فسطینہ نے کرب انگیز لہجے میں کہا۔ ’’امی جان! آپ کو میرے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ میں اپنے باپ کی عزت کے لیے اپنی جان پر کھیل جائوں گی۔ میں جانتی ہوں کہ میرا راستہ عاصم کے راستے سے مختلف ہے۔ لیکن اپنی ماں کے سامنے مجھے یہ کہتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اُسے بھول جانا میرے بس کی بات نہیں۔ کم از کم میں اُس کے متعلق اتنا ضرور سننا چاہتی ہوں کہ وہ زندہ ہے اور خوش ہے۔ کاش! میں صرف ایک بار اُسے دیکھ لوں‘‘۔
فسطینہ کی آواز سسکیوں میں دب کر رہ گئی۔ یوسیبیا نے اُسے کھینچ کر اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اُس کے سنہرے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’میری بیٹی! میری ننھی بیٹی! عاصم سے ہماری ملاقات ایک اتفاقی حادثہ تھا اور تمہیں اس حادثے کو اس قدر اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ تمہارے ابا جان کہتے تھے کہ وہ اپنے قبیلے سے کٹ چکا تھا لیکن اب کئی قبیلوں کے رضا کاروں کا سالار بننے کے بعد اُسے زندہ رہنے کے لیے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب شہرت اور ناموری کے سوا اُسے کوئی خواہش پریشان نہیں کرے گی۔ بیٹی! مجھے یقین ہے کہ اب اُس کے دل میں تمہارا خیال بھی نہیں آتا ہوگا‘‘۔
فسطینہ نے اپنی سسکیاں ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’امی! اگر آپ اور ابا جان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شہرت اور ناموری کے لیے ایران کی فوج میں شامل ہوا تھا تو آپ غلطی پر ہیں، آپ کو یقین نہیں آئے گا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ میری باتوں سے متاثر ہو کر ایران کی فوج میں شامل ہوا تھا۔ دمشق سے روانہ ہوتے وقت اُس کے دل میں اس کے سوا کوئی اور خواہش نہ تھی کہ میں اُسے ایک بہادر سپاہی کی حیثیت میں دیکھ کر اُس کی فتوحات اور کامرانیوں پر فخر کرسکوں۔ اب اگر وہ کسی لڑائی میں ہلاک ہوچکا ہے تو اس کا خون میری گردن پر ہے۔ اگر وہ زخمی ہوگیا ہے یا کہیں بیمار پڑا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اُسے کبھی نہ کبھی میری یاد ضرور آتی ہوگی۔ امی! مگر میں اُس کی غیرت کو نہ اُکساتی تو وہ کسی کی بھیڑیں چراکر بھی خوش رہ سکتا تھا۔ لیکن اُس وقت میں انجان تھی اس بات کا غرور تھا کہ میں شہنشاہ کے دوست کی بیٹی ہوں۔ میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ جسے میں اپنے دل میں جگہ دے چکی ہوں، ساری دنیا کی آنکھوں کا تارا بن جائے۔ وہ بہادر اور نیک انسان جس نے مصیبت کے وقت ہمارا ساتھ دیا تھا، گمنامی سے نکل کر شہرت و ناموری کی اُن بلندیوں پر پہنچ جائے کہ ایران کے مغرور امراء، یہاں تک کہ میرے ابا جان بھی اُس سے ہاتھ ملانے پر فخر محسوس کریں۔ لیکن اب مجھے جنگ کے تصور سے وحشت محسوس ہوتی ہے۔ میں شہرت و ناموری کے الفاظ سے چڑتی ہوں۔ میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ وہ عظیم ترین فتوحات حاصل کرنے اور ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد بھی شہرت و ناموری کے میدان میں ابا جان کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکے گا۔ اور ابا جان کی یہ حالت ہے کہ جب سے انہیں ایرانی فوج میں سب سے بڑا عہدہ ملا ہے، میں نے اُن کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ وہ صرف قسطنطنیہ کی فوج ہی سے نہیں بلکہ اپنے ضمیر سے بھی لڑ رہے ہیں۔ پھر جب میں آپ کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قدرت ہم سے مذاق کررہی ہے۔ امی جان! سچ کہیے، اگر ابا جان ایک عام آدمی کی طرح آزادی، بے فکری، امن اور سکون کی زندگی بسر کرسکتے تو آپ اِس قلعے کے بجائے ایک جھونپڑے میں رہ کر زیادہ خوشی محسوس نہ کرتیں؟‘‘۔
