نئی نسل اور عملی زندگی

627

کسی بھی ماحول میں ہمیں بہت کچھ خود بہ خود ہوتا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ کیا واقعی وہ سب کچھ خود بہ خود ہو رہا ہوتا ہے؟ یہ سوال ہر اُس انسان کے ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے جو ماحول اور اپنی زندگی کے تعلق کو اچھی طرح سمجھنا چاہتا ہے تاکہ زندگی کا معیار بلند کرنے میں خاطر خواہ مدد ملے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کام خود بہ خود نہیں ہوتا۔ کسی بھی ماحول میں جو کچھ بھی ہو رہا ہوتا ہے وہ افکار و اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہر انسان کی سوچ کسی نہ کسی عمل کی طرف لے جاتی ہے اور ہر عمل کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور ہوتا ہے۔ ہاں، بعض معاملات میں نتائج ہماری مرضی اور منشا کے خلاف نکلتے ہیں۔ کسی اور کے افکار و اعمال بھی ہم پر، ہماری زندگی پر، ہماری نفسی ساخت پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہی ہیں۔ دوسروں کے افکار و اعمال سے پیدا ہونے والے منفی نتائج سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ ہم فکری سطح پر متحرک رہیں اور خود کو عمل کی دنیا سے بھی دور نہ رکھیں۔
ہم نے دیکھا کہ کسی بھی معاشرے یا ماحول میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ مختلف سطحوں پر پائے جانے والے افکار و اعمال کے تفاعل یا تصادم کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ سوچنے پر توجہ دی جائے اور عمل کو بھی اُس سے ہم آہنگ رکھا جائے۔ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ جیسی سوچ ہو ویسا ہی عمل ہونا چاہیے۔ جب کسی کے افکار و اعمال میں نمایاں حد تک ہم آہنگی پائی جاتی ہے تب ہی ڈھنگ سے جینے کی راہ نکلتی ہے۔
ہم پوری زندگی ‘زندگی کے دو پہلوؤں کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں۔ ایک پہلو ہے نجی زندگی اور دوسری ہے عملی، معاشی اور معاشرتی زندگی۔ ہر ماحول میں کامیاب وہی رہتے ہیں جو اپنے نجی معاملات کو معاشی و معاشرتی زندگی سے ہم آہنگ رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں توازن انتہائی بنیادی شرط ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، عمل کے بازار میں صرف تدبر، لگن اور محنت کا سکہ چلتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں کامیابی اُسی وقت نصیب ہوتی ہے جب انسان زندگی کے تمام معاملات میں توازن پیدا کرتے ہوئے چلتا ہے۔ دانش یہ نہیں کہ انسان صرف کمانے پر توجہ دے اور دانش یہ بھی نہیں کہ انسان کمانا دھمانا بھول کر دوسروں کی زندