وہی خواب آسماں کے

296

نام کا اثر تھا یا مقدر میں ہی کامیابیاں لکھوا کر لائی تھی کہ اسکول اور کالج کے ہر سطح کے ہر مقابلے میں کوئی نہ کوئی انعام اسے ضرور ملتا کئی مرتبہ تو ارادہ نہ بھی ہوتا لیکن انعام اسے پکارتا، اس کے پاس چل کر آجاتا، کبھی پرنسپل کی طرف سے پیغام ملتا فلاں کالج میں تقریری مقابلہ ہے‘ یہ موضوع اور تفصیلات ہیں تم تیار رہنا تو کبھی نوٹس بورڈ پر اسے مقابلے میں شرکت کرنے کی تلقین ہوتی۔
اوپر والے نے کچھ نہ کچھ اس کے اندر ایسا انمول خزانہ دبایا ہوا تھا کہ ہر مرتبہ عزت وقار میں اضافہ بھی ہوتا اور محبتیں بھی خوب سمیٹتی۔ لیکن یہ تو کلیہ قاعدہ ہے اس دنیا کا کہ دو ہنسانے والے ہوتے ہیں تو سو‘ رلانے والے۔ چار لوگ آپ کی کامیابی پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو چودہ مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہی فائزہ حسان کے ساتھ ہوا۔
دبی دبی زبان میں اس کے متعلق گفتگو ، ہر الزامات اور آخر میں تہمتوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ یہ سب اس کے ساتھ غیروں کی طرف سے نہیں بلکہ اس کے اپنے اردگرد کے پیاروں‘ اس کے ماں اور باپ کے قریبی رشتوں نے کیا۔
ایک موقع یہ بھی آیا کہ اسے بین الصوبائی قرأت کے مقابلے میں رحیم یارخان سے لاہور جانا پڑا، اسلامیات کی مس تسنیم عالم اور عربی کی زہرا قاضی ہمراہ تھیں۔ مردانہ اسٹاف میں سے بھی دو ایک ان سے پہلے ہی رحیم یارخان سے چل پڑے تھے قرأت کے مقابلے میں اس کی دوسری پوزیشن تھی سوشل میڈیا پر اس کے وڈیو کلپ خوب وائرل ہو چکے تھے۔ اس کے رحیم یار خان پہنچنے سے پہلے ہی پینا فیلکس اور بینرز پورے شہر میں آویزاں کیے جا چکے تھے‘ جیت کے نشے میں سرشار وہ شہر میں داخل ہوئی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسپورٹس کے سر عاطف بیگ کے ساتھ ان کی وڈیو کلپ کے ان کی برادری میں کیا معنی لیے جا چکے ہوں گے؟ وہی جو کسی بھی پاک باز عورت کو زندہ درگور کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں!
دبی دبی سرگوشیوں میں اس کی کردار کشی کی مہم اب با آواز بلند ڈسکشن کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ ماضی میں اگر وہ کسی لڑکے سے چار فٹ دور سے بھی گزری تھی تو اسے اس کا بوائے فرینڈ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا اور یہ سب مہم اس کے اپنے سگے چلا رہے تھے، جن کے وجود سے اسے نانی‘ دادی کی خوشبو آتی تھی وہی اس پر تہمت لگا کر گٹر کی بدبو بن چکے تھے۔ دکھ کی بات یہ ہوئی کہ دو چار مرتبہ اس کے والدین نے سب کو بیٹی کی حمایت میں کرارا جواب دیا پھر لہجہ بدلتے بدلتے آخر میں پھسپھسا سا اسلوب۔
دفاع کی پوزیشن تو اب تھی نہیں‘ سارا جتھا دوسری طرف اگر کوئی اس کا طرف دار بھی تھا ببانگ دہل نہیں مجرموں کی طرح!
فائزہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زندگی کا یہ رخ اتنا بدصورت اور مکروہ ہو سکتا ہے تعلیم مکمل ہوئی‘ قدرے معقول رشتہ دیکھ کر ماں باپ نے بھی اسے رخصت کیا۔
میکہ سے رخصتی اس کے لیے تکلیف دہ نہیں تھی ایک امید بلکہ یقین تھا کہ جن زہریلی باتوں کی سرسراہٹ اسے چوبیس گھنٹے بے سکون رکھتی تھی وہ اب سکینت میں ڈھل جائے گی۔
سسرال اس کی نارمل سی تھی نہ تو منہ پر تعریفوں کے پل باندھنے والے اور نہ ہی پیٹھ پیچھے بدخوئیاں کرنے والے۔ پلکوں پر بٹھانے کا دعویٰ کرنے والے نہ پائوں کی جوتی سمجھنے والے۔ اللہ کا کرم ہی تھا کہ اس کو اذیت دینے والی کوئی عادت دو ماہ میں تو اسے نظر نہیں آئی تھی بہرحال وہ ماضی کی تکلیف کو فراموش تو نہیںکرسکی تھی‘ گاہے بگاہے یاد آتا تو گھنٹہ بھر گم سم رہتی۔ اُسے اچھی طرح سے یاد تھا کہ عام دنوں جیسا دن تھا جب اس کی ساس نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر کے ہاتھ میں ڈائری اور قلم پکڑے کہیں جانے کی تیاری میں تھیں۔ اُسے بھی دعوت دی بے سوچے سمجھے اس نے جانے کی ہامی بھر لی۔ دو گلیاں چھوڑ کر وہ ایک بڑے سے گھر میں ساس کے ساتھ داخل ہوئی تو اسے معلوم نہیں تھا کہ اندر کی دنیا باہر کی دنیا سے کتنی مختلف ہوگی!
