ـ11ستمبر:11رہنما اصولوں کی یاد دہانی کا دن

برصغیر ہند و پاک کی تاریخ میں قائداعظم ایک بے مثال رہنما تھے جن کی اہم ترین خصوصیات بے داغ کردار‘ نمود و نمائش اور ریاکاری سے دوری‘ صاف گوئی‘ جمہوریت پسندی‘ اصولوں کی پاسداری اور خودداری نمایاں تھیں۔ وہ ہر موقع پر ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولتے۔ جب حکومت کے جور و جبر‘ ظلم و زیادتی‘ استبداد و ناانصافی یا انسانی حقوق کی بات ہوتی تو اس وقت وہ شمشیر برہنہ بن جاتے اور بڑی سے بڑی ہستی کو خاطر میں نہ لاتے۔ مگر متانت‘ سنجیدگی اور شائستگی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ صوری اور معنوی دونوں خوبیوں میں اس وقت ہندوستان میں ان کا کوئی ہم پلہ قائد نہیں تھا۔
وہ ایک بے مثل وکیل‘ بے مثل پارلیمنٹرین‘ بے مثل لیڈر اور بے مثال انسان تھے۔ دوست دشمن سب ان کی صاف گوئی‘ ریاکاری سے پرہیز‘ نام و نمود سے عدم دل چسپی‘ خود اعتمادی‘ کم آمیزی‘ دوسروںکا احسان لینے سے احتراز‘ دوست دشمن کا لحاظ‘ چھوٹوں سے محبت بڑوں کا احترام اور کم حیثیت لوگوں کے ساتھ شفقت اور ہمدردی اور عزتِ نفس کا انہیں گہرا احساس تھا۔ حاضر دماغی‘ نفاست طبع‘ کفایت شعری‘ لین دین میں کھراپن‘ کھانے پینے‘ پوشاک و لباس‘ بات چیت واطوار و عادات‘ رہن سہن غرض کہ زندگی کے ہر رخ‘ ہر جہت میں وہ متانت و وقار کا پیکر تھے۔ وہ ہر بات کا خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے اور جب ایک بار کوئی فیصلہ کر لیتے تو پہاڑ کی طرح اٹل ہو جاتے۔ بڑی سے بڑی مشکل یا مصلحت ان کے پائے استقامت کو ڈگمگا نہ پاتی۔ اپنے اصولوں سے مکمل وابستگی اور عمل پیرائی کے سبب انہیں زندگی بھر کسی موقع پر ندامت نہیں اٹھانی پڑی۔ اپنے اصولوں میں انہوں نے کبھی رعایت روا نہیں رکھی۔ نہ دوسروں کے ساتھ نہ اپنے ساتھ منزل کے حصول کے لیے انہوں نے کبھی اپنی صحت کی پروا نہ کی کیوں کہ منزل کے قریب آکر یہ نحیف سالارِ قافلہ اپنی رفتار سست کرکے قوم کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلنا نہیں چاہتا تھا۔ پاکستان اس وقت ایک نوزائیدہ بچے کی طرح تھا جس کی تعلیم و تربیت کے لیے قائداعظم جیسے رہنما کی ہی ضرورت تھی۔ ان تھک محنت‘ لگاتار کام اور مسلسل مصروفیت نے ان کو تھکا کر کمزور کر دیا تھا۔ جہاں تک اپنے مقاصد میں کامیابی کے حصول کا تعلق ہے قدرت نے انہیں بے پناہ قوت اور توانائی ودیعت کی تھی۔
زندگی کے آخری دس برس کے دوران ان کی سیاسی سرگرمیوں اور ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ ان کی چہیتی بہن ان کی خراب صحت سے خوف زدہ ہو کر ان کو کم کام کرنے کا مشورہ دیتی تو وہ کہتے ’’کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کسی جنرل نے چھٹی کی ہو جب اس کی فوج میدانِ جنگ میں اپنا بقا کی جنگ لڑ رہی ہو۔‘‘ پھر مزید کہتے ’’فردِ واحد کی صحت کی کیا حیثیت رکھتی ہے‘ جب کہ میں ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی بقا کے بارے میں پریشان ہوں۔ کیا تم جانتی ہو مسلمان قوم کس خطرے میں ہے؟
