الشیخ عبدالواحد یحیٰ(فرانس)
عالم‘ فلسفی‘ مصنف‘ دانشور‘ متکلم اور صوفی عبدالواحد یحییٰ کا اصل نام رینے گینوں تھا۔ وہ 15 نومبر 1886 کو فرانس کے ایک خوش حال کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک معزز انجینئر تھے اس لیے ان کا بچپن مطمئن و مسرور گزرا۔ تعلیم کا آغاز آبائی شہر بلوا (Blois) سے کیا جو پیرس سے 172 کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے لواز کے کنارے واقع ہے طفولیت ہی سے ان میں غیر معمولی ذہانت کی علامات نمایاں تھیں اور وہ اپنے ساتھیوں میں ہمیشہ ممتاز فائق رہے چنانچہ 1904 میں انہوں نے بیچلر کی ڈگری امتیازی اسناد کے ساتھ حاصل کی۔ اسی برس میں وہ پیرس یونیورسٹی چلے گئے جہاں دو سال تک ریاضی کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔
پیرس میں رینے گینوں نے اپنی سرگرمیاں محض نصابی تعلیم تک محدود نہ رکھیں بلکہ حقیقتِ ازلی تک پہنچنے کی تگ و دو شروع کردی۔ وہ اپنے آبائی مذہب عیسائیت سے مطمئن نہ تھے اور ان کی زبردست ذہانت اسے قبول کرنے پر تیار نہ تھی۔ اس کے لیے انہوں نے دنیا بھر کے مذاہب کا دقتِ نظر سے مطالعہ ہی نہیں کیا بلکہ مختلف مفکرین اور دانشوروں سے بالمشافہ گفتگو بھی کرتے رہے مگر ان کی تشنگی نہ ہوئی۔ اس ذہنی کشمکش اور روحانی سفر میں ان کی تعلیم بھی ادھوری رہ گئی اور انہوں نے یونیورسٹی کو خیر باد کہہ دیا۔ یہ کیفیت 1909ء تک جاری رہی۔ اسی دوران میں ان کا تعارف دو ایسے اصحاب سے ہوا جو نو مسلم تھے اور اسلام کے علاوہ دیگر علومِ عمرانیات میں بھی دست گاہِ کامل رکھتے تھے۔ ان میں شیخ عبدالحق فرانسیسی نژاد تھے جن کا پرانا نام شمرینو تھا۔ وہ معروف عالم تھے اور ایک رسالہ ’’الطریق‘‘ نکالا کرتے تھے جو اب بند ہو چکا تھا۔ دوسرے صاحب فن لینڈ کے عبدالہادی تھے جن کا مسیحی نام آئیون گسٹاف تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد انہوں نے عربی زبان سیکھی اور اس میں استادانہ عبور حاصل کیا۔ قاہرہ کے مجلہ ’’انصاری‘‘ میں ان کے مقالات چھپا کرتے تھے۔
1909ء میں رینے گینوں نے ’’المعرفت‘‘ کے نام سے ایک رسالے کا اجرا کیا۔ دونوں متذکرہ نو مسلم علما نے ان سے بھرپور تعاون کیا۔ اس رسالے میں عیسائیت‘ ہندومت‘ بدھ مت اور اسلام سے متعلق مباحث شائع ہوتے تھے اور اوّل الذکر تینوں مذاہب پر بھرپور تنقید بھی ہوتی تھی۔ یہ رسالہ 1912ء تک جاری رہا۔ اسی سال رینے گینوں مسلمان ہو گئے اور عبدالواحد یحییٰ کا نام اختیار کیا۔
شیخ عبدالواحد یحییٰ کے قبولِ اسلام میں اگرچہ ان کی ذآتی تلاش و جسجتو‘ بے پناہ سلامتِ طبع اور شیخ عبدالحق اور شیخ عبدالہادی جیسے علما کا بھی عمل دخل تھا لیکن دراصل وہ شیخ عبدالرحمن عیش سے متاثر ہو کر حلقۂ بگوشِ اسلام ہوئے۔ شیخ عیش ازہر (مصر) میں فقہ مالکی کے مفتی اعظم تھے اور صاحبِ طریقت و شریعت بزرگ تھے۔ وہ صاحبِ عزیمت عالم تھے اور اس راہ میں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیل چکے تھے۔ بعد میں انہیں جلا وطن کرکے روڈس بھیج دیا گیا مگر عمر کے آخری دنوں میں انہیں مصر آنے کی اجازت مل گئی تھی۔
نو مسلم عبدالہادی شیخ عبدالرحمن عیش سے براہِ راست تعلقات رکھتے تھے۔ انہوں نے رینے گینوں کو ثانی الذکر سے متعارف کرایا اور رینے گینوں ان سے اتنے متاثر ہوئے کہ طویل تحقیقی و مطالعہ کے بعد بالآخر انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
پیرس کے ایک اشاعتی ادارے نے شیخ عبدالواحد کو پیشکش کی کہ وہ اس کے خرچ پر قاہرہ جائیں وہاں تصوّف کا مطالعہ کریں اور صوفیا کی تصانیف اور ان کے تراجم ارسال کریں۔ چنانچہ 1909ء میں شیخ قاہرہ آگئے۔ وہ آئے تو عارضی قیام کے لیے تھے مگر حالات ایسے پیدا ہوئے کہ انہوں نے یہاں مستقلاً قیام کر لیا۔ ان کا مکان محلہ ازہر میں تھا۔