سفید چاندنیاں بچھائی گئی تھیں‘ بہت مؤدب انداز سے تذکیری گفتگو سن رہی تھیں وہ دونوں ساس بہو بھی جگہ بنا کر خاموشی سے بیٹھ گئیں چند منٹوں میں فائزہ پوری طرح سے متوجہ تھی۔ درس دینے والی کے لفظوں میں تاثیر تھی یا بتائی جانے والی آیات میں جادو‘ اس کا دل پانی بن گیا تھا پسلیوں سے بے قابو ہوتا دل بس یہی شور مچا رہا تھا ’’یہی حق ہے یہی سچ ہے۔‘‘
اس پروگرام کو ’’قرآن کلاسز‘‘ کا نام دیا گیا۔ بعد میں شرکائے مجلس سے سوال جواب بھی ہوئے جو ظاہر ہے کہ اس کے سر سے گزر گئے البتہ اس کی ساس پورے ذوق و شوق سے جواب دیتی رہی۔ توسیع منصوبہ، افرادی قوت جیسے الفاظ بھی کثرت سے استعمال ہوئے کچھ اعداد و شمار بھی جمع کیے گئے جس کا اس کے ناقص ذہن میں کوئی جواب نہ تھا۔ بہرحال اس کا تعارف ہوا‘ اس کی توقع سے کہیں زیادہ اچھے انداز میں استقبال ہوا اسے شاید کسی کا متعین بھی بنانے کا مشورہ دیا جا رہا تھا۔ چائے اور سموسوں کے ساتھ اس کی ساس کی لائی ہوئی مٹھائی بھی سب کو پیش کی گئی
اس کے بعد بہت جلد اسے پتا چلا وہ اس کائنات کا معمولی یا حقیر ذرہ نہیں بلکہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے سب سے قیمتی وجود ہے‘ اسے اس عارضی زندگی کے ہر کام اور ہر سانس کا جواب دینا ہے اور یہ کہ دنیا دارلجزا نہیں دارالعمل ہے۔
تھوڑے سے عرصے میں اس کی نشر و اشاعت کے لیے صلاحیتوں کا کھوج لگا کر اسے نگرانی کا کام دیا جا چکا تھا۔ چند مہینوں میں وہ مطالعہ کے لیے وقف رہی ایک کے بعد دوسری کتاب‘ ترجمہ‘ تفسیر کائنات کے اسرار و رموز اسے سمجھ آنے لگے تھے۔
کارکن امیدوار رکن سے رکنیت کا حلف اٹھانے کا مرحلہ اس کی زندگی کا مشکل ترین مرحلہ تھا۔ پورے گیارہ منٹ تیس سیکنڈ میں اُس نے حلف کی عبارت آنسوؤں سے تر حلق کی پھنسی آواز میں مکمل کی، اتنا تو وہ تہمت لگنے پر بھی نہیں روئی تھی ۔
وہ دین کے کام کے لیے وقف ہوگئی تھی‘ اپنے رب کے لیے اس کی مخلوق کی اصلاح کے لیے! اس نے علاقے کی نظامت بھی نبھائی اور نشر و اشاعت کے شعبے میں بھی بہت فعال تھی۔ کوئی دن ایسا اس کی زندگی میں اس کے بعد نہیں آیا تھا جب اس نے حق کی صدا کو بلند کرنے کے لیے قلم کو استعمال نہ کیا ہو۔ اس کا نام‘ اس کا کام اب اس کی شناخت تھا۔ اس نے ماضی کی تلخیوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا اور نہ ہی اس کے پاس اس کا وقت تھا۔ کبھی چھوٹی بہن یا سہیلی اس سے تذکرہ کرتی بھی تو وہ ہاتھ کے اشارے سے روک دیتی ’’نہیں دورِ جاہلیت کی یاد مت دلائو‘ قصور تو میرا تھا‘ اسپورٹس کے سر کے ساتھ کیوں وڈیو بنوائی لاحول ولا قوہ الا باللہ۔ اللہ مجھے معاف کرے، اچھا وہ تم نے فلاں اخبار میں فلاں کالم پڑھا؟‘‘ وہ گفتگو کا موضوع بدل دیتی۔
وہ دل سے احسان مند تھی شکر گزار تھی اپنے رب کی اپنی جماعت کی جنہوں نے اسے ضائع ہونے سے بچا لیا تھا! اسے جنت کمانے اور جہنم سے دور رہنے کے راستے پر ڈال دیا تھا کہ انبیا نے ورثہ میں یہی دیا تھا۔ کیا اس فانی دنیا میں کوئی اور چیز تھی چھوڑے جانے کے قابل؟ جو مخلوق خدا کو عرشوں تک لے کے جائے !! فی الوقت تو قرار، سکینت اور محبت کا جائے مرکز وہی اجتماعیت تھی جس نے ماں کی محبت باپ کی شفقت دی اور اپنے پیاروں سے بڑھ کراسے تھاما اور بے مقصد زندگی کا با مقصد راستہ متعین کردیا ۔

حصہ