہ لے کر اس بستی سے باہر نکل گئے۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اوپر جا کر ان بستیوں کو الٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر کر چکنا چور ہو کر بکھر گئیں۔ پھر کنکر کے پتھروں کا مینہ برسا اور اس زور سے سنگ باری ہو ئی کہ قومِ لوط کے تمام لوگ مر گئے اور ان کی لاشیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئیں۔ عین اس وقت جب کہ یہ شہر الٹ پلٹ ہو رہا تھا حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی‘ جو آپ کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی قوم کے ساتھ تھی‘ ان بدکاروں کا ساتھ دیتی تھی‘ اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور ’’ ہائے میری قوم!‘‘ کہہ کر کھڑی ہو گئی۔
پھر عذابِ الٰہی کا ایک پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ بھی ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اُس کی عورت‘ وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے اُن پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا۔ جو پتھر اس قوم پر برسائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے۔ اور ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔‘‘
اللہ اور اس کے رسول کے جانثار بھائیو! اور بہنو! آج اپنی اسمبلیوں میں دیکھیں کہ کوئی ایسے گھناؤنے اور اللہ کے عذاب کے مستحق قانون کو پاس کروانے پر بضد ہے اور اس کے حق میں تقریریں کر رہا ہے تو سمجھ لیں اس کے تانے بانے اُسی بد بخت قوم سے ملتے ہیں اور جو لوگ اسمبلی میں جیسا کہ جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد اور ہر ابلاغی فورم پر ان گمراہوں اور بد عنوانوں کے سامنے ڈٹ گئے ہیں سمجھ لیں کہ الحمدللہ یہ انبیا کے وارثین ہیں۔
اگر آج ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں نہ ہوتیں تو ہم قرآن کریم کی اس انتباہ کو نہ سمجھتے۔ اس لیے اس کو بہت بڑی انتباہ سمجھ لیں۔ اللہ تعالیٰ کے مزید غضب کو آواز نہ دیں۔ ان سیاسی مکاروں اور بازی گروں کی باتوں میں نہ آئیں‘ ان کے خلاف مؤثر آواز بلند کریں‘ محض تماش بین بن کر نہ رہیں۔ اللہ نے جو بھی طاقت دی ہے اس کا استعمال کرنے سے ہرگز گریز نہ کریں۔