ادب اور ہمارا معاشرہ

1619

ادب تہذیب و ثقافت کی سمت کی نشان دہی کرتے ہیں،معروف خواتین قلمکاروں کے تاثرات
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کو جاننا ہو تو اُس کے ادب کو پڑھ کر دیکھو۔ ادب کسی بھی قوم کی تہذیب، ثقافت، سوچ اور رویوں کا بہترین آئینہ دارہے۔ خیالات اور افکار کو نئی راہیں، نئی سمتیں، نئی جہتیں فراہم کرنے والے قلم کار ہوتے ہیں۔ معاشرے کے فکری انتشار اور بگاڑ کو ادیب اپنی کاوش کے ذریعے سمیٹ کر نایاب موتی میں پرو دیتا ہے۔ ادیب ہو یا شاعر اس کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہوتا ہے، جو معاشرے کے بگاڑ کو روکنے کے لیے اپنے خیالات، تجربات اور تخیلات کے ذریعے سدباب کرتا ہے۔ کیا موجودہ ادب معاشرے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے؟ اس سلسلے میں ہم نے ایک سروے کیا جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
1)کیا موجودہ ادب معاشرے کی صحیح ترجمانی کر رہا ہے؟
2) کمرشلزم تحریروں پر کس طرح اثر انداز ہوا؟
3) آج کا ادیب اپنی ذمہ داریاں بہتر طور پر پوری کر رہا ہے؟
4)کیا آپ سمجھتی ہیں کہ موجودہ شاعری انقلابی ہے؟
5) آپ کے خیال میں موجودہ قلم کار نسل نو کو اپنی تہذیب سے جوڑنے میں کامیاب رہا؟
…٭…
ڈاکٹر میمونہ حمزہ (مصنفہ و مترجم )
1) میں سمجھتی ہوں کہ ادب کسی بھی معاشرے کی تصویر ہوتا ہے۔ ادیب اپنے حساس قلم سے قارئین کے سامنے وہ موضوعات اور زندگی کے پہلو پیش کرتا ہے جو اس پر لا شعوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ تیزی سے مادیت پرستی کا شکار ہو رہا ہے اور یہی رنگ مختلف ادیبوں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ دیرپا اثرات کے حامل ادب کے بجائے وقتی موضوعات کا چناؤ اس تیزی سے ہو رہا ہے کہ بعض اوقات تحریر رپورتاژ کا تاثر پیش کرتی ہے۔
2) معاشرے میں ادیبوں کی معاشی حالت اکثر و بیشتر دگرگوں رہی ہے۔ ان کے چولھے ٹھنڈے بھی رہے تو انہوں نے ادب کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیا لیکن آج جس کے ہاتھ میں قلم ہے اس کے سامنے خود کو منوانے کے نت نئے انداز بھی ہیں۔
ایک جانب وہ ادبا ہیں جو ایک نظریے اور فکر کی ترویج کے لیے لکھتے ہیں اور دوسری جانب ایسے ادیبوں کی بھی کمی نہیں جو قلم کو روزی اور مال بنانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔
آج ادیب کے ہاتھ میں ایسے ذرائع بھی ہیں جہاں اس کی تحریروں کی لائیکس اور شیئر کی بنیاد پر اس کے ادب کا قد مقررکیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا۔ بعض ادبا اور خاص طور پر خواتین ادیب قارئین کو نہ صرف جذباتی طور پر اپنے ساتھ اس طرح باندھ لیتی ہیں کہ قارئین ان کی تحریر ہی نہیں بلکہ سوچ اور نظریہ کو اپناتا ہے ایسے میں ادیب کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔
3 ) ہر دور میں حق کے گو موجود ہوتے ہیں اور یہی حال ادیب برادری کا ہے۔ بچوں کا ادب ہو یا خواتین کا، یا مقبول ادب جو ہر طبقے کا نمائندہ ہو۔ اس میں آج کا ادیب کافی پیچھے دکھائی دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں قارئین کو خودی کا سبق پڑھانے‘ ملکی سالمیت اور اتحاد و اتفاق سکھانے والے قلیل التعداد ہیں جبکہ اپنا حق اور حق سے بھی بڑھ کر چھین لینے والے غالب ہیں۔
ادیب معاشرے کا بہترین رہنما ہوتا ہے، اندھیرے میں روشنی کا دِیا تھام کر ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بچاتا ہے لیکن آج کا غالب ادب بھیڑ چال اور ’’وہ کہو جسے پزیرائی ملے‘‘ پر مشتمل ہے۔
4 ) حبیب جالب اور فیض کے شاگرد کہیں جا سوئے ہیں۔ فی الحال ایسی کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی جس کی آواز میں پورا مجمع اپنی آواز ملا لے یا جو خون میں حدت پیدا کرے وہ سنائی نہیں دی۔
5 ) نئی نسل پرانی اقدار وروایات اور تہذیب سے بے زار ہے۔ خاندان کے بجائے اکائی کا تصور بڑھ رہا ہے۔ سونے‘ جاگنے‘ کام کرنے کے اوقات تک بدل گئے ہیں۔ پوری رات جاگنا اور شام تک سونا نسلِ نو کی عادت بن گئی ہے۔ ہر چیز کو پیسے میں تولنا بھی بہت بڑھ گیا ہے اور رشتے اور تعلق ہوا کے رُخ پر رکھے چراغ کی مانند لرز رہے ہیں۔
جہاں خاندان کی گرفت اور نسل نو سے روابط مضبوط تھے وہاں تہذیب ، روایات منتقل ہوئی ہیں۔ لیکن جہاں قدیم سے عدم اطمینان کی صورت تھی وہاں تہذیبی ارتقا بھی نمو نہ پا سکا اور نئی روایات اور اقدار نے جنم لیا ہے مثلاً پچھلی نسل میں اساتذہ کا احترام ذہنوں میں راسخ تھا اور استاد شاگرد کے درمیان ایک مضبوط تعلق تھاجب کہ آج کی نسل اساتذہ کو تنخواہ دار ملازم سے زیادہ نہیں سمجھتی۔ ادبا نے بھی معاشرے کے مسائل کا حل بطریق احسن پیش کرنے میں کمی کی ہے۔
قانتہ رابعہ ( مصنفہ ، کالم نویس )
1 ) میرا خیال ہے جزوی طور پر درست کہا جا سکتا ہے، کلی طور پر نہیں۔ ہر دور میں گنے چنے افراد ہی اپنے دور کی ترجمانی کرتے ہیں، سارے کر ہی نہیں سکتے کہ ادیب کے پاس تصوراتی دنیا بھی ہوتی ہے جس میں وہ رہنا پسند کرتا ہے اور اسی کی جھلک دکھاتا ہے۔ ہاں ترجمانی کس نمبر کی عینک لگا کر کر رہا ہے؟ ظاہر ہے جو اس کے اندر کی دنیا ہے وہ اسی کی ترجمانی کرے گا۔ اگر کوئی برائی کا دلدادہ ہے تو اسے اپنے اردگرد برائی نظر آئے گی اور وہ چسکے لے کر اسی کی ترجمانی کرے گا۔ اس کے برعکس بھلائی اور خیر کا طالب جہاں خیر دیکھے گا اسی کی عکاسی کرے گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ بات مثبت اور منفی ترجمانی کی ہے۔
2 ) کمرشلزم تحریر پر بہت برے طریقے سے اثر انداز ہوا۔ اچھا بھلا لکھنے والا بھی جب لفظوں کی قیمت وصول کرنے کا عادی ہوجاتا ہے یا یہ قیمت وصول کرنا اس کی ضرورت اور مجبوری ہوتی ہے تو دو طرح سے اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بے جا طوالت اور بے مقصدیت۔