یوسیبیا نے جواب دیا۔ ’’میں یقیناً زیادہ خوشی محسوس کرتی۔ کم از کم میرے دل پر یہ بوجھ نہ ہوتا کہ میرا شوہر میری قوم اور میرے ہم مذہبوں کے قاتلوں کا سردار ہے۔ لیکن بیٹی! ہم اپنی تقدیر سے کیسے بھاگ سکتے ہیں؟ تم عاصم کے متعلق یہ کہہ سکتی ہو کہ وہ بھیڑیں چرا کر خوش رہ سکتا تھا لیکن سین کی بیٹی اور اُس کے درمیان جو سمندر حائل ہیں انہیں کون پاٹ سکتا ہے؟۔ فسطینہ اگر میرے اختیار میں ہو تو میں دنیا کی تمام مسرتیں تم پر نچھاور کردوں لیکن میں بے بس ہوں، ہم سب بے بس ہیں۔ تمہیں یہ بھول جانا چاہیے کہ وہ کبھی تم سے ملا تھا۔ سنو! باہر گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دے رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے تمہارے ابا جان آگئے ہیں‘‘۔
فسطینہ اپنے آنسو پونچھنے کے بعد سنبھل کر بیٹھ گئی صحن میں آدمیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد سین کمرے میں داخل ہوا، اور نڈھال ہو کر اپنی بیوی کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ ’’آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘۔ یوسیبیا نے پوچھا۔
اُس نے جواب دیا۔ ’’میں بہت تھک گیا ہوں۔ دشمن نے اچانک حملہ کرکے بحیرئہ مارمورا میں ہمارے کئی جہاز تباہ کردیے ہیں، اور ہمیں یہ نقصان پورا کرنے میں چند مہینے اور لگ جائیں گے لیکن پرسوں شہنشاہ کی ایلچی یہ حکم لے کر آیا تھا کہ ہم قسطنطنیہ فتح کرنے میں مزید تاخیر برداشت نہیں کریں گے۔ میں نے اپنی مشکلات بتانے کے لیے بذاتِ خود شہنشاہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی تھی لیکن میری درخواست یہ کہہ کر ٹھکرا دی گئی ہے کہ اگر تم ہمارے پاس آنا چاہتے ہو تو ہرقل کو پابہ زنجیر ساتھ لے کر آئو۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ شہنشاہ کے دربار میں میرے مخالفین کا پلہ بھاری ہورہا ہے۔‘‘
یوسیبیا نے کہا۔ ’’آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ ایرانی لشکر کے لیے آبنائے باسفورس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود جب آپ کو قسطنطنیہ فتح کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی تو آپ بہت خوش ہوئے تھے‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’اس وقت مجھے یہ اُمید تھی کہ ایک طویل عرصہ کے لیے قسطنطنیہ کے سامنے ہماری افواج کا اجتماع بالآخر رومیوں کو ہتھیار ڈالنے یا ہماری شرائط پر صلح کرنے کے لیے مجبور کردے گا۔ اور چند ناکامیوں کے بعد شاید خسرو بھی جنگ کو طول دینا سود مند خیال نہ کرے۔ لیکن شہنشاہ کے اصرار پر ہم نے مکمل تیاریوں کے بغیر گزشتہ چند حملوں میں جو نقصانات اٹھائے ہیں اُن کی وجہ سے رومیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور اب مجھے یہ بات بعید ازقیاس معلوم ہوتی ہے کہ وہ ہماری شرائط پر صلح کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ ادھر ہمارے شہنشاہ کی یہ حالت ہے کہ وہ میری طرف سے قسطنطنیہ کی فتح کی اطلاع کے سوا، کوئی اور بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ شہنشاہ کے عتاب سے بے پردا ہو کر اُن کے پاس پہنچ جائوں اور صاف صاف کہہ دوں کہ میرے اندازے غلط تھے، میں اِس ذمہ داری کا اہل نہ تھا لیکن پھر یہ سوچتا ہوں کہ وہاں مجھ پر درپردہ عیسائیوں کا طرف دار ہونے کا الزام عائد کیا جائے گا‘‘۔
