آج کا پاکستان

202

ویسے تو ہر سال ہی ستمبر کا مہینہ آتا ہے، لیکن اِس مرتبہ ہمارے ملک میں ستمبر کچھ نئے انداز میں آیا یا یوں کہیے کہ ہم نے خود اسے ستمگر بنا دیا۔ ایک طرف سیلاب زدہ علاقوں میں ہزاروں خاندان کھلے آسمان تلے حکمرانوں کی بے حسی کا شکار ہیں تو دوسری جانب حکمرانی سے فارغ ہونے والے نوحہ خوانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں ستمبر کو ’’ستمگر‘‘ نہ کہا جائے تو اور کیا کہیں۔
اس قدر نازک صورت حال میں جب کہ ملک کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے‘ بیشتر علاقوں پرسیلابی پانی کا راج ہے‘ ہمارے سیاست دان اپنی اَنا کے خول سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ کسی کی پیش گوئی ہے کہ موجودہ حکومت اسی ماہ گھر چلی جائے گی، کوئی انتخابات ہونے کی تو کوئی ان کے التوا کی افواہیں پھیلانے میں مصروف ہے، کوئی ستمبر کے آخری دو ہفتے سیاسی طور پر ’’انتہائی اہم‘‘ بتا رہا ہے، تو کسی کو ملک میں نئے سیاسی و انتظامی سیٹ اَپ کی نوید سنائی دے رہی ہے۔ میرا مطلب ہے کہ کوئی نگراں حکومت کی آس لگائے بیٹھا ہے۔ اور تو اور چور دروازے سے حکومت میں آنے والے بھی اپنی شیروانیاں تیار کیے بیٹھے ہیں کہ ان کے نزدیک اسی ماہ یعنی ستمبر میں ہی ضرور کوئیک مارچ ہو جائے گا۔ اگر دیکھا جائے تو ستمبر آنے سے قبل ہی ملک کا سیاسی عدم استحکام بتا رہا تھا کہ یہ مہینہ ضرور کوئی نہ کوئی گل کھلائے گا۔
جو بھی ہو اس سیاسی چال بازی سے ہمیں کیا لینا دینا! ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ ہمارے گھر ستمبر مختلف انداز میں آیا۔ کل رات میری بیٹی رِدا مجھ سے کہنے لگی ’’پاپا! اِس مرتبہ کالج میں 6 ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے شہداء اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کرنے اور گیارہ ستمبر قائد اعظم کی وفات کی مناسبت سے پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔ پروگرام کے تقریری مقابلے کا عنوان ’’آج کا پاکستان‘‘ ہے، میں نے اس سلسلے میں جو تقریر لکھی ہے، آپ ذرا سن لیں۔‘‘
میں نے بیٹی کی بات سن کر کہا ’’ہاں… ہاں ضرور! کیوں نہیں‘ سناؤ کیا لکھا ہے۔‘‘ میری توجہ کو بھانپتے ہوئے اس نے فوراً اپنی کاپی کے اوراق الٹنے شروع کر دیے اور جو کچھ بھی لکھا تھا یوں سنانے لگی:
’’ میرے عزیز ہم وطنو!‘‘
میں نے فوراً ہی روکتے ہوئے کہا ’’عزیز ہم وطنو کو ہٹا دو،یہ اچھا شگون نہیں… کچھ اور کہو۔‘‘
بولی ’’بھائیو، بہنو، اور ساتھیو!‘‘
میں نے کہا ’’بیٹا! لیڈر نہ بنو، طالب علم بنو، صدرِ مجلس سے مخاطب ہوکر سنائو۔‘‘
میرے بار بار ٹوکنے پر تلملاتے ہوئے کہنے لگی ’’جو لکھا ہے وہ سن لیں: آج ہمارا وطن دو حصوں میں بٹا نظر آتا ہے۔ ایک وہ جو اس ملک کی دس فیصد اشرافیہ پر مشتمل ہے، جہاں انہیں ہر طرح کے حقوق، ریاستی تحفظ اور زندگی کی تمام آسائشیں میسر ہیں،جہاں مال داروں کی الگ کلاس ہے، وہ جب اور جہاں سے چاہیں مفادات حاصل کرتے رہیں۔ اپنا ملک تو ایک طرف، لوٹی ہوئی دولت کے بل پر ساری دنیا میں جائدادیں بنانے اور غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کے باوجود پاکستان کے رہنما اور خیر خواہ ٹھیریں، جہاں ان سے پوچھنا تو درکنار کوئی آواز تک نہ اٹھے۔ ساری زندگی خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے اپنی باری کے لالچ میں پاکستان سے محبت اور دل میں عوام کا درد لیے واپس آکر عوام پر مسلط ہوجائیں۔ جن کی اولادوں کو نہ صرف اْن کے پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی سہولیات میسر ہوں بلکہ دنیاکے جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں قائم تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بھی پورے مواقع ہوں۔ علاج معالجے کی غرض سے جہاں کے مکینوں کے لیے جدید اسپتالوں کا انتخاب کیا جائے‘ جن کے پروٹوکول کی گاڑیاں پیدل چلنے والوں کو کچلتی پھریں اور قاتل معصوموں کی جان لے کر دولت کے نشے میں بدمست وکٹری کے نشان بنا کر قانون کی ہنسی اڑاتے رہیں!