ان کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی تھی‘ ان کی بھوک برائے نام رہ گئی تھی۔ وہ مسلسل کئی کئی راتوں تک بے خوابی کے عالم میں تکیے پر سر رکھے کروٹیں بدلتے رہتے اور جاگتے رہتے۔ ان کھانسی میں اضافہ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ حرات بھی زیادہ رہنے لگی تھی۔ مسلمانوں کے قتلِ عام‘ آبرو ریزی‘ آتش زنی اور لوٹ مار کی خبروں نے ان پر شدیداثرات مرتب کیے تھے۔ سربراہ مملکت کی حیثیت سے وہ مہاجرین کے لیے جو کچھ کر سکتے تھے انہوں نے کیا۔ ان درپیش مشکلات نے نہ صرف ان کے جسم بلکہ ان کے جذبوں اور ان کی روح تک کو تھکا دیا تھا۔ وہ ایک بار پھر بیمار ہو گئے۔ اس اثناء میں نومولود مملکت جس نے اپنا کام ملبے کے ڈھیر سے شروع کیا تھا‘ ذمہ داریوں کا بوجھ بدن پر بڑھتا چلا گیا۔ فائلوں کے ڈھیر بڑھتے گئے‘ ہدایات حاصل کرنے کے لیے سیکرٹریوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ایسے میں بیمار اور نحیف قائد کا آرام کرنا ناممکن تھا۔
یکم جولائی 1948ء کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کے موقع پر ان کی صحت بہت خراب تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ کوئٹہ سے کراچی کا سفر نہ کریں اور اپنی پہلے سے لکھی ہوئی تقریر کسی اور سے پڑھوا دیں۔ جس پر قائداعظم نے جواب دیا ’’تم جانتی ہو کہ کانگریس اور ہندو پیشن گوئی کر چکے ہیں کہ پاکستان ایک دیوالیہ ملک ہو گا اور یہ ہمارے لوگ تجارت‘ صنعت‘ بینکنگ‘ جہاز رانی اور انشورنس جیسے شعبوں کو نہیں چلا سکیں گے۔ چنانچہ ہمیں لازماً یہ ثابت کرنا ہے کہ ہمارے پاس نہ صرف سیاسی شعبے میں ٹیلنٹ ہے بلک مالیات اور بینکاری میں بھی باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے۔ لہٰذا میری وہاں موجودگی نہایت ضروری ہے‘ مجھے اپنا فرض ہر حال میں پورا کرنا ہے میں اسے ملتوی نہیں کرسکتا۔‘‘
14 اگست 1948ء کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے قوم کو آزادی کی مبادک باد کے ساتھ پیغام دیا ’’یاد رکھیے پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مجھے اپنی قوم پر پورا اعتماد ہے۔‘‘پاکستان کی پہلی سالگرہ کے فوراً قائداعظم کا بلڈ پریشر بہت کم ہو گیا۔ ان کے پیروں پر ورم آگیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کو دل اور گردوں کی کمزوری کا مرض لاحق تھا۔ کوئٹہ پہنچ کر انہوں نے اپنی صحت میں کچھ بہتری محسوس کی۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ روزانہ تقریباً ایک گھنٹے فائلوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر کا خیال تھا کہ ہر وقت اپنی صحت کے متعلق سوچتے رہنے کے بجائے زیادہ بہتر ہو گا کہ قائداعظم کے مستعد ذہن کو کام کی جانب مبذول کر دیا جائے۔ قائد بھی بہت خوش تھے اور انہوں نے اس آزادی کا بڑے مزے سے لطف اٹھایا اور ڈاکٹر سے کہا ’’میں آپ کو ایک کہانی سنائوں گا ایک عورت نے اپنے ڈاکٹر سے کہا وہ چل نہیں سکتی کیوں کہ وہ کئی ماہ تک بیمار رہی ہے اور بستر سے نہیں نکلی۔ ڈاکٹر نے کہا وہ صحت یاب ہو چکی ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ بستر سے نکل آئے اور چلنا شروع کر دے۔ ڈاکٹر کے تمام دلائل کے باوجود عورت نے انکار کر دیا۔‘‘
یہاں پر قائداعظم بے دَم ہو کر رکے‘ پھر گویا ہوئے ’’ اس کے بعد ایک اور ڈاکٹر آیا اور اس نے عورت کو بتائے بغیر ایک جلتا ہوا اسٹو اس کے بستر کے نیچے رکھ دیا۔ عورت نے محسوس کیا کہ اس کا بستر جلد شعلوں کی لپیٹ میں آجائے گا تو وہ جلدی سے چیختی ہوئی بستر سے نکل آئی۔‘‘ قائداعظم نے ڈاکٹر الٰہی بخش سے پوچھا ’’آپ یہی سلوک میرے ساتھ کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ قائداعظم بلا کے سگریٹ نوش تھے ان کے ڈاکٹر نے یہ کہانی سن کر صرف ایک سگریٹ رو زکی اجازت دی۔ مگر اس کا دھواں اندر نگلنے کی اجازت نہیں دی۔
