لباس میری پہچان

281

’’اریبہ ! میرا کام کردو پلیز۔‘‘ عاشی ملتجی لہجے میں اریبہ سے مخاطب ہوئی۔ اریبہ نے ایک نظر عاشی پر ڈالی اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
’’سن نہیں رہیں؟ پلیز لکھ دو نا… تمھارے لیے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ بمشکل پندرہ، بیس منٹ میں شاہکار تیار۔‘‘ عاشی نے منت کی اور ساتھ تھوڑا مکھن بھی لگایا۔
’’تقریر تو تیار ہو جائے گی لیکن پُراثر تب ہی ہوگی جب کہنے والا بھی اس پر عمل کرے۔‘‘ اریبہ نے ٹی شرٹ اور چست جینز میں ملبوس، دوپٹے سے بے نیاز عاشی پر چوٹ کی۔
’’تم اس کی فکر نہ کرو۔ میری ادائیگی تمھاری تحریر سے زیادہ جان دار ہوگی۔‘‘ عاشی نے پُر اعتماد لہجے میں کہا۔
’’بس تم نے میرا یہ کام کرنا ہے۔‘‘ عاشی نے جیسے حتمی فیصلہ سنا دیا اور یہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
اریبہ اورعاشی سگی بہنیں تھیں لیکن دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ذہین تو دونوں ہی تھیں پر اریبہ کے مزاج میں سنجیدگی اور بردباری تھی۔ وہ ایک سادہ، مہذب اور حساس لڑکی تھی جب کہ عاشی بالکل اس کے برعکس تھی۔ گھومنا پھرنا، بننا سنورنا اور تفریح ہی اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ کالج کے ہر فنکشن میں اس کی شرکت لازمی سمجھی جاتی۔ کالج میں ’’ہفتہ طلبہ‘‘ کے سلسلے میں تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ ’’حیا اور حجاب‘‘ کے موضوع پر تقریری مقابلہ منعقد کیا جا رہا تھا جس میں عاشی کا شریک ہونا لازمی تھا۔ اس کا لب و لہجہ اور انداز ہی ایسا ہوتا کہ ہال تالیوں سے گونجتا رہتا‘ لیکن تقریر بہرحال اس کی اپنی نہ ہوتی۔ اس کی تخلیق کار اریبہ ہی ہوتی لیکن اریبہ میں صرف لکھنے کی صلاحیت تھی۔ اس میں اتنا اعتماد نہ تھا کہ اتنے بڑے مجمع کے روبرو اپنے جذبات کو الفاظ میںڈھال کر دوسروں تک پہنچا سکے۔ وہ اپنے دل کی سچائی کو صرف کاغذ پر منتقل کر پاتی پر زبان سے اس کا اظہار اس کے بس کا نہ تھا۔ اس کے الفاظ میں رنگ بھرنا عاشی کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ یہ الفاظ وہ جادوئی اثر رکھتے جو سیدھے سامع کے دل میں اترتے۔
معاشرے میں بڑھتی بے حیائی خاص کر لڑکیوں میں بی حجابی کے رحجان کو مدنظر رکھتے ہوئے، اریبہ نے اس موضوع پر خوب کھل کراپنی رائے کا اظہار کیا اور دلائل کے ساتھ ایک مسلم ملک میں اس کی اہمیت اور اسلامی تہذیب اور رواداری کے اثرات پر قلم اٹھایا۔ تقریر پڑھ کر عاشی دل ہی دل میں اریبہ کی اس قابلیت کو داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔
کالج میں خوب گہما گہمی تھی۔ اپنے مزاج کے برعکس ساتر مشرقی لباس اور حجاب میں عاشی کا چہرہ بہت پُرنور نظرآ رہا تھا۔
’’ماشاء اللہ عاشی! تم تو ہر روپ میں حسین نظرآ تی ہو۔‘‘ فضا نے اس کے پُرکشش چہرے کو دیکھتے ہوئے توصیفی انداز میں کہا تو وہ شان بے نیازی سے مسکرا دی۔
تقریری مقابلہ شروع ہو چکا تھا۔ مقررین ’’حجاب‘‘ کے موضوع پر اپنے دلائل پیش کر رہے تھے۔ ’’عاشی مرتضیٰ‘‘ اپنا نام پکارے جانے پر وہ باوقار انداز میں چلتی ہوئی ڈائس پر پہنچی۔ پُر اعتماد لہجہ‘ بہترین الفاظ کا چناؤ اور پُرجوش اظہار رائے۔ سامعین داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