3 ) مختلف پہلو ہیں، بات تو احساس کی ہے‘ مقصد زندگی کے شعور اور قلم کی حرمت کی ہے لیکن کچھ افراد ابھی بھی اس کام کو فرض سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔ فی زمانہ اکثریت تو نفسا نفسی اور ہنگامی حالت کا شکار رہتی ہے۔ افراتفری کا دور ہے۔ ادیب بھی اسی معاشرے کا فرد ہے وہ بھی انہی حالات میں پھنسا ہوا ہے۔
4 ) میں بس اچھا شعر پڑھ کر خوش ہونے والوں میں شامل ہوں اس کے علاوہ شاعری سے زیادہ تعلق نہیں۔
5 ) میرا خیال ہے جو اس نوجوان نسل کو اقبال کا شاہین بنانا چاہتا ہے، وہ ادیب تو اس کا شعور بھی رکھے گا اور عمل پیرا بھی ہوگا۔ دوسری صورت میں جسے خود ہی اس بات کا احساس نہیں وہ اصلاح نوجوان کی ذمے داری کو کیوں ضروری سمجھے گا؟ جو سمجھتے ہیں وہ ہر حیثیت میں کرے گا، قلم کار ہو یا مدیر اسے ہی فرض منصبی قرار دے گا‘ جو کمانے کے لیے لکھ رہا ہے یا محض لفظی کھیل تماشے میں مصروف ہے اسے کیا ادراک کہ نسل کیوں بگڑ رہی ہے اور کیسے سدھارنا ہے؟
زروہ احسن (مدیرہ ،مصنفہ):
1) یہ دو طرفہ ٹریفک ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ادب معاشرے پر اپنا اثر ڈالتا ہے تو دوسری طرف معاشرے کی ناہمواریاں، اچھائیاں اور برائیاں بھی ادب کو متاثر کرتی ہیں۔ دونوں میں جس کا اثر یا تاثیر زیادہ اور دیرپا ہوگی ، وہ اثر چھوڑے گا۔
افسوس آج کل ادب معاشرے کی ترجمانی نہیں کرتا کیوں کہ بیرونی ثقافت کی یلغار نے ادب کے آئینے کو دھندلا دیا ہے۔ ادب صرف کتاب تک محدود نہیں بلکہ سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی ادب میں شامل کر کے دیکھنا ہوگا۔
کتاب کم پڑھی جا رہی ہے اور 75 فیصد وقت دوسرا میڈیا لے جاتا ہے۔ ان کے لیے زبان، لٹریچر، ثقافت اور مغربی دنیا کے حوالے اس قدر معتبر ہیں کہ ادب سمٹ کر ایک دائرے میں محدود ہوگیا۔ اس لیے ادب کی ترجمانی نہیں کرتا۔
2) یہ ادب ہی ہے جو قوموں کی تہذیب کرتا ہے، نئی نسل کو راستہ دکھاتا ہے لیکن افسوس کمرشلزم کے سیلاب نے بصیرت اور صداقت کا راستہ روک دیا۔ بہت کم لوگ ادب اور کمرشلزم میں فرق کرنے کا ادراک رکھتے ہیں۔
3) میں محسوس کرتی ہوں کہ یہاں ادب کی آبیاری کرنے والے بہت کم ہیں اور اس طرح یہ پارٹ ٹائم جاب بن کر رہ گیا۔ مگر اب بھی فطری اور حقیقی صلاحیتیں رکھنے والے بہت اعلیٰ ادب تخلیق کر رہے ہیں لیکن ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
4) تاریخ گواہ ہے کہ انقلابی شاعری تب وجود میں آتی ہے جب آزادیٔ رائے کی اجازت نہ ہو جیسے، مخلوق خدا کے حقوق سلب کیے جا رہے ہوں۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب اور مولانا مودودی اس کی درخشاں مثال ہیں۔
اب کوئی ایسی توانا آواز سنائی نہیں دیتی، ایک سناٹا ہے۔ جو شاعری تخلیق ہو رہی ہے وہ محل و بلبل، چاندنی اور میخانے سے ضرور آگے بڑھی لیکن صرف ذہنی آسودگی، کتابوں کی اشاعت اور مشاعروں میں شرکت تک محدود ہے۔ پیغام تو موجود لیکن اس کی سرایت اور پذیرائی کم ہوگئی ہے۔
