سوشل میڈیا کا جھوٹ

235

سوشل میڈیا پر ایشیا کرکٹ کپ شائقین کی دلچسپی کا بھرپور اظہار کرتا نظر آیا۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا کی ٹیموں کی کھیل میں شمولیت، کھلاڑیوں کی کارکردگی، ٹیم کی کارکردگی سب زیر بحث رہی۔ پاک بھارت کے دوسرے میچ میں پاکستان کی فتح بھرپور انداز سے منائی گئی۔ عالی سطح پر بھی ٹرینڈ ہوتے نظر آئے۔ اس کے بعد بھارت کی سری لنکا سے شکست پھر افغانستان کی پاکستان سے شکست کے بعد تو معاملہ اور بڑھ گیا۔ افغانستان کے شائقین نے شکست کا غم شدت سے منایا، بھارتیوں کو بھی بہت دکھ تھا۔ پاکستان میں نسیم شاہ ٹرینڈ بنے رہے۔
اس ہفتے نجی یونیورسٹی اقرا کے چانسلر، سماجی رہنما جنید لاکھانی کی ڈینگی سے ہونے والی موت بھی ٹرینڈ لسٹ میں نظر آئی۔ اس ہفتے ’’یوم دفاع‘‘ بھی آیا اور سوشل میڈیا پر خوب منایا گیا۔ اس کے بعد 7 ستمبر ’’یوم تحفظ ختم نبوت‘‘ کے سلسلے میں ’’قادیانی بدترین کافر‘‘ کا ٹرینڈ لایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ کراچی کے قدیم کاروباری علاقے کے دکان داروں نے 7 ستمبر کی خوشی میں اپنی دکانوں پر 10تا 30 فیصد رعایت کی مہم بھی سوشل میڈیا پر چلائی تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ تحفظ ختم نبوت کے سلسلے میں کامیابی کتنی خوشی کی بات ہے۔
عمران خان کی پشاور جلسے میں تقریر کے موقع پر پاکستان میں یوٹیوب کی اچانک بندش بھی سوشل میڈیا کا موضوع بن گئی۔ لائیوکوریج سے ٹی وی چینلز کو پہلے ہی روک دیا گیا تھا۔ اے آر وائی کے بعد بول ٹی وی کو بھی بند کر دیا گیا تھا اس کے بعد اب یہ طریقہ بھی استعمال کرلیا گیا۔ مگر خان تو خان ہیں، ریٹنگ ہے تو ناظرین دیکھ ہی لیں گے خصوصاً جب وہ یوٹرن مار ہی لیں۔ خان صاحب کے یوٹرن پر بھی ڈھٹائی کے ساتھ ٹرینڈ چلایا گیا ’’فوج بھی میری‘ ملک بھی میرا۔‘‘ اہم بات یہ ہے کہ اس ٹرینڈ کو وہی لوگ چلا رہے تھے جو پہلے فوج کے خلاف ٹرینڈ چلاتے رہے ہیں۔ اس تمام صورت حال میں ایک ٹوئیٹ بڑ ی مقبول رہی ’’پی ٹی آئی رہنما اس وقت 2013 سے پہلے والے ایم کیو ایم کے رہنما لگ رہے ہیں جو اپنے قائد کے بیانات کی وضاحتیں ہی دیتے رہتے تھے۔‘‘ اس ٹوئیٹ کی ایسی برکت ہوئی کہ ’’سستا الطاف حسین‘‘ کے نام سے ٹرینڈ چلا دیا گیا۔ پھر اینکرز کے پیچھے تو انصاف ٹائیگرز مستقل ہی لگے ہیں اس لیے ’’دو کوڑی کے اینکرز‘‘ کا ٹرینڈ چلا دیا۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے آرمی چیف کے تقرری کے حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کیا گیا۔ ان اداروں کا نظم و ضبط کسی سے پوشیدہ نہیں، کئی وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال گئیں کہ کون سا میجر جنرل سینئر ہے، کس کا آئندہ چانس ہے؟ سوشل میڈیا پر اس کی آڑ لے کر سابقہ فوج مخالف بیانات کو بھی خوب اچھالا گیا۔ ویسے تو عمران خان اپنی پچھلی تقریر میں کلپس نشر کر ہی چکے ہیں مگر اب یہ مستقل تحریر و تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا کا زینت بننے لگا ہے۔
اس پورے عمل میں پاک فوج کو جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے، ممکن ہے ایسا وقت آئے کہ در و دیوار بھی مختلف فوجی عہدیداروں کی حمایت و مخالفت کی تصویر بنیں۔ بہر حال کچھ بھی ہو دشمن ممالک کو اس کا فائدہ یقینی طور پر ہوگا۔ اس حوالے سے بھارت بھر میں ’’پاکستان شرمندہ ہے ‘‘ کا ٹرینڈ بھی چلایا گیا۔
