میر تقی میر
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
چشمِ دل کھول اس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
نقطۂ خال سے ترا ابرو
بیت اک انتخاب کی سی ہے
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
آتشِ غم میں دل بھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
دیکھیے ابر کی طرح اب کے
میری چشمِ پر آب کی سی ہے
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
مرزا اسداللہ خاں غالب
آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک
دامِ ہر موج میں ہے، حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں، کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں، خونِ جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم، تجھ کو خبر ہونے تک
پرتوِ خُور سے، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ، ایک عنایت کی نظر ہونے تک
یک نظر بیش نہیں، فُرصتِ ہستی غافل
گرمئِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک
غمِ ہستی کا ، اسدؔ کس سے ہو جُز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
خواجہ میر درد
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
دل ہی نہیں رہا ہے کہ کچھ آرزو کریں
مٹ جائیں ایک آن میں کثرت نمائیاں
ہم آئنے کے سامنے جب آ کے ہو کریں
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں !
ہر چند آئنہ ہوں پر اتنا ہوں ناقبول
منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے رو بہ رو کریں
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ہوسِ رنگ و بو کریں
ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدان شہر
اے دردؔ آ کے بیعتِ دستِ سبو کریں
آتش
یہ آرزو تھی، تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے
پیام بر نہ میّسر ہوا، تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
جو دیکھتے تری زنجیرِ زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
مومن
ناوک انداز جدھر دیدہء جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بےجاں ہوں گے
تابِ نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے
منتِ حضرتِ عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لیے شرمندئہ احساں ہوں گے؟
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں وہی خارِ مغیلاں ہوں گے
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
حالی
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھّی ہے آج لذتِ زخم جگر کہاں
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں
بہار شاہ ظفر
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفِل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دِل کبھی ایسی تو نہ تھی
تیری آنکھوں نے خدا جانے کِیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائِل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکسِ رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہِ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفر سے ہر بار
خُو تری حُورِ شمائِل کبھی ایسی تو نہ تھی
امیر مینائی
جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
ہے جوانی خود جوانی کا سنگار
سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہے ایک کمسن کے لیے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ مئوذن کے لیے
حسرتؔ موہانی
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں