حجاب فطرت ہے

344

حیا تو نظروں میں، دل میں ، دماغ میں ہوتی ہے ، مرد کی نظر میں ہونی چاہیے، مرد کے کردار میں ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ… ان کھوکھلی دلیلوں کے قابلِ قبول ہونے کے لیے فقط یہ وضاحت مطلوب ہے کہ آخر کیوں ہانڈی کو ڈھانک کر رکھا جاتا ہے؟ رقوم کو بینک اور زیور تجوری میں نئی گاڑی پر کپڑا کیوں ڈالا جاتا ہے۔ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز جو دنیا میں قیمتی مانی جاتی ہے اس کو کیوں کر پردہ کرا دیا جاتا ہے دوسروں کے دل دماغ یا نیت پر بھروسہ کر کے کھلے عام کیوں نہیں رکھا جاتا ؟
رب ذوالجلال نے بے شمار مخلوقات پیدا کیں۔ مرد و عورت ، جن ، فرشتے ، چرند پرند ، آبی و خلائی مخلوقات نہ جانے کیا کچھ ’’علم محدود تخلیق لا محدود‘‘ اور ان سب میں سے ایک صرف اور صرف ایک کو چھپ جانے ڈھک جانے با پردہ ہوجانے کا حکم دیا۔ گویا کوئی عام فہم بھی سمجھ سکتا ہے کہ رب نے عورت کو قیمتی بنایا اور اس قیمتی گوہرِ نایاب کو حجاب میں لپیٹ دیا جائے تو اس کی قدرو منزلت ہر بدنظر اور کم فہم پر عیاں ہوتی ہے۔
نئی نسل کو گمراہ کیا گیا کہ حجاب عورتوں کی ترقی میں حائل ہے، یہ عورت کے پُر اعتماد ہونے میں رکاوٹ ہے، سازش ہے۔ مسلم خواتین کے خلاف اگر اعتماد دیکھنا ہے تو اس حجابی وکیل کا دیکھو جو عدالت میں اپنے دلائل سے مخالف کے پسینے چھڑا دیتی ہے اور اس کی زبان نہیں لڑکھڑاتی۔
اس حجابی ڈاکٹر کا دیکھو ، جو آنے والی نسلوں کو موت کے منہ سے کھینچ لاتی ہے اور اس کے ہاتھ نہیں کانپتے۔ اس حجابی پائلٹ کو دیکھو، جو آسمان کا سینہ چیر دیتی ہے اور آنکھ میں خوف نہیں چھلکتا ۔ اس حجابی کوہ پیما کا دیکھو جو پہاڑ کی چوٹی سر کرتی ہے اور پاؤں میں لغزش نہیں آتی۔
اگر حجاب اتار کر‘ دوپٹہ اتار کر، کپڑوں کو مختصر کر کے خود کو ماڈرن منوانا مقصود ہے تو بچے ہوئے چند کپڑوں سے چھٹکارہ پا کر بے انتہا ماڈرن اَزم کا ثبوت کیوں نہیں دیا جاتا ؟ یقیناً حیا مانع ہے، حیا کی بچی ہوئی ، قلیل مقدار کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے روکتی ہے تو یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ’’حجاب‘‘ حیا اور بے حیائی میں تفریق کرتا ہے ، جو جتنا زیادہ باحیا وہ اتنا زیادہ با پردہ۔
اگر چہ باپردہ ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ حکمِ ربی ہے پھر بھی حجاب کی افادیت کو سمجھ لیا جائے تو بہتر ہے۔ موجودہ حالات میں جب انصاف کا فقدان ہے بہت سی خواتین کو ناگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بے پردہ خواتین کچھ بد نظروں کو آسان رسائی لگتی ہیں ایسے میں خواتین کا پردہ ان بد فطرت لوگوں کو ان کی حدود باور کراتا ہے۔
مردوں سے نگاہ نیچے رکھنے کا مطالبہ بر حق ہے لیکن کیا شیطان سے بھی یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے؟ انسان جب کسی اسکول کالج مدرسہ دفتر یا کسی بھی ادارے میں کام کرتا ہے تو وہاں کے اصول وضوابط اس پہ لاگو ہوتے ہیں۔ اگر وہ کسی بھی اصول سے انحراف کرے تو اس ادارے میں رہنے کا اہل نہیں رہتا تو پھر اپنی مرضی کا اسلام اپنا کر کیسے با عمل مسلمان رہا جا سکتا ہے؟ یا تو پورے کا پورا اسلام میں داخل ہوا جائے یا اسلام کی دی ہوئی مراعات مانگنے سے گریز کیا جائے۔
جتنی عزت و تکریم اسلام نے عورت کو دی اس کی نظیر ملنا ناممکن ہے۔ حجاب کو خود سے جدا کر کے خود کو بے قیمت کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟
کسی بد فطرت کی حرص و ہوس اور شیطان کی بد نظری سے حفاظت کے لیے حجاب کا کردار بہت معاون ہے۔ پردے کا حصار رسوائی سے بچاتا ہے۔
ہمارے ہاں عام تصور پایا جاتا ہے کہ برقع یا عبایا بڑی عمر کی خواتین کے لیے ہوتا ہے جب تک لڑکی زیرِتعلیم ہوتی ہے، بچی تصور کی جاتی ہے جب کے درحقیقت بلوغت کے بعد تو پردے کا اطلاق ہوتا ہی ہے پر اس کی ابتدا بچپن سے کرنا پڑتی ہے، جب معصوم شہزادیوں کو بغیر آستین اور بنا دوپٹے کے کپڑے پہنائے جاتے ہیں تو ان کے اندر سے فطری حیا ختم ہونے لگتی ہے۔ جیسے ساری زندگی میڈیکل کی تعلیم دلوا کر بچوں سے جہاز اڑانے کی توقع نہیں کی جاسکتی، ایسے ہی غیر فطری خطوط پر پرورش کر کے اولاد سے حیا داری کی توقع بھی عبث ہے۔ اپنی ننھی شہزادیوں کو بچپن ہی سے حجاب کی اہمیت سکھانی چاہیے تاکہ کوئی بھی طاغوتی سازش ان کو سیدھی راہ سے بھٹکا نہ سکے۔

حصہ