پاک فوج کے چار سربراہان کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔ اس کی آڑ میں بلوچستان اور مشرقی پاکستان میں قتل عام کے حوالے دے کر نفرت ابھاری جاتی رہی۔ اتفاق سے ایک دن قبل بھارت کرکٹ میں بھی شکست خوردہ ہوا تھا تو اس نے لگے ہاتھوں پاکستان کی جنگی شکستوں کو موضوع بنا لیا۔ بھارت نے یہ شکست اتنی دل پر لے لی کہ سیلاب میں امداد لینے، سبزیوں کی امپورٹ کو بھی مذاق بنالیا تھا۔ اس دوران وہ اپنے کھلاڑی ارشدیپ کو میچ کے دوران ایک اہم کیچ چھوڑنے پر بھی ’’پاکستانی‘‘ یا پاکستانی ایجنٹ ہونے کا بھرپور طعنہ دیتے رہے۔ یہ نہایت اہم بات ہے کہ جب بھی بھارت کا کوئی فرد چاہے وہ ہندو ہی کیوں نہ ہو‘ کسی حوالے سے بھارت کو منفی لگتا ہے تو وہ اس کو یا اس کی خدمات کو یکسر نظر انداز کر کے اسے پاکستان سے جوڑ دیتے ہیں۔ یہی حال وہ اپنے اداکاروں‘ کھلاڑیوں اور سیاست دانوں کا بھی کرتے ہیں۔ میں نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ قیام پاکستان کے وقت یہ سوال شدت سے اٹھایا گیا تھا کہ خالص مسلم اکثریتی علاقے تو پاکستان بن جائیں گے۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں مگر ہندوستان میں رہ جانے والے تقریباً4 کروڑ مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم تھا کیوں کہ قیام پاکستان کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی آزادی‘ اسلامی معاشرت ، سیاسی و سماجی مسائل کا حل تھا لیکن اگر اس حل میں ساڑھے تین کروڑ مسلمان متاثر ہو رہے ہیں تو یہ حل خود ایک نیا سوال پیدا کر رہا تھا۔ اس سوال کے جواب کی تلاش میں مجھے یہ معلوم ہوا کہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم نے قیامِ پاکستان کے وقت صاف کہا تھا کہ ’’پاکستان بننے کے بعد ہمارا تعلق بھارت کے مسلمانوں سے ختم نہیں ہوگا، اگر بھارت کے مسلمانوں کو تکلیف ہوگی تو پاکستان تماشائی بن کر نہیں بیٹھے گا جس طرح برطانیہ نے آرمینیا کے اندر عیسائی اقلیت کو بچانے کے لیے مداخلت کی، پاکستان بھی ایسی پیش قدمی کرے گا۔‘‘ (حوالہ کتاب :اسپیچز اینڈرائٹنگز اآف مسٹر جناح،مرتب: جمیل الدین احمد)
یہی نہیں تحریک پاکستان کے ایک رہنما مولانا شبیر احمد عثمانی نے بھی کہا تھا کہ ’’بھارت کے مسلمانوں کا پاکستان پر ویسا ہی حق ہوگا جیسا پاکستان کے مسلمانوں کا۔‘‘ یہ بات ہمیں تو نہیں پڑھائی، بتائی جاتی مگر ہندوئوں کو اچھی طرح یاد ہے اس لیے وہ ہر کیس میں پاکستان سے معاملے کو جوڑتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 20 اگست 1947 سے ہی دروازے پر دربان کھڑے کر دیے گئے اور بھارتی مسلمان اور پاکستانی مسلمان کی لکیر کھینچ دی گئی۔ اور یہ لکیر روز بہ روز گہری ہوتی چلی گئی۔ یہ ہے استعماری ریاست کا ایک جوہر جو ضرورت پڑنے پرکبھی قوم پرستی کے دائرے ترتیب دیتا ہے ، کبھی سیکولر آئین کی آڑ میں ہندوتوا پروموٹ کرتا ہے ۔
بہرحال بات ہو رہی تھی عمران خان کے بیانیے کی مقبولیت کی جو مسلسل استقامت کی وجہ سے عوام میں جگہ بنا رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر چلتے ٹرینڈز میں سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) حمید گل (مرحوم) کا انٹرویو کلپ وائرل کیا گیا جس میں وہ واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں آزادی برائے نام ہے، ہمیں ملک دیا گیا لیکن آزادی تو نہیں دی گئی۔ اب بہرحال یہ کوئی معمولی بات نہیں، نہ ہی کوئی نئی بات ہے۔ یہ انٹرویو 15سال پرانا تھا۔ لیکن یہ سب عمران خان کے بیانیے کو سپورٹ کر رہا تھا اور لوگوں کی ذہن سازی کر رہا تھا۔