یوسیبیا نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’میں جانتی ہوں یہ الزام آپ پر اِس لیے عائد کیا جائے گا کہ آپ کی بیوی اور بیٹی عیسائی ہیں۔ میں اِس مسئلے پر ایک مدت سے سوچ رہی ہوں کہ آپ نے صرف ہمیں محبوسی کاہنوں کے عتاب سے بچانے کے لیے اپنے ضمیر کے خلاف وہ کام کیے ہیں جن کی آپ سے توقع نہ تھی۔ اگر آپ کے سامنے ہمارے تحفظ کا مسئلہ نہ ہوتا تو آپ شاید اس جنگ میں شرکت کرنا بھی پسند نہ کرتے، کم از کم آپ کو اتنی آزادی ضرور ہوتی کہ آپ شہنشاہ کے سامنے صاف گوئی سے کام لے سکتے، اور اُسے اپنا نفع یا نقصان سمجھاتے وقت آپ کے دل میں یہ خدشہ نہ ہوتا کہ آپ کو عیسائیوں سے ہمدردی رکھنے کا طعنہ دیا جائے گا۔ میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ ہم آپ کے پائوں کی زنجیر بن گئے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ آپ حقیقت پسندی سے کام لیں‘‘۔
سین نے مضطرب ہو کر کہا۔ ’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا تم کیا کہنا چاہتی ہو‘‘۔
’’میرا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کے پائوں کی زنجیر بننا نہیں چاہتی۔ آپ کی بہتری اِسی میں ہے کہ میں آپ کو چھوڑ کر کہیں روپوش ہوجائوں اور آپ اپنے حریفوں کو مطمئن کرنے کے لیے یہ کہہ سکیں کہ آپ نے ایک عیسائی عورت کو اپنے گھر سے نکال دیا ہے۔ پھر آپ پر کوئی یہ اعتراض نہ کرے گا کہ آپ نے عیسائیوں کے ہمدرد ہونے کی وجہ سے قسطنطنیہ فتح نہیں کیا۔ قسطنطنیہ کی رگوں میں آپ کا خون ہے اور اِسے مجوسی مذہب اختیار کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘۔
سین کی حالت اُس شخص کی سی تھی جس پر بجلی گر پڑی ہو وہ چند ثانیے سکتے کے عالم میں اپنی بیوی کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر مضطرب ہو کر اچانک اُٹھا اور کچھ دیر کمرے میں ٹہلنے کے بعد یوسیبیا کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
’’یوسیبیا! میری طرف دیکھو‘‘۔ اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ یوسیبیا نے آہستہ سے گردن اٹھائی اُس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ سین کچھ دیر خاموشی سے اُس کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے کہا۔ ’’یوسیبیا! تمہارے دل میں یہ خیال کیسے آیا کہ دنیا کی کوئی خواہش یا کوئی کوئی مجھے تمہارا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ کرسکتا ہے۔ مگر تم حکم دو تو میں اِسی وقت شہنشاہ کو استعفاء بھیجنے کے لیے تیار ہوں۔ میں نتائج سے بے پروا ہو کر اس بات کا اعتراف کرنے کے لیے تیار ہوں کہ میں اس ذمہ داری کا اہل نہ تھا۔‘‘
خسرو کے اوالعزم سالار کے لہجے میں ایک شکست خوردہ انسان کی بے بسی یوسیبیا کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھی۔ اُس نے کہا۔ ’’آپ جانتے ہیں کہ میری زندگی اور موت آپ کے ساتھ ہے۔ میں ایک لمحہ کے لیے بھی آپ سے جُدا نہیں رہ سکتی‘‘۔