قاہرہ آنے سے پہلے ہی شیخ عبدالواحد یحییٰ کے والد‘ والدہ اور اہلیہ وفات پا چکے تھے۔ یہاں تن تنہا زندگی مشکل ہوئی تو 1937ء میں انہوں نے ایک خاتون کریمہ بنت ِ شیخ ابراہیم سے نکاح کر لیا۔ اس نیک بی بی نے ان کی زندگی سکون اور اطمینان سے بھر دی۔ ان کی اولاد دو بچے اور دو بچیاں تھیں۔
قاہرہ میں شیخ موصوف نے بہت خاموش زندگی گزاری۔ لوگوں سے بہت کم ملتے جلتے تھے اور چند اصحاب ہی جانتے تھے کہ شہرہ آفاق مصنف رینے گینوں قاہرہ کے کس محلے میں رہتا ہے۔ دراصل وہ ان لوگوں سے بہت کتراتے تھے جو ان کا وقت ضائع کرتے اور سوائے شخصی باتوں اور ذاتی احوال کے کوئی بات ہی نہیں کرتے تھے۔ البتہ جب وہ دیکھتے کہ ملنے والا طلبِ صادق اور علمی ذوق رکھتا ہے تو وہ نہایت خوش دلی سے اسے قریب بٹھاتے اور باتیں کرتے تھے۔
شیخ نہایت وجیہہ و شکیل اور بارعب شخصیت کے حامل تھے۔ طویل قامت‘ پُرنور اور مرعوبہ کن چہرہ‘ پُرجلال و پُروقار اور ذہانت سے بھرپور آنکھیں اور صلح و تقویٰ کی شہادت دیتا ہوا سراپا۔ جو بھی ایک مرتبہ ان سے ملتا متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ ان کی تحریروں اور شخصیت کے اثر سے یورپ کے بہت سے اہل کمال نے اسلام قبول کر لیا۔ ان لوگوں میں سرِفہرست شیخ عیسیٰ نورالدین ہیں جنہیں مشرق میں فلسفے کے استاد کے نام سے جانتے ہیں۔ موصوف سلسلہ شازلیہ مالکیہ میں صاحب اجازت ہیں۔ تقابلِ ادیان اور فسلفۂ دین پر ان کو یورپ میں سند مانا جاتا ہے۔ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔
دوسرے صاحب ابوبکر سراج ہیں۔ ان کا مسیحی نام مارٹن لنگو تھا۔ انگریزی اور عربی پر یکساں قادر ہیں۔ تصوف ان کا خاص موضوع ہے اور یورپ کی عالمی دنیا میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اعلیٰ پائے کے شاعر اور مترجم ہیں۔ پانچ چھ کتابوں کے مصنف ہیں۔
تیسرے صاحب مصطفیٰ عبدالعزیز (مائیکل یو آلسن) ہیں۔ ان کا چند ہی سال قبل انتقال ہوا ہے۔ یہ ایک ثقہ جریدے کے مدیر اور عالمِ دین تھے۔ ان کا مجلّہ مغرب میں تصوف اور روایتی علوم کی توضیح و اشاعت کرنے والا معتبر ترین جریدہ تھا۔
اسی طرح Fintsburcharat نے خصوصیت سے قدیم تہذیبوں کے تصوراتِ فن پر تحقیق کی ہے۔ صوفی تصورات پر ایک معرکۃ الآرا کتاب لکھی ہے۔ کیمیا پر لکھی جانے والی اس صدی میں سب سے اچھی کتاب کے مصنف بھی یہی ہیں۔ جرمن‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘ سوِس‘ عربی اور فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔ شیخ اکبر ابن عربی کی قصوص الحکم‘ الجیلی کی انسانِ کامل اور شیخ درقاوی کی رقعات در قاویہ کا فرانسیسی اور انگریزی میں ترجمہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کے علاوہ بہت سی شخصیات شیخ عبدالواحد یحییٰ سے متاثر ہو کر حلقہ بگوشِ اسلام ہوئیں۔ یہ سب لوگ اب اپنے اپنے شعبے میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ کر رہے ہیں اور ان کے واسطے سے اسلام کا تعارف یورپ میں وسیع ہوتا جارہا ہے۔