میرے ساتھیو! دوسرا وہ پاکستان ہے جس کے 90 فیصد عوام گزشتہ سات دہائیوں سے مشکلات کی چکی میں پس رہے ہیں‘ جہاں کے بی کلاس عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ بدامنی، دہشت گردی، بے روزگاری جن کا مقدر ہو‘ جہاں صحت و تعلیم کی سہولیات تو کجا پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگوں کو اپنے گردے تک فروخت کرنے پڑتے ہوں‘ جہاں کچرا اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں لوگوں کا نصیب بنا دی جائیں‘ جہاں کی گلیاں سیوریج کے پانی کی وجہ سے نالوں کا منظر پیش کرتی ہوں‘ جہاں بجلی برائے نام آتی ہو‘ جس کے نااہل اور خود مسائل زدہ ادارے مسیحائی کے دعوے دار ہوں‘ جہاں دورانِ سروس انتقال کر جانے والوں کی بیوائوں کو اپنے حق کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہوں‘ جہاں افسر شاہی لوگوں کی مجبوریوں سے فائدے اٹھاتی ہو۔ شاید یہی وہ پاکستان ہے جہاں مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ غریب عوام اور حکومت کے درمیان نہ صرف بد اعتمادی کی فضا موجود ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم یہی کچھ ستر سال سے ہوتا دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔
میرے ساتھیو! بہت ہوچکا اس ملک کے ساتھ۔ سنو، اب وقت آگیا ہے کہ اس خلیج کو ختم کیا جائے اور محض اشرافیہ کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کے 90 فیصد عوام کو ملکی وسائل میں شراکت و ملکیت کا حامل قرار دیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جہاں عوام کے بنیادی آدرش ادھورے رہیں، اپنے مستقبل سے محروم ہوجاتی ہیں۔ یہ المیہ تباہی اور شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔ موجودہ مسائل کے تناظر میں ہمارے لیے اہم ترین اقدام قومی سطح پر ایک ایسے عملی بیانیے کی تشکیل و تعمیل ہے جو ہمیں قیام پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ کردے۔ صرف عملی اقدامات کے ذریعے ہی ہم اُن اہداف کا حصول یقینی بنا سکتے ہیں جو قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران بانیانِ پاکستان کے پیش نظر تھے۔ آج دہشت گردی، انتہاپسندی، علاقائیت، طبقاتی تفریق اور فرقہ وارانہ اندازِ فکر ہمیں تصورِ پاکستان سے دور لے جا رہا ہے۔ یہ سارے مسائل اس لیے پیدا ہوئے کہ ہم نے اُس قومی اندازِ فکر کو جس میں انسانی اقدار اور قومی بہبود شامل ہے، کبھی اہمیت نہیں دی، جس کے سبب ہم قومی سطح پر فکری کم مائیگی اور اس قومی افلاس کا شکار ہیں جو ہماری سالمیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کوئی بھی ایسا ویژن جس میں واضح قومی اہداف کے حصول کا یقینی اور مؤثر لائحہ عمل موجود نہ ہو، اور جو جدوجہد سے خالی ہو، کبھی بھی زوال پذیری کے اثرات کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ عوام کا اپنے قومی وجود پر اعتماد اسی صورت بحال ہوسکتا ہے جب انہیں اس کا یقین ہو کہ ریاست ان کے مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کی سکت رکھتی ہے۔ یہاں سب کے لیے برابر کے مواقع موجود ہیں اور کسی قسم کی طبقاتی تفریق نہیں اور قانون کا منصفانہ نفاذ انہیں ہر طرح کے ظلم و زیادتی سے تحفظ فراہم کررہا ہے۔ اس سے ہی معاشرے میں عوام کا فعال اور ذمہ دارانہ کردار بحال ہوتا ہے۔ ایک جمہوری اور پُرامن معاشرے کا قیام جہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو بھی ہر طرح کی مذہبی آزادی اور مکمل تحفظ حاصل ہو، ہماری منزل ہے۔