سیلاب کی صورت حال بدستور قائم رہی، سوشل میڈیا کے بہ دولت لوگوں کے حالات، امدادی کاموں کی معلومات شیئر ہوتی رہیں۔ ایک اہم پوسٹ اس ضمن میں مجھے بہت اچھی لگی کہ ’’پاکستان کو عالمی اداروں اور تیسری دنیا کے ممالک کو سیلاب کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ، مکمل جرمانہ طلب کرنا چاہیے کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ یہ اضافی برسات موسمی تغیرات کی وجہ سے ہوئی ہیں اور موسمی تغیرات کی وجوہات میں پاکستان کا کھینچ تان کر حصہ صرف 5 فیصد بنتا ہے، تو باقی 95 فیصد والے ممالک اس تباہی کے ذمہ دار ہیں جو کہ مزید ہر سال بڑھتی جائے گی ، اس لیے یہ نقصان وہی بھریں۔‘‘ کہنے کو تو بالکل درست بات ہے مگر کیا غلام حکمرانوں میں ایسی کوئی ہمت ہے؟
انیسویں صدی سے آزادی کی بھوک مستقل بڑھتی جا رہی ہے‘ یہاں تک کہ’’باڈی ایکسپریشن‘‘ پر یہ آزادی منتج ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانوں سے آزادی کے نام پرآزادی ہی چھینی جا رہی ہے۔ اس کی شکل ڈی ہیومنائزیشن کی صورت سامنے ہے، ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمنٹ،جدید مشینیں، آلات انسانی عمل کو سہولت کے نام پر مستقل مائنس کر رہے ہیں۔ کمال اتاترک نے جدید ترکی کی بنیاد رکھتے ہوئے خلافت پر تنقید میں کہا کہ ’’300 سال لیے خلافت نے پرنٹنگ پریس کو اپنانے میں۔‘‘ کہنے کو آج یہ تنقید لگے گی، مگر کوئی وہ وجہ نہیں بتائے گا کہ ایسا کیوں ہوا؟ روایتی معاشرہ انسانوں کو کسی مشین سے مائنس کرنے کا تصور نہیں کرتی تھی۔ افسوس یہ کہ ہمارے چند علما اس آزادی کو اپنے منہج میں زبردستی داخل کرتے ہیں۔ مغرب کو زبردستی اپنی تاریخ میں شامل کرکے اپنی تاریخ مسخ کرتے ہیں، جواز کہاں سے لاتے ہیں؟ حضرت عمر ؓ کے ایک فرمان سے جس میں غلامی اور آزادی کے معنی وہ تھے ہی نہیں جو آج رائج ہیں۔ آج اسی تمام آزادیٔ حقوق کے مباحث میں ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 سے پاکستان میں ایسا نفوذ پا چکا ہے کہ بھارت اور امریکہ بھی کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’ہم جنس پرستوں کی سہولت کے لیے ایسا آسان سہولت والا قانون تو دنیا میں کوئی نہ منظور کرا سکا۔‘‘
خدائی ساخت میں رد و بدل کا واضح کام ٹرانس جینڈر، ہم جنس پرست تحریکوں کی آڑ میں کھلے عام شروع ہوچکا ہے۔ یہ مشن شیطان نے لے لیا تھا۔ اب اس کے پیروکار قانون سازی کی آڑ میں اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں۔ اس وقت کی انسانی حقوق کی وزارت نے ٹرانس جینڈرز ایکٹ کے دفاع میں آخر عدالت میں جھوٹا موقف اختیار کیوں کیا؟
منظوری سے قبل یہ بل جائزے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے سے انکار کس کس نے کیا؟ ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ والے نعرے کی جماعت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے جمہوری لٹیرے اس کی منظوری میں متحد ہیں۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ایک مجرمانہ شق یہ بھی ہے کہ اس بات کا فیصلہ وہ شخص خود کرے گا کہ وہ عورت ہے یا مرد۔ مغرب نے فطرت کو اپنے نفس کی خواہشات سے جوڑ دیا ہے۔ فطری مان لینے کی وجہ سے لوگ سوال ہی پیدا نہیں کر پاتے۔ اس کا فائدہ مظلومیت کا لیبل لگا کر سوشل میڈیا پر مستقل ایل جی بی ٹی کے عنوان سے یہ لوگ منظم انداز سے شور مچا کر اس کو نارملائز کر رہے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ مسلم معاشرے میں ہمیشہ سے بچہ کی پیدائش ایک خالص سماجی معاملہ تھا، جب سے اس کو میڈیکل معاملہ بنا دیا گیا، جس سے سارے مسائل پھوٹ پڑے ہیں۔