1948ء میں انہوںنے عید الفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ’’صرف مشترکہ کوشش اور مقدر پر یقین کے ساتھ ہم خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکے ہیں۔ گزشتہ عیدالفطر جو قیام پاکستان کے فوراً بعد آئی تھی‘ مشرقی پنجاب کے المناک واقعات کے باعث ہمارے لیے اپنے ساتھ لانے والی خوشیاں کھو چکی تھی۔ گزشتہ سال کے خونی واقعات اور ان کے نتائج کے باعث لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان واقعات نے عدیم المثال قسم کی مصیبت کھڑی کر دی۔ بارہ ماہ کا مختصر عرصہ تمام مہاجرین کو‘ جو پاکستان میں آچکے تھے‘ منافع بخش روزگار مہیا کرنے کے لیے کافی نہیں تھا۔ ان کی بحالی کے لیے خاطر خواہ کام کیا جا چکا ہے مگر ان کی کافی تعداد کو بحال کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ ہم اس وقت تک خوشی نہیں منا سکتے جب تک ان میں سے ہر ایک دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو جاتا۔ مجھے پختہ یقین ہے اگلی عید تک یہ مشکل اور پیچیدہ مسئلہ حل کر لیا جائے گا اور تمام مہاجرین کو پاکستانی معیشت میں مفید شہریوں کی حیثیت سے جذب کر لیا جائے گا۔‘‘
مسلمان ممالک کے لیے انہوں نے فرمایا ’’مسلمان ممالک کے لیے پیغامِ عید دوستی اور خیر سگالی پر مبنی ہے۔ ہم سب ایک خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ طاقت کی سیاست کا ڈراما فلسطین‘ انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیلا جا رہا ہے۔ ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ صرف ایک متحدہ محاذ کے قیام کے ذریعے ہی ہماری آزاد دنیا کے ایوانوں میں سنی جاسکتی ہے۔ چنانچہ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اسے خواہ کوئی زبان دیں مگر میرے مشورے کی روح یہ ہے‘ ہر مسلمان کو دیانت داری‘ خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنا چاہیے۔‘‘
اگست کے آخری دنوں میں وہ ہر چیز سے بے نیاز نظر آنے لگے۔ انہوں نے کوئٹہ سے کراچی آنے پر اصرار کیا۔ انہوں نے اپنی بہن سے کہا ’’مجھے کراچی لے چلیے میں وہیں پیدا ہوا تھا وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں‘ مجھے اب مزید زندہ رہنے میں دل چسپی نہیں‘ میں جلدی جانا چاہتا ہوں۔‘‘ پھر قاائداعظم نے 11 ستمبر 1948ء کو دنیا کو خیرباد کہہ دیا مگر ان کے اصول ہمیشہ کے لیے پاکستانی قوم اور نئی نسل کے لیے رہنما ثابت ہو سکتے ہیں۔ نمود و نمائش سے دوری‘ دیانت داری‘ حق بات پر ڈٹے رہنا‘ قومی سرمائے کو امانت سمجھنا۔
ہندوستان کا وائسرئے لارڈ ریڈنگ قائداعظم کی صلاحیتوںکا معترف تھا۔ اس نے انہیں ہائی کورٹ کا جج بنانا چاہا۔ پھر وائسرائے کی کابینہ میں قانونی رکن کی حیثیت سے تقریر کی پیش کش کی مگر قائداعظم نے ٹال دیا پھر ایک دن بولے’’آپ سر محمد علی جناح کے بارے میں کیا خیال ہے۔‘‘ قائداعظم نے فرمایا ’’سر محمد علی جناح کے مقابلے میں یہ زیادہ پسند کروں گا کہ مجھے صرف محمد علی جناح کہا جائے۔‘‘ لارڈ ریڈنگ نے جناح صاحب سے مایوس ہو کر مسز رتی جناح کو اپنا ہمنوا بنانا چاہا۔ انہوں نے فرمایا ’’اگر جناح نے سر کا خطاب قبول کیا تو میں ان سے الگ ہو جائوں گی۔‘‘
