ڈینگی بخار کا نام سنتے ہی جسم میں لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں جس انداز سے اس مرض کی تشہیر اور خوف دلوں پر مسلط کیا گیا ہے اس کی وجہ سے ایک وحشت اور خوف ہر انسان کو خائف کر رہا ہے۔ جس طرح کسی میچ کی کمنٹری ہر لمحے سنسی پیدا کرتی ہے، اُسی طرح ہمارے میڈیا نے ہر طبعی موت سے مرنے والے کو بھی ڈینگی کا شکار قرار دے کر عوام کو باور کرایا ہے کہ یہ ’’ڈینگی طوفان‘‘ سارے نظام کو لے ڈوبے گا۔
ستم یہ ہے کہ قومی اخبارات میں آگاہی کے نام پر جو اشتہاری مہم چلائی گئی ہے اس پر لاکھوں روپے کے بے جا اخراجات سے عوام کو ڈینگی سے بچانے میں کیا مثبت کردار ادا ہو رہا ہے؟ ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے کہ ہم ٹی وی اور اخبارات کے اشتہارات کے ذریعے ڈیم بناتے ہیں، ایڈز کا خاتمہ کرتے ہیں، ہیپا ٹائٹس کے خلاف جنگ لڑتے ہیں اور کبھی غور نہیں کرتے کہ یہ کروڑوں روپے جو اشتہارات کے نام پر لٹائے جاتے ہیں، وہ اصل مقصد پر خرچ کیے جائیں تو مفید نتائج حاصل ہوں۔ڈینگی بخار جسے ’ڈینگو‘ اور چینی زبان میں ’ڈینگا‘ کہا جاتا ہے، ملیریا بخار کی ایک قسم ہے، جس کا شکار آج کے دور کا انسان ہی نہیں بلکہ قدیم دور کا انسان بھی رہا ہے۔ طبی تاریخ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سب سے پہلے 1765ء میں امریکا میں اس بخار میں مبتلا مریض دیکھے گئے۔ 1780ء میں پہلا معالج Rush وہ شخص تھا جس نے مربوط انداز میں اس مرض کے بارے میں آگاہی دی۔
بیسویں صدی کے اوائل میں Principle and Practice of Homeopathyکے مصنف Richard Hughrasنے اس مرض کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ اس مرض کا وائرس Flavi کہلاتا ہے۔ یہ وائرس ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے۔
ڈینگی بخار جسے Bone Breaking Fever(ہڈی توڑ بخار) بھی کہا جاتا ہے، جو ایک مادہ مچھر کے کاٹنے سے منتقل ہونے والے وائرس سے پیدا ہوتا ہے، جو بعض محققین کے مطابق 3 سے 15 دن تک رہتا ہے، اور بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ مدت 5 سے 6 دن پر محیط ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی وبائی مرض اْس وقت تک مریض پر اثرانداز نہیں ہوتا جب تک اس میں قوتِ مدافعت موجود ہو۔ قوتِ مدافعت کم ہو تو مرض کے قبول کرنے کی استعداد موجود ہوتی ہے۔
مرض کا سبب واضح ہونے کے بعد یہ تجزیہ کیا جائے کہ اس مرض کا حملہ کن علاقوں میں ہوتا ہے۔ عموماً یہ مرض مقامی ہوتا ہے، تاہم جب مقامی سطح پر کنٹرول نہ پایا جاسکے تو وبائی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔ اگرچہ نظریاتی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مچھر صاف پانی میں پروان چڑھتا ہے، شاید اسی لیے قبرستانوں میں پرندوں کے لیے لگائے گئے پیالے توڑ دیے گئے، مگر عملاً وسیع لانوں پر مشتمل کوٹھیوں میں جہاں مصنوعی فوارے اور آبشاریں گرتی ہیں، امرا کے محل ہیں، وہاں یہ بیماری نہیں۔ آج بھی غربا کے تنگ مکانوں اور گندگی سے اَٹے علاقوں میں اس مرض کا حملہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں اسپتالوں میں آنے والے مریض صاف ستھرے پانی کے علاقوں سے نہیں بلکہ گندے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ میڈیا لوگوں میں آگاہی اور امراض سے مقابلے کے بجائے امراض کا خوف مسلط کرنے کی ’’خدمت‘‘ انجام دے رہا ہے۔ کبھی ایڈز، کبھی ہیپاٹائٹس اور اب ڈینگی کا خوف مسلط کردیا گیاہے۔ لوگوں کو مرض کے مقابلے کے لیے حفاظتی ذرائع یا علاج کی طرف توجہ دلانا مقصدِ اولیٰ ہونا چاہیے۔
مرض کے علاقے:۔