5) میرے خیال میں نہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے نئی نسل کو صرف اسکولوں کے حوالے کردیا نہ نصاب کی خبر ہے ، نہ والدین کو ان کی فکر۔ افسوس تو یہ ہے کہ آج تک نصاب کا تعین نہیں ہو سکا۔ مختلف نصاب ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ غیر ملکی نصاب کس کا ایجنڈہ ہے؟ ہم اس نصاب کو نئی نسل میں منتقل کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں نئی نسل اپنی تہذیب سے کیسے جڑ سکے گی؟
فرحی نعیم (افسانہ نگار ، مصنفہ )
1) صحیح تو نہیں کہہ سکتے لیکن کسی حد تک معاشرے کے مسائل کو ضرور اجاگر کر رہا ہے۔ شہری اور دیہی مسائل لا تعداد ہیں، جن میں سے آج بھی بہت سارے مسائل پر کھل کر نہیں لکھا جا سکا۔
2 ) یہ نعرہ کہ ’’جو بکتا ہے وہ دکھتا ہے‘‘ نے تحریر کے معیار کو بری طرح متاثر کیا۔ ھل من مزید کی چاہت نے معیار پر سمجھوتا نہ ہونا، جیسے معاہدے کو پس پشت ڈالا اور ان موضوعات پر بھی کھل کر لکھنا شروع کیا جس پر ہماری مذہبی، سماجی واخلاقی حدود ہمیں روکتی ہیں جس کے باعث معاشرہ زوال پذیر ہو رہا ہے۔
3 ) میں سمجھتی ہوں کہ فی زمانہ تو کچھ ادیب پوری ذمہ داری سے یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں مگر اکثریت بے مقصد، لا حاصل اور بے نشاں منزل کے راہی بن کر قاری کا صرف وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں بلکہ افسوس ان کے اخلاق کی خرابی کی وجہ بھی یہی مواد ہے۔
4) ذاتی طور پر موجودہ شاعری میں انقلاب قطعی نظر نہیں آرہا ، اگر انقلاب آ بھی رہا ہے تو منفی اقدار میں۔
5) اوّل تو پڑھنے کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے اور ہم جو انہیں دے رہے ہیں اس سے وہ جڑ کم اور بھاگ زیادہ رہے ہیں۔ بجائے ہم ان کو اپنی تاریخ و تہذیب سے روشناس کرانے کے، ہم نے تو انہیں اس سے دور، بد گمان اور کنفیوز کردیا ہے۔ فرقہ پرستی نے ہوا دی اور ہماری نسل مغرب کے بچھائے جال میں قید ہو کر اپنے ماضی سے ناواقف، حال کی فکر اور مستقبل کو سنوارنے میں منہمک ہے۔ ایک طبقہ یہ کوشش کر تو رہا ہے۔ دیکھیں وہ بھی کب تک اس چہار جانب جنگ لڑتا ہے۔
…٭…
سروے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قلم کار چاہے وہ ادیب ہویا شاعر معاشرے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے مگر آج کا ادب ذمہ داری کو نبھانے میں مکمل کامیاب نظر نہیں آتا۔ ذاتی مقاصد، اونچے قد کی چاہ اور بھیڑ چال جیسی وجوہات نے تہذیبی زاویوں، خیالات اور رویوں کو پنپنے نہیںدیا مگر خوش کن پہلو یہ ہے کہ موجودہ ادب معاشرے کو مثبت سمت فراہم کرنے سے محروم نہیں اور ادیب چاہے تو معاشرے کو درست سمت میں ڈالنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

حصہ