سورۃ فاطر کی آیت 29 پر آکر میں رک گئی جس کا ترجمہ ہے ’’اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں‘ وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیںجو کبھی خسارہ میں نہ ہوگی۔‘‘ سبحان اللہ۔
بے شک میرے رب نے صحیح فرمایا یہ تو وہ تجارت ہے جو اپنے رب کے ساتھ ہے‘ جس کا اجر کمائی دنیامیں بھی بندہ حاصل کرتا ہے اور آخرت میں بھی اس تجارت سے فائدہ اٹھائے گا اور کبھی اسے خسارہ نہ ہوگا۔
میں چند دہائیاں پیچھے چلی گئی۔ مجھے اپنی ایک عزیزہ یاد آگئی۔
…٭…
حاجرہ کا تعلق خوش حال گھرانے سے تھا لیکن قسمت کے کھیل کہ شادی کے بعد اسے معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا۔ دو وقت کی روٹی اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ (وہ بھی بڑی تنگ دستی کے ساتھ) لیکن اس اللہ کی بندی میں ایک خوبی تھی کہ صبر و شکر اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا‘ چاہے ایک روپیہ ہی سہی لیکن وہ اپنا ہاتھ نہیں روکتی۔ اکثر و بیشتر اس کا شوہر اس کی اس عادت پر جھنجھلا جاتا اور غصہ کرتا۔
…٭…
حاجرہ کا شوہر: ’’زکوٰۃ‘ خیرات… اپنے پاس کھانے کے لیے نہیں اور تم… یہ سب کیا ہے؟ لوگ بڑے بڑے محلوں میں عیش کر رہے ہیں وہ بھی زکوٰۃ نہیں دے رہے اور تم بے وقوف…‘‘
حاجرہ (اطمینان سے مسکرا کر): ’’میرا یہ سب سودا تجارت تو میرے رب کے ساتھ ہے‘ مجھے لوگوں سے کیا لینا دینا۔‘‘
حاجرہ کا شوہر (غصے سے): تو اٹھا کر یہ مکان بھی کسی کو دے دو… کبھی اُسے دو وہ ضرورت مند ہے‘ کبھی کوئی مانگنے والا آجاتا ہے اب تو لوگ تمہیں بے وقوف سمجھ کر تمہارے پاس آجاتے ہیں۔‘‘
’’حاجرہ: ’’میں لوگوںکے دلوں کا بھید تو نہیں جانتی لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ یہ بھی اللہ کی مجھ پر مہربانی ہے کہ وہ اپنے ضرورت مند بندے کو مجھ تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘
حاجرہ کی پوری کوشش ہوتی کہ شوہر کو بھی قائل کرے کہ اللہ کے لیے (جس نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے) کچھ مال میں سے نکال کر دینے میں برکت و کشادگی ہی ہے اور مال بھی وہ جو اسی نے دیا ہے۔
اللہ مسبب الاسباب ہے روزی کے دروازے کھول ہی دیتا ہے۔ حاجرہ کے ساتھ بھی یہی ہوا شوہر کی چھوٹی موٹی ملازمت تو تھی ہی‘ اسے بھی ایک تعلیمی ادارے میں ملازمت مل گئی جس کی وجہ سے آمدنی میں کچھ اضافہ ہوا تو اس نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے مناسب بندوبست کیا۔ پہلے کی نسبت گزر بسر کچھ بہتر ہو گئی تو اس کے دینے والے ہاتھ میں بھی برکت ہو گئی۔ شوہر اپنی عادت کے مطابق اسے روکنے کی کوشش کرتا رہتا لیکن وہ ہنس کر شوہر کی بات درگزر کر دیتی۔ بعض اوقات شوہر کا اچھا موڈ دیکھ کر کوئی حدیث وغیرہ جو زکوٰۃ‘ خیرات و صدقات کے بارے میں ہوتی‘ وہ اس کے سامنے بیان کر دیتی۔
اچانک بھی کوئی مہمان آجاتا تو جو کچھ گھر میں کھانے کو ہوتا اس کے سامنے پیش کر دیتی بے شک میرا رب بڑا مہربان ہے‘ وہ تو اپنے بندے کی چھوٹی سی چھوٹی نیکی کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتا۔ حاجرہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ اللہ نے اس کے مال اور اولاد میں برکت دی جس پر وہ ہر لمہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتی۔
…٭…