قائداعظم نے ایک مرتبہ مسلم لیگی رہنما اور کھیلوں کے سرپرست احمد ای ایچ جعفر سے کہا ’’احمد میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے کئی بار میرے خلاف اسمبلی میں ووٹ دیا ہے مگر میں نے اس کا برا نہیں منایا۔ ووٹ دینا تمہارا حق ہے‘ جس طرح مناسب سمجھتے ہو اسے استعمال کرو‘ لیکن اگر تمہارا ذرا سا بھی گمان ہو کہ تم کوئی ایسا قدم اٹھا رہے ہو جو تمہارے ایقان سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس کے محرک جذبے میں کوئی کھوٹ ہے تو اس اقدام اس راہ سے بچو‘ میں نے ساری زندگی اس اصول پر عمل کیا ہے میں اس کی قطعاً پروا نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہتے ہیں یا کیا سوچتے ہیں۔ اگر تم نے میرے مشورے پر عمل کیا تو تم کندن ہو جائو گے‘ عہدوں کے پیچھے مت بھاگو عہدوں کو اپنے پیچھے بھاگنے دو۔‘‘
قائداعظم کے اے دی سی فلائٹ لیفٹیننٹ آفتاب احمد خان تھے ان کا بل دیکھ کر نصیحت کی ’’یاد رکھو پیسہ کمانا اتنا مشکل کام نہیں جتنا اس کو سلیقہ اور دور اندیشی سے خرچ کرنا‘ آفتاب سادگی سے رہنا سیکھو اور اپنے ذاتی مصارف کو ایک مناسب حد تک رکھو۔ یہ بھی اخلاقی ذمہ داری ہے۔‘‘نجی زندگی کی طرح عوامی زندگی میں بھی وہ روپیہ خرچ کرنے میں انتہائی احتیاط برتتے تھے‘ وہ قومی سرمائے کو ایک امانت سمجھتے تھے اور ایک پیسہ بھی بے جا خرچ کرنا ان کی نظر میں جرم تھا اور اس کا حساب کتاب بڑی احتیاط سے رکھتے تھے۔
قائداعظم سیاسی مصلحتوں کی خاطر جوڑ توڑ کے سخت خلاف تھے۔ اقتدار کی ہوس انہیں اپنے اصولوں سے منحرف نہیں کرسکتی تھی۔ وہ انتہائی اصول پرست تھے اور اس معاملے میں کسی مصلحت کے قائل نہیں تھے۔ وہ کھری بات کہتے چاہے کسی کو کتنی ہی گراں گزرے۔ انہوں نے اصول پسندی کا وہ اعلیٰ معیار قائم کیا جو قانون پیشہ حلقوں میں ایک مثال بن گیا سوائے ایک‘ دو مواقع کے انہوں نے کبھی کسی مقدمے کی مفت پیروی نہیں کی اور اپنی مقررہ فیس سے کم پر بھی کبھی راضی نہ ہوئے۔ ایک دفعہ کسی موکل نے احتیاطاً زیادہ رقم ان کے پاس جمع کر دی انہوں نے مکمل دیانت داری کے ساتھ اس میں سے اپنی فیس منہا کرکے بقیہ رقم واپس کر دی۔ اگر مقدمے کے سلسلے میں انہیں کسی دوسرے شہر جانا پڑتا تو وہ کوئی دوسرا کام نہ کرتے۔ ایک بار ایک مقدمے کے سلسلے میں آگرہ گئے۔ وہاں مسلم لیگی لیڈروں نے جلسے کا اہتمام کیا اور قائد سے تقریر کرنے کی درخواست کی۔ قائد نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ آگرہ ایک موکل کا مقدمہ لڑنے آئے ہیں جس کی وہ فیس ادا کر رہا ہے وہ اس میں خیانت کیسے کرسکتے ہیں۔ انہوں نے لیگی لیڈروںسے کہا کہ وہ جلسہ کریں لیکن چند دنوں بعد جس میں شرکت کے لیے اپنے خرچ پر آئیں گے۔
1941ء میں ناگپور میں مسلم اسٹوڈنٹش فیڈریشن کے ایک وفد نے شام کو ان سے ملاقات کا وقت لیا لیکن طلبا کچھ دیر سے پہنچے۔ قائداعظم نے وفد سے ملنے سے انکار کر دیا کہ وہ مقررہ وقت پر نہیں آئے تھے۔ اسی طرح ایک بار کچھ طلبہ کو ان کی درخواست پر تصویر کھچوانے کا وقت دیا گیا۔ انہیں پہنچنے میں دیر ہو گئی فوٹو گرافر نے گروپ ترتیب دے دیا تو قائد اعظم اندر سے تشریف لائے۔ گھڑی پر نظر ڈالی اور مسکراتے ہوئے یہ کہہ کر ’’آپ کو دیا ہوا وقت ختم ہوگیا‘‘ الٹے پیروں واپس چلے گئے۔ دونوں مواقع پر قائداعظم نے کسی خفگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان کا مقصد نوجوانوں کو وقت کی قدر سکھانا تھا۔
ان کی خوبیوں کا اعتراف ان کے مخالف بھی کرتے تھے۔ صاف گوئی‘ ریا کاری سے پرہیز‘ نام و نمود سے پرہیز و اجتناب‘ خود اعتمادی‘ وقت کی پابندی‘ جمہوریت پسندی‘ اصولوں کی پاسداری‘ خودداری‘ عزتِ نفس‘ یقین محکم‘ عمل پیہم کی خوبیوں نے ہی انہیں قائداعظم بنایا۔ آج نوجوان نسل کو قائداعظم کے انہی اصولوں پر چل کر پاکستان کو ایک مضبوط فلاحی ریاست بنانا ہے۔