’’جناب صدر! معاشرے کی تیزی سے بدلتی روایات بالخصوص حیا کی کمزور پڑتی قدروں، حیا اور شائستگی کی جگہ بے باک اور بولڈ روئیے پر دل دکھ کر رہ جاتا ہے۔ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہنے والے مسلمان ہیں۔ ہماری سوچ، رہن سہن، رسم و رواج اور تہوار اسلامی ملک کی عکاس ہونی چاہیے لیکن آج کے دورمیں ہمیں ہر جگہ مغربی انداز و اطوار کی جھلک نظر آتی ہے۔ ہمارا رہن سہن، بول چال، لباس سب مغرب زدہ ہوگئے ہیں حتیٰ کہ ہم اپنی تہذیب کو بھول کر غیر مسلموں کے اطوار اپناتے جا رہے ہیں۔ حجاب کی تہذیب مسلمانوں کے عقائد کی آ ئینہ دارہے۔ حجاب کوئی سر پر رکھے جانے والے کپڑے کے ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ اسلامی معاشرتی نظام میں حیا اور حجاب ایک مجموعہ احکام کا نام ہے۔ یہ ایک پاکیزہ معاشرے کی بنیاد ہے، عورت کی توقیر اور خاندان کے تحفظ کا باعث ہے۔ حیا سے دوری انتشار، بے سکونی اور فساد کا باعث ہے۔ حجاب کی تہذیب مسلمان مرد کا شعار اور عورت کی پہچان ہے۔ حیا عورت کا زیور ہے۔ لباس اس کے جسم کی حفاظت یا ستر پوشی ہی نہیں کرتا بلکہ قومی تہذیب و تمدن اور روایات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔‘‘ عاشی پُر زور انداز میں بولتی چلی گئی اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
نتیجے کا اعلان ہوا تو وہ پہلے انعام کی حقدار ٹھہری۔
’’آپ جیسی خیالات کی بیٹیاں جس قوم میں ہوں، وہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتیں۔‘‘مشہور سماجی شخصیت، باحجاب مسز شہباز کے ٹرافی دیتے ہوئے یہ الفاظ لاابالی عاشی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے تھے لیکن اریبہ کے لیے واقعی بہت بڑا اعزاز تھا۔ عصرانے کے دوران بھی مسز شہباز نے عاشی کو بلا کر اس کی تقریر کو سراہا۔ تقریب کے اختتام پر جب عاشی اور فضا کالج سے نکلیں تو پارکنگ میں کھڑی شاندار گاڑی میں روانہ ہوتی ہوئی مسز شہباز کی نظر اس پر پڑی۔ انھوں نے ساتھ بیٹھے نوجوان سے کچھ کہا جس نے ان کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے گاڑی آ گے بڑھا دی۔
’’لگتا ہے مسز شہباز کو تم زیادہ ہی پسند آ گئی ہو۔‘‘ فضا نے شرارت سے عاشی کو چھیڑتے ہوئے کہا تو وہ سر جھٹکتے ہوئے وین میں سوار ہو گئی۔
’تمھاری تقریر نے تمھارے سخت دل پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں کیا۔‘‘ سالگرہ پارٹی میں جانے کے لیے نوک پلک سنوارتی عاشی سے اریبہ نے بڑے تاسف سے پوچھا۔
’’اپنے الفاظ کے سحر میں تم خود ہی کھوئی رہو۔ میری بھولی رانی!‘‘ عاشی نے قد آور آئینے میں اپنا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ کھلتے سرخ رنگ کی ٹی شرٹ کے ساتھ چست کالی ٹائٹز، گہری سرخ لپ اسٹک لگائے وہ واقعی بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ شانوں تک کٹے سنہرے بالوں کو وہ سیٹ کر ہی رہی تھی کہ گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔
’’اریبہ! پلیز گیٹ پر جا کر عائزہ سے کہہ دو کے میں بس پانچ منٹ میں آرہی ہوں۔‘‘