بے شک میرا رب بڑا مہربان ہے‘ وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے جو بندے اس کے مال میں سے خرچ کرتے ہیں‘ غریب اور مفلسوں کی‘ ضرورت مندوں کی وقت پرمدد کرتے ہیں اللہ ان کی اس نیکی پر انہیں دنیا اور آخرت میں بھی اجر سے نوازے گا۔ آج پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ان میں سب سے تکلیف دہ حالت سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے ہوئی ہے ملک کے بیشتر علاقے‘ دیہات اور شہر اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اس نازک وقت میں جس قدر ممکن ہو سکے ان متاثرین کی مدد کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ ’’قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے‘‘ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا تھوڑا بھی مال سے دیں گے تو ان متاثرین کی مشکل میں کچھ تو مدد ہو سکتی ہے۔ ہم اپنی بنیادی ضروریات کے علاوہ ثانوی ضروریات پر بھی دل کھول کر خرچ کرسکتے ہیں تو ان متاثرین بھائیوں کے لیے تھوڑا بہت تو نکال ہی سکتے ہیں اور یقین کریں کہ یہ مشکل نہیں۔ ایک خاتون کی بہو نے اپنے‘ شوہر اور بچوں کے کچھ کپڑے ان متاثرین کے لیے نکالے ساتھ میں چند ہزار بھی۔ ساس نے پوچھا یہ سب کیا ہے؟ اس نے ساس کو کہا کہ میں نے یہ سیلاب متاثرین کے لیے نکالے ہیں تو ساس بھی اپنے کمرے میں گئی واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں لفافہ تھا جس میں دس ہزار روپے تھے اس نے بہو سے کہا یہ زکوٰۃ کے پیسے ہیں میری طرف سے بھی دے دینا۔
یہ ایک بیوہ اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خاتون ہیں۔ آج ہمارے آس پاس متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی عورتوں کے پاس بھی زیور (سونے کا) ہے وہ خواتین صرف ان متاثرین کا کچھ بھلا ہو جائے گا بلکہ وہ خود بھی اجر و ثواب کی مستحق ہوں گی۔ احادیث مبارک ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوںکے لیے خوش خبریاں ہیں۔ حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘ (بخاری مسلم)
اور دیکھا جائے تو یہ وہ ان متاثرین کے لیے رحم کرنے کا صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی۔ پھر رحم کرنے والوں کو اللہ کیسے بے یار و مددگار چھوڑ سکتا ہے۔
آج ہمارے یہ ہم وطن‘ ہمارے مسلمان بھائی مشکل میں جو ہمارا حصہ ہیں ہم انہیں اس طرح بے یارومددگار کیسے چھوڑ سکتے ہیں ان کی تکلیف و پریشانی کا احساس ہم سب کو جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’تم مسلمانوں کو باہمی ہمدردی‘ باہمی محبت اور باہمی شفقت میں ایسا دیکھو گے (یعنی مسلمان ایسے ہونے چاہیے) جیسے بدن ہوتا ہے کہ جب اس کے ایک عضو میں درد ہوتا ہے تو تمام بدن بے خوابی اور بیماری میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ (مسلم بخاری)
ہم مسلمان سب ایک جسم کی مانند ہیں‘ جسم کے کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اور بے چین ہو جاتا ہے۔ یقینا آج ہمارے یہ بھائی بہن تکلیف و پریشانی میں ہیں تو ہمیں اس کا نہ صرف دل سے احساس ہے‘ ہم ان کے لیے پریشان ہیں بلکہ ان کی مدد کے لیے تیار ہیں یہی جذبہ انسانیت کا تقاضا ہے جس سے غافل نہیں رہا جاسکتا۔
اللہ رب العزت ہمارے ان بھائیوں کو عافیت میں رکھے اور ہم سب کو اس کڑے وقت میں ان کا مددگار بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسے ہی بندے اللہ کے پسندیدہ ہیں جو دوسروں کی بڑھ کر مدد کرتے ہیں پھر میرا رب بھی انہیں بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا یہ تو میری رب کا وعدہ ہے۔