عوامی خدمات ہر میدان میں چاہے وہ تعلیم ہو، صحت ہو یا گورننس، بجلی اور صاف پانی کی فراہمی، مقامی حکومتوں کا قیام یا جو بھی شعبۂ زندگی ہو‘ اُن سب میں بنیادی محرک عوام کی خدمت کا جذبہ ہی ہے۔ اس جذبۂ خدمت کی اساس قائداعظم کا وہ فرمان ہے جو 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے ان کے تاریخی خطبے کا حصہ ہے۔ قائداعظم نے فرمایا:
’’اگر ہم پاکستان کو عظیم ریاست اور خوش حال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں عوام خصوصاً غریب لوگوں کی بہبود اور فلاح پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ آپ میں سے ہر ایک بلا تفریق رنگ، ذات، نسل یا طبقاتی تقسیم کے اس ملک کا برابر حقوق و فرائض رکھنے والا شہری ہے‘‘۔
بابائے قوم کے فرمان کی روشنی میں آیئے ہم یہ عزم کریں کہ پاکستان سے نفرتوں، اقربا پروری اور طبقاتی تفریق کو اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ جڑ سے اکھاڑ پھینکیں تاکہ ہمارے اجداد کا وہ خواب‘ جس کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا‘ حقیقت کا روپ دھار سکے۔
ملک سے محبت کی خاطر جو بھی میرے دل میں تھا کہہ ڈالا۔ مجھے یقین ہے کہ اربابِ اختیار میری گزارشات پر ضرور دھیان دیں گے۔ میں یہ بھی امید رکھتی ہوں کہ میری آواز ہر اُس پاکستانی کی آواز بنے گی جسے دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور وہ وقت ضرور آئے گا جب غریبوں اور مظلوموں کی آہوں سے اٹھنے والے انقلاب سے سرمایہ دارانہ نظام زمین بوس ہوجائے گا۔ وہی دن حقیقی آزادی کا ہوگا۔ آخر میں اپنی بات سمیٹتے ہوئے 1965 سمیت ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے‘ آمین۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ پاکستان زندہ باد۔‘‘
مجھے اپنی بیٹی رِدا کی زوردار تقریر نے حیرت زدہ کردیا۔ اِس کی تحریر اتنی جان دار تھی کہ میرے نزدیک اس میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ میں خاصی دیر اُس کے چہرے کی جانب دیکھتا رہا، نہ جانے کون سی کتابیں یا اخبارات پڑھ کر لکھی جانے والی یہ ایک مکمل تقریر تھی۔ یہ میرا ذاتی خیال تھا، لیکن اُس کے جذباتی لب و لہجے سے صاف ظاہر تھا کہ واقعی تقریر اس کی شب و روز کی محنت کا نتیجہ ہے۔ مجھے بہت خوشی ہورہی تھی خاص کر اُس کی ملک سے محبت کو دیکھ کر میں پھولے نہیں سما رہا تھا۔
سہمی سہمی اور خاموش طبیعت رکھنے والی رِدا کا یہ انداز میرے لیے حیران کن تھا۔ مجھے اُس کے اندر اُس پاکستانی کی جھلک دکھائی دے رہی تھی جس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اْس کی تقریر سن کر حوصلہ افزائی کی غرض سے میں نے اُسے پانچ سو روپے کا انعام دیتے ہوئے کامیابی کی دعائوں کے ساتھ اپنا یہ شعراس کی نذرکیا:
علم و ہنر کی دولت سے تم اونچی اپنی شان کرو
علم کی شمع روشن کر کے روشن پاکستان کرو

حصہ