حلقۂ احبابِ ادب ملیر کا مشاعرہ

206

حلقۂ احبابِ ادب ملیر نے یوم آزادی پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا۔ عباس زیدی نے صدارت کی۔ کینیڈا سے آئے ہوئے معروف شاعر فیصل عظیم مہمان خصوصی تھے جب کہ سحر تاب رومانی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ رانا خالد محمود کی رہائش گاہ پر ہونے والے اس مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ راقم الحروف نثار احمد‘ کاشف حسین غائر‘ کامران نفیس‘ ڈاکٹر سلمان ثروت‘ علی زبیر‘ رانا خالد محمود‘ کشور عدیل جعفری اور کامران صدیقی نے کلام پیش کیے۔ مشاعرے کے پہلے دور میں عباس رضوی نے کہا کہ شاعری کا پیمانہ علم عروس ہے لیکن اس کا سیکھنا مشل کام ہے دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ عروس نہیں جانتے وہ بھی اشعار کہہ رہے ہیں اس کا ماخذ کیا ہے‘ بات یہ ہے کہ شاعری ودیعت الٰہی ہے نئے نئے مضامین غیب سے شاعر کے دماغ میں آتے ہیں جس کو ہم ’’آمد‘‘ کہتے ہیں۔ جو بھی شاعر زمینی حقائق کا ادراک رکھتا ہے اس کا اظہار بھی کرتا ہے تو اس کی شاعری زندہ رہتی ہے۔ ڈاکٹر سلمان ثروت نے کہا کہ فلسفے کا ماخذ سیاست ہے لیکن سیاست اپنے راستے الگ کرتی ہے تو فلسفہ بھی سیاست سے جدا ہو جاتا ہے ہمارے پاس غزل بھی دوسرے ملک سے آئی ہے لیکن اب غزل میں جدید مضامین شامل ہیں اس کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ رانا خالد محمود نے کہا کہ زبان و ثقافت سے قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔

حصہ