کرۂ ارض کے استوائی یا زیر استوائی علاقے کے ممالک ہندوستان، پاکستان، جاپان، سری لنکا اور ساحلِ سمندر کے قریبی علاقوں کے لوگ اس مرض میں جلد مبتلا ہوتے ہیں۔
مرض کی علامات:
اس مرض کا دورانیہ عموماً سات روز ہے۔ اگر اس دوران توجہ سے بروقت علاج ہو تو مریض کی صحت یابی اور بحالی کے 90 فیصد امکانات ہیں، لیکن علاج پر توجہ نہ دی جائے تو یہ مرض مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ عموماً آغاز میں یکایک بخار کا حملہ ہوتا ہے۔ مریض جس کرب میں مبتلا ہوتا ہے اس کو ہم چند نکات میں اس طرح بیان کرسکتے ہیں:
شدید سردرد، آنکھوں میں جلن اور درد کا احساس، نزلے کی کیفیت، حلق میں سوزش اور جلن، ہڈیوں میں شدید درد، گردن اور کمر کے پٹھوں میں درد، پیاس کی شدت، بھوک کی کمی، جسم کا نڈھال ہوجانا، سانس میں دشواری اور دقت۔
اس مرض کا دورانیہ دو مرحلوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں مذکورہ علامات کے ساتھ ساتھ شدت کا بخار جو عموماً 106 سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور مریض محسوس کرتا ہے کہ اس کی ہڈیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ یہ دورانیہ عموماً 3 سے 5 دن تک محیط ہے۔
پانچویں دن مریض سمجھتا ہے کہ بخار کم ہوگیا ہے اور مرض کا اختتام ہوگیا ہے، لیکن یکایک دوبارہ بخار کا شدید حملہ ہوجاتا ہے۔ دوسری اسٹیج پہلی سے زیادہ تکلیف دہ، اذیت ناک اور اگر علاج میں غفلت کی جائے تو مہلک ہے۔ اسے اصطلاح میں ڈینگی ہیمرجک فیور(D.H.F) کہا جاتا ہے۔ اس حالت میں مریض کے پیٹ اور آنتوں میں شدید درد ہوتا ہے اور جریانِ خون کی وجہ سے جسے ہیمرجک فیور کہا جاتا ہے، خون نکسیر کی صورت میں آسکتا ہے، پاخانہ یا قے کے ذریعے آسکتا ہے، مسوڑھوں کے ذریعے آسکتا ہے۔ مریض کے جسم پر خسرہ کی طرح سرخ دانے یا چٹاخ ظاہر ہوتے ہیں۔ مریض کراہتا ہے، رنگت پیلی ہونا شروع ہو جاتی ہے، بعض اوقات غنودگی اور جسم ٹھنڈا ہو کر بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے، اس Complication میں کبھی سوزشِ خصیہ اور ورمِ خصیہ کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔
طریقہ تشخیص
اگرچہ مذکورہ علامات بجائے خود تشخیصِ مرض کے لیے کافی ہیں، تاہم جدید سائنسی تحقیقات سے رہنمائی لینا کوئی جرم نہیں۔ اس مرض میں کلینکل ٹیسٹ فوری رہنمائی دیتا ہے۔ مرض میں خون کے سرخ ذرے R.B.C کثرت سے ٹوٹ جاتے ہیں، سفید ذرات کم ہوجاتے ہیں، ہڈیوں کا درد Bone Marrowمیں سفید ذروں کی کمی کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے، T.L.C (Total Lecoucyte Count)کم ہوجاتا ہے، Platelets کی تعداد 15لاکھ سے کم ہوکر 90 یا 95 ہزار تک رہ جاتی ہے۔
یہ سوال کہ ملیریا، ٹائیفائیڈ اور ڈینگی بخار میں امتیاز کیسے ہوگا؟ ایک طویل علمی بحث کا متقاضی ہے۔ ایک ماہر معالج جو روزانہ ان امتحانات سے گزرتا ہے، وہ ظاہری علامات اور لیبارٹریز کی رپورٹ کی روشنی میں باآسانی علاماتِ فارقہ کا اندازہ کرسکتا ہے۔
حفاظتی تدابیر:
علاج اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے، اس طرح حفاظتی تدابیر علاج سے زیادہ اہم ہیں۔
ہمارا میڈیا جس انداز سے وبائی امراض کی تشہیر اور خبریں دیتا ہے، وہ قوم میں جذبہ و حوصلہ پیدا کرنے کے بجائے خوف و ہراس پیدا کرنے میں زیادہ معاون ہیں۔ پہلے ایڈز کے بارے میں وہ پروپیگنڈا ہوا کہ الامان الحفیظ۔ پھر ہیپاٹائٹس کے بارے میں یہ انداز اختیار کیا گیا کہ حکمرانوں کو چھوڑ کر پوری قوم اس کا شکار نظر آئی۔ برڈ فلو اور سوائن فلو کا وہ رنگ باندھا کہ مسافر ہوائی اڈوں پر رسوا ہوگئے۔ پولیو ڈراپس حجاج اور عمرہ والوں کے لیے ائرپورٹ پر اہلکاروں کی ’’آمدنی‘‘ کا ذریعہ بن گئے۔ اب ڈینگی بخار کا دور آیا تو پوری قوم ’’ڈنگ زدہ‘‘ محسوس ہوئی۔
اس مرض کا سبب بلاشبہ ملیریا کے مچھر کی طرح ایک مچھر بلکہ مادہ مچھر ہے، لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہ ظالم مچھر دیکھنے میں خوب صورت، چلنے میں خراماں خراماں اور عادات و اطوار کے اعتبار سے ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے:۔
مچھر سے سیکھے کوئی شیوۂ مردانگی
جو وار پہ آئے تو پہلے پکار دے
یہ مچھر دیگر مچھروں کی طرح ’’مچھرتا‘‘ نہیں، بلکہ بڑی خاموشی، دھیمے اور شریفانہ انداز سے وار کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ مچھر صبح دم اور شام کے ملگجے میں اپنا وار کرتا ہے۔ مچھر کی عام نسل گندے پانی اور جوہڑوں میں پروان چڑھتی ہے، اس کے برعکس یہ مچھر امرا کی کوٹھیوں کے سبزہ زاروں، فواروں، خوب صورت گملوں، پینے کے صاف پانی، بلوری برتنوں، صراحیوں، ان کی چمکتی کاروں کے غسل کدوں، پنکچر لگانے والی دکانوں، کوریا، جاپان اور دیگر ممالک سے درآمد کیے جانے والے ٹائروں، کمروں کو ٹھنڈا کرنے والے ائر کنڈیشنڈ سے ٹپکنے والے پانی میں بسیرا کرتا ہے، انڈے دیتا ہے اور امرا کے پینے والے جوس، کولڈ ڈرنکس کے ڈبوں اور بوتلوں میں فروکش ہوتا ہے۔
احتیاطی تدابیر میں کہا جاتا ہے کہ طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ گویا کہ سیر کے اوقات اس مادہ مچھر کے حملے کے اوقات ہیں۔ کیا کہنے اس غارت گر ڈینگی کے۔ امرا اپنے عشرت کدوں میں، اپنے باغات، اپنے ابلتے فواروں، گرتے آبشاروں سے لطف اندوز نہ ہوں۔ کوٹھیوں اور مکانات میں جدید اینمل اور روغن کی خوشبو اس مچھر کی مرغوب طبع اور پسندیدہ ہے۔
ایک اور احتیاط جس کی ہدایت کی جاتی ہے، کہ یہ مچھر ننگے بازوئوں، ننگے پائوں اور ننگی پنڈلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ایک چٹکی ہی تو ہے جو یہ نازک ہونٹوں سے نازک اندام بازوئوں پر کاٹتا ہے۔ جب سے پاکستان بھر میں گزشتہ چند ہفتوں سے اس کا حملہ ہوا ہے، ٹی وی کے ذریعے یہ ہدایت بھی دی گئی کہ پورے بازو کی قمیص اور ٹخنوں کے نیچے تک شلوار پہنی جائے۔ڈینگی کے خلاف ائرکنڈیشنڈ کمروں میں سیمینار اور مخلوط واک امراض کو نہیں روک سکتے۔ یہ عمل تو حکومتی سطح پر تسلسل سے جاری رہے تو امراض کا خاتمہ ممکن ہے۔
علاج:
ایلوپیتھی کے جدید علاج سے اسپتالوں میں ہزاروں مریضوں کو Secure کرنے کا تجربہ جاری ہے۔ قدیم طب کا دامن اس کے علاج سے خالی نہیں۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ پپیتے کے پتوں کا پانی پلیٹ لیٹس میں اضافہ کرتا ہے تو پپیتے کے پودے ٹنڈمنڈ ہوگئے۔ ہومیو پیتھی میں Bone Setting Herbsاور طب یونانی میں Plant Sweating کے طور پر سنبلو کا قہوہ (پسینہ آور) دوا کے طور پر مفید ہے۔
تازہ مٹھے (جو ان دنوں دستیاب ہیں) کا رس، لیموں اور سیب کا پانی جدید سائنس کے نقطہ نظر سے بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں۔ مٹھے کی قیمت، لیموں کی گرانی اور سیب کی قیمت مریض کا منہ کڑوا کردیتی ہے۔
اجوائن 6 ماشہ اور تازہ گلو کا خیساندہ 2 تولہ اس مرض کا بے حد مفید علاج ہے۔
آملہ خشک (آج کل تازہ میسر ہے)، زرشک شیریں کا زلال بے حد مفید ہے۔ جوارش انارین پلیٹ لیٹس بڑھانے اور R.B.C کے تحفظ کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے۔
تلسی کے پتوں کا پانی بھی مفید ہے۔ ڈینگی بخار میں سوچے سمجھے بغیر ہر بخار کی طرح اسپرین یا پیرا سیٹامول انتہائی نقصان دہ ہے۔
قدیم طب میں کاسنی (عرقِ کاسنی)، اَلسی کا قہوہ، افسنتین، کرنجوہ، نیم کے پتوں کو بھگو کر پلانا، ست گلو (اگر خالص مل جائے)، طباشیر خالص ہر قسم کے بخار میں مجرب اور صدیوں سے مستعمل ہیں۔