جو لڑکی کسی زمانے میں پیدا ہونے کے بعد دفنائی جاتی اب کسی کو جسمانی فٹنس کی خاطر اپنی کوکھ سے بچہ پیدا نہ کرنا ہو تو کرائے پر کوکھ دستیاب ہے۔ سروگیسی کے نام پر۔ یہ تو چند مثالیں ہیں بچے کی پیدائش کو سماجی سے طبی معاملہ بنانے کی۔جبکہ ہم جانتے ہیں کہ صدیوں سے انسان پیدا ہو رہے ہیں، صحت مند بھی اور کسی جسمانی نقص کے ساتھ بھی مگر اس کی تمام ذمے داری گھر، خاندان، قبیلہ، معاشرہ کرتا۔ ریاست اس سب سے باہر تھی، مگر اب ریاست بتائے گی کہ آپ کا بچہ کون سی جنس کا ہے؟اس لیے پوری علمیت کے ساتھ مخالفت کے لیے دلائل کسی کے پاس نہیں ہیں۔ یوتھ کلب نے اس ضمن میں سب سے جامع انداز میں جوابات دیئے ہیں اور بہترین انداز سے بات مستقل سمجھائی ہے۔ باقی سب خاموش ہیں۔ ہمارے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ انہوں نے ملک کے کئی بڑے بڑے مدارس، علما کو اس ضمن میں سوال کی صورت خطوط بھیجے مگر سب خاموش ہیں۔ اس کی اہم وجہ وہ اوپر والی ہے کہ جب ہم نے جدیدیت کے عقائد ترقی، انسانی حقوق ، مساوات، آزادی کو دینی چادر اوڑھا کر تسلیم کر لیا تو پھر جان لیں کہ شریعت اس کے بیچ میں زبردستی نہیں گھسائی جا سکتی ۔سینیٹ میں بھی جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان اپنا تمام کردار قانون میں ترمیم کے لیے ہی ادا کر ر ہے ہیں۔
چار سال قبل منظور شدہ اس قانون کو واپس کرانے کے لیے مشتاق احمد خان بھی اپنی ٹوئیٹ میں، اپنے انٹرویوز میں علما ، سیاسی و مذہبی جماعتوں سے احتجاج ہی کی اپیل کررہے ہیں۔
مغربی عقائد کو اپنانے کی ایک اور تازہ دل چسپ مثال بھارت سے دینا چاہوں گا جہاں سپریم کورٹ میں حجاب پابندی والا کیس اب بھی چل رہا ہے۔جنوری 2022 میں کرناٹک سے شروع ہونے والا یہ معاملہ ہائی کورٹ گیا جہاں کورٹ نے حجاب پر پابندی لگا دی کہ یہ مسلمانوں کے مذہب کا لازمی حصہ نہیں ہے۔مطلب شرعی حکم کا فیصلہ ہندو جج و ریاستی عدالت نے کیا۔ اس کے بعد مسلمان مجبور ہوکر سپریم کورٹ چل گئے ، وہاں اس ہفتہ سماعت تھی جس میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہیمنت گپتا نے حقوق کے ڈسکورس میں بحث کرنے والے وکیل سے پوچھ لیا کہ ’’لباس کے پہننے کا حق ہے تو کیا ……… مسئلہ یہ ہے کہ ایک مخصوص کمیونٹی سر پر اسکارف (حجاب) پر اصرار کر رہی ہے جبکہ دیگر تمام کمیونٹیز ڈریس کوڈ کی پیروی کر رہی ہیں۔
جی! یہ ہوتا ہے حقوق کا ڈسکورس، جس میں اخلاقیات و اقدار نہیں ہوتی کیوں کہ یہ حقوق ، آزادی اور مساوات کے نعرے ہیں ہی خدا مائنس تہذیب کی پیداوار۔ اس میں کہیں کسی الہامی، خدائی، وحی، قرآن، سنت کی تعلیمات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر فرد مجرد فرد ہوتا ہے، اس کے حقوق ہوتے ہیں جس کی ادائی ریاست کی ذمے ہوتی ہے اور وہ قانون سازی سے دیے جاتے ہیں۔ حجاب کی پابندی کا کیس کرناٹک سے ہوتا ہوا پورے بھارت پھر پوری مغربی دنیا میں جائے گا دیکھ لیجیے گا کوئی چوں بھی نہیں کر سکے گا۔بالکل ایسے جیسے ہم جنس پرستی کا قانون یورپ ،امریکہ سے چلتا ہوا بھارت اور پاکستان تک پہنچ گیا۔

حصہ