قبولِ اسلام کے بعد شیخ عبدالواحد نے اسلامی تصورات کی شرح اور مغرب کو ان سے روشناس کرانے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے عمر بھی لکھا اور بہت کچھ لکھا۔ یوں بے شمار مقالات کے علاوہ ان کی مستقل تصانیف کی تعداد دو درجن سے زائد ہے۔ ان میں سے East and West ان کی وہ زہردست تصنیف ہے جو دائمی اہمیت و حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں انہوں نے مشرقی فکر اور تہذیب کی مغربی فکر و تہذیب پر برتری ثابت کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب کی بنیاد ظلم و عدوان اور مادّی استحصال پر رکھی گئی ہے اس لیے خون ریزی اور مادہ پرستی اس کی سرشت میں شامل ہے‘ اسی لیے وہ مشرق کی انسانیت نوازی کا اندازہ نہیں کرسکتی۔ کتاب کے ہر صفحے سے تہذیبِ مشرق اور انسانی رفعت کی شہادت ملتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مغرب کے تین خدائوں یعنی ’’ترقی‘‘، ’’تہذیب‘‘ اور ’’سائنس‘‘ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ان کے بودے پن کو واضح کیا ہے اور پس منظر میں کار فرما اغرض و مقاصد کی جھلک دکھائی ہے۔ انہوں نے بر ملا لکھا ہے کہ اگر مغرب کی مادّی قوت کو نظر انداز کر دیا جائے تو اس کی حیثیت ایشیا اور افریقہ کے مقابلے میں جسدِ ارضی پر ایک بے وقعت مردار گوشت کی رہ جاتی ہے اور تاریخ میں مغرب کی حیثیت ہمیشہ وہی رہتی ہے جو تنے کے سامنے غلط رخ میں بڑھی ہوئی شاخ کی ہوتی ہے۔
ان کی دوسری اہم ترین کتاب ’’جدید دنیا کا المیہ‘‘ ہے۔ اس میں انہوں نے تاریخ کے قدیم اور روایتی تصور کے حوالے سے انسانی تاریخ میں تہذیب مغرب کا مقام متعین کیا ہے۔ ساتھ ہی اس مہلک راہِ انحراف کی نشاندہی بھی کی ہے‘ جس پر مغرب گامزن ہے‘ جو کھلی گمراہی اور جس نے مغرب کو سیدھی راہ دیکھنے سے اندھا بنا رکھا ہے۔
Reign of Quantity میں انہوں نے مغربی سائنس کے خالصتاً مقداری اور نتیجتاً مادی مزاج کا محاکمہ کیا ہے۔ یعنی مغربی تہذیب کے اس غالب رجحان پر تنقید کی ہے جس کے تحت ہر معیار اور اصول کو فقط مقدار اور تعداد تک محدود رکھا جاتا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مغربی سائنس اور صنعت کے مختلف ہولناک پہلوئوں پر خاص تبصرہ کیا ہے۔ آخر میں تحلیل نفسی Analysis Psyco اور اس کے نظریات و خطرات پر بھی تنقید کی ہے جب کہ خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
7 جنوری 1951ء کو 65 برس کی عمر میں شیخ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مصر اور یورپ کے ثقہ علمی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ لیکن جہاں بہت سے لوگوں نے انہیں جی بھر کر خراج تحسین پیش کیا‘ وہاں ان کے دشمنوں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ فری میسنری‘ متعصب عیسائیوں اور مادّی تہذیب کے علمبرداروں کے خلاف شیخ نے کسی رو رعایت کے بغیر بے رحمی سے تنقید کی تھی۔ ان سب نے ان کے خلاف لکھا۔ اس طرح ان کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان ایک مباحثہ چل نکلا‘ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگ ان کی تصانیف کی طرف مائل ہوئے۔ ان کی اصلاح ہوئی۔ اسلام کے بارے میں عیسائی مصنفین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں اور یورپ کے سنجیدہ طبقے میں متعدد افراد نے اسلام قبول کر لیا۔ کلیسا کی ممانعت کے باوجود ان کی تصانیف پورے یورپ میں پھیل گئیں۔ مغرب کی بہت سی زبانوں میں ان کے تراجم ہوئے اور بے شمار لوگ ان سے متاثر ہو رہے ہیں۔
شیخ عبدالواحد یحییٰ کی عظمت کا اعتراف کرتی ہوئے عبدالحلیم محمود مرحوم رئیس الجامعہ ازہر نے کہا تھا:
’’رینے گینوں ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے تاریخ میں ایک مقام پیدا کیا ہے۔ مسلمان انہیں امام غزالی جیسے لوگوں کا ہمسر گردانتے ہیں۔‘‘ اور ریڈیو پاکستان کے ایک انٹرویو میں مشہور ماہر اقبالیات اور جرمن مستشرق ڈاکٹر این میری شمل نے شیخ موصوف کے قول و فعل کی یکسانیت اور طرزِ حیات کی پاکیزگی اور للہیت کا اعتراف کیا۔