بچے مختلف ذہنی صلاحیت رکھتے ہیں

393

اگر چہ بعض بچے تعلیم کے ابتدائی مدارج میں اپنی ذہنی کارکردگی کا لوہا منوا لیتے ہیں۔ تاہم جہاں تک آئی کیو لیول کی بات ہے تو اس خام خیالی سے نکل جانے کی ضرورت ہے کہ مروجہ تعلیمی نصاب میں سند امتیاز پانے والا ہی آئی کیو کے لحاظ سے ممتاز ہے۔ ذہانت اور ذہنی کارکردگی کو مخصوص پیمانے سے جانچنا درست نہیں اور نہ ہی اس کے نتائج کو سند کا درجہ دیناچاہیے۔ ضروری نہیں کہ ہر بچہ ہر میدان میں اپنا لوہا منوا سکے۔
حافظ، قرآن والدین کا بچہ عموماً حفظ کے میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دیتا ہے تو شاعری کے دلدادہ والدین کا بچہ شعر و ادب اور بیت بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کچھ بچے فطرتاً آزاد ماحول کے گرویدہ ہوتے ہیں اور لیڈر بننے کے لیے پیدا ہوتے ہیں، میر، کارواں بننے والے مستقبل کے ان افراد کو جب رسمی تعلیم کے گرداب میں جبری طور پر دھکیلا جاتا ہے تو نتائج عموماً خوشگوار نہیں ملتے۔ لہٰذا مستقبل کے معماروں پر بے جا تنقید کر کے ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو زنگ نہ لگائیں۔ آپ بچے کی دل چسپی کے میدان کا اندازہ نہیں کر پا رہے تو کم از کم ایک مخصوص تعلیمی دوڑ میں نمایاں پوزیشن لانے کے لیے ان پر دباؤ بھی نہ ڈالیں۔ نیز دو مختلف دائرہ کار میں ذمہ داری ادا کرنے والوں کو ایک ہی نسخے پر تیار نہ کریں۔ ورنہ بچوں کو مادّی سہولیات تو مل جائیں گی لیکن وہ شعور سے بے بہرہ ہی رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ اس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی جائے یا توتے کی طرح پَر کاٹ کر محدود دائرے میں آزادی دی جائے، بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ مروجہ تعلیمی نظام میں اگر بچہ خود کو ڈھال نہیں پا رہا تو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں، ایسا نہیں کہ آپ کا بچہ نالائق ہے بلکہ اُسے اس کی دل چسپی اور رحجانات کے برعکس تعلیم دی جا رہی ہے ، وہ اپنے آپ کو بند پنجرے میں محسوس کرتا ہے اور اپنے رحجانات کے میدان میں پرواز کے لیے اس کی آزاد فطرت اسے مضطرب رکھتی ہے۔ لہٰذا بچوں کو اعتماد دیں ،ان کی حوصلہ شکنی ، دل آزاری سے بچیں۔
آپ سے یہ امر بھی پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے کہ پڑھے لکھے نوجوان بھی شدید اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں، زندگی کے کئی قیمتی سال رسمی تعلیمی اداروں میں لگانے والے نوجوان کے تو گویا پَر بھی کاٹ لیے جاتے ہیں‘ وہ بلند پرواز کر ہی نہیں سکتا، بزدلی اس کی طبیعت کا خاصا ہوتی ہے۔ وہ ایک محدود دائرے میں رہ کر سوچتا ہے اور عموماً اس کی سوچ کمانے تک ہی محدود ہوتی ہے۔
باصلاحیت بچوں کو تذبذب سے نکالنے کے لیے بارش کا پہلا قطرہ بنیں۔ انھیں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اور ہنر کو چمکانے اور منوانے کے لیے مواقع دیں، سہولت دیں۔ سہولت نہیں دے سکتے تو تنقید سے ان کا اعتماد مجروح ہونے سے بچائیں۔
سب کو ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، جج ہی نہیں بننا ہوتا۔ یوں بھی با صلاحیت افراد کے لیے کمائی اہمیت نہیں رکھتی۔ لہٰذا بچوں کو ان کی دل چسپی اور رحجان کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع دیں، دوسرے بچوں سے ان کا موازنہ نہ کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نشان منزل کی طرف ان کی رہنمائی کر دیں… منزل کے حصول کی جستجو ان کو کامیاب بنادے گی۔ ان شاء اللہ۔

حصہ