اریبہ نے غصے سے عاشی کو دیکھا اور سرپر دوپٹہ جماتے ہوئے باہر کا رُخ کیا۔ اس نے گیٹ کھولا اورعائزہ سمجھ کر عاشی کا پیغام پہنچانے والی تھی کہ سامنے ایک خاتون کو کھڑے پایا۔ آنے والی نے عاشی سے مشابہ ہکا بکا سی لڑکی کو کھڑا دیکھا تو مسکرائیں اور اپنا تعارف کروایا۔
’’میں مسز شہباز ہوں اور مسز مرتضیٰ سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’آ…آ… آئیے تشریف لائیے۔‘‘ اریبہ نے انہیں اندر بلاتے ہوئے کہا۔ ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر وہ امی کو بلانے چلی گئی۔
’’السلام علیکم، میں اپنے بیٹے کے رشتے کے سلسلے میں حاضر ہوئی تھی۔‘‘ مسز شہباز نے عاشی کی والدہ سے مصافحہ کرتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد فوراً ہی بیان کر دیا۔
’’ماشاء اللہ آپ کی باحیا اور باحجاب بچیوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ آپ کی بیٹی عاشی سے تو میں پہلے ہی کالج میں مل چکی ہوں اور دوسری بیٹی سے ابھی ملی ہوں۔ ویسے تو میں عاشی کے لیے یہاں آئی تھی لیکن میں آ پ کی دونوں بیٹیوں کو اپنی بہو بنانا چاہوں گی۔ آ پ نے انھیں باہر نکلنے کے آداب اور باحجاب تہذیب ہی نہیں بلکہ گھر کے اندر بھی ستر، حیا اور لباس کا سبق سکھایا ہے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے مسز شہباز لیکن میری چھوٹی بیٹی عاشی…‘‘مسز مرتضیٰ کچھ کہتے ہوئے ہچکچائیں۔
’اگر آپ کم عمری کی وجہ سے عاشی کی شادی نہ کرنا چاہیں تو ہم اس کی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار کر لیں گے۔‘‘ مسز شہباز نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’‘کون آیا ہے؟‘‘ اونچی ہیل پہن کر کھٹ کھٹ کرتی باہر جاتے جاتے ڈرائنگ روم سے آتی آوازوں میں اپنا نام سن کر عاشی نے چونکتے ہوئے اریبہ سے پوچھا جو مہمان کے لیے چائے بنا رہی تھی۔اس نے ڈرائنگ روم کے دروازے سے اندر جھانکا۔’’ مسز شہباز یہاں…؟ کیا فضا واقعی ٹھیک کہہ رہی تھی؟‘‘
’’آپ جیسی مائیں قابلِ تحسین ہیں جو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرتی ہیں، پاکیزہ گودوں میں پروان چڑھنے والی نسلیں بھی یقیناً پاکیزہ ہوتی ہیں۔ آج کل کی کالج یونیورسٹی کے طالب علم اپنے لباس کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے دوسری قوم کے لباس و طرز معاشرت کو اختیارکرنا، اپنے آپ کو روشن خیال اور ماڈرن ثابت نہیں کرتا بلکہ یہ دراصل احساس کمتری کا نتیجہ ہے یعنی نئی نسل اپنے آپ کو ذلیل و پست سمجھتی ہے کہ اس کے پاس اپنا کچھ نہیں جس پر وہ فخرکر سکے۔ اس لیے مغرب سے مرعوب ہو کر لباس کم سے کم اور حسن و زینت نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ حیا اور حجاب کی جو تہذیب آپ نے اپنے بچوں کو سکھائی ہے، وہ ان کے ذہن میں ہی نہیں بلکہ ان کے سراپے میں بھی نظر آ رہی ہے۔‘‘مسز شہباز کی باتیں سن کر اریبہ کا سر فخر سے بلند ہو رہا تھا۔
’’کیوں نہ چائے تم ہی اندر دے آ و۔‘‘ اریبہ نے اس کے سراپے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا تو عاشی کا سر ندامت سے جھکتا چلا گیا۔

حصہ