سین نے قدرے مطمئن ہو کر دوبارہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’یوسیبیا! تمہیں معلوم ہے کہ میں نے ایران کے امراء اور مذہبی پیشوائوں کی مخالفت کے باوجود قسطنطنیہ جانے کا خطرہ مول لیا تھا۔ اور قید کے بعد وہاں سے واپس آتے وقت مجھے یقین تھا کہ شہنشاہ ایران، ہرقل کی طرف سے صلح کی درخواست سنتے ہی خوشی سے اچھل پڑے گا لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ ابتدائی فتوحات نے پرویز کی ذہنیت تبدیل کردی ہے۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ پرویز کے طرزِ عمل سے مایوس ہونے کے بعد اُس کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کرنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ میں جانتا تھا کہ جو شخص روم کی عظیم سلطنت کو تباہ کرنے کا عزم لے کر گھر سے نکلا ہے، اُس کے لیے اپنے ایک ساتھی کو موت کے گھاٹ اتارنا مشکل نہیں۔ خسرو اور اُس کے مصاحبوں کے تیور دیکھنے کے بعد میرے سامنے اولین مسئلہ یہ تھا کہ میں ایرانی فوج میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کروں۔ مجھے امید تھی کہ چند سال یا چند مہینے کے بعد جنگ کے نقصانات شہنشاہ کو امن اور صلح کی باتیں سننے پر مجبور کردیں گے۔ اس لیے ایسے لوگوں کو اس کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے جو وقت آنے پر اسے خون آلود تلواروں کو نیام میں کرنے کا مشورہ دے سکتے ہوں۔ اگر مجھے یہ امید نہ ہوتی کہ میں شہنشاہ کا اعتماد حاصل کرکے کسی نہ کسی دن اُس سے اپنی بات منوا سکوں گا تو بھی میری بیوی اور بیٹی کی حفاظت کا مسئلہ ایسا نہ تھا کہ میں اُسے نظر انداز کرسکتا۔ میں جانتا تھا کہ اگر میری ہوا اکھڑ گئی تو تمہیں ذلت و رسوائی کے بھیانک گڑھے میں دھکیلنے کے لیے مجوسی کاہن کا یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ تم عیسائی ہو… تمہاری طرح شہنشاہ کی محبوب ترین ملکہ بھی عیسائی ہے لیکن کوئی اُس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ میری بھی یہ خواہش تھی کہ اگر کوئی متعصب مجوسی میری بیوی کی طرف انگلی اٹھانا چاہے تو اُس کے دل پر یہ خوف سوار ہو کہ اُس کا ہاتھ بازو سے الگ کردیا جائے گا۔ کمزوری اور بے بسی کے احساس کے تحت زندہ رہنا میرے نزدیک موت سے بدتر ہے۔ انسان کی ساری خواہشیں پوری نہیں ہوتیں۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میری بیشتر امیدیں خاک میں مل چکی ہیں۔ خسرو پرویز جسے کبھی میں اپنا بہترین دوست سمجھتا تھا وہ اب مجھ سے بہت دور جاچکا ہے۔ میرا خلوص، میری وفاداری اور میری عظیم ترین خدمات اُسکی نگاہوں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ قدرت نے اُسے انسانوں سے نکال کر اُن بے رحم دیوتائوں کی صف میں کھڑا کردیا ہے جو صرف حکم دینا جانتے ہیں۔ مجھے اگر کوئی اطمینان ہے تو یہ ہے کہ میں نے حتیٰ المقدور آگ اور خون کے اِس سیل رواں کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے مفتوحہ علاقوں کے ان گنت عیسائیوں کو بلاوجہ قتل ہونے سے بچایا ہے۔ اگر اس محاذ پر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو ایشیائے کوچک کے ہر شہر اور ہر بستی کی حالت انطاکیہ اور دمشق سے بھی زیادہ عبرتناک ہوتی۔ یوسیبیا! میں اِسکے سوا اور کچھ نہیں چاہتا کہ یہ جنگ جلد ختم ہوجائے اور جنگ ختم کرنے کی آسان ترین صورت یہی ہے کہ یا تو ہم قسطنطنیہ فتح کرنے کے قابل ہوجائیں اور یا خسرو یہ محسوس کرلے کہ یہ شہر ناقابل تسخیر ہے اور اُس کی بھلائی اسی میںہے کہ وہ اپنی سابقہ فتوحات پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائے۔ موجودہ حالات میں مجھے یہ توقع نہیں کہ ہم آئندہ دوچار برس تک بھی قسطنطنیہ فتح کرسکیں گے۔ لیکن میں اِس امید پر خسرو کے احکام کی تعمیل کرتا رہوں گا کہ کسی نہ کسی دن انسانی خون کے لیے اُس کی پیاس بجھ جائے گی۔ اور مجھے توقع ہے کہ جب تک ایسا وقت نہیں آتا میری شریکۂ حیات ہمت اور حوصلے سے کام لے گی‘‘۔
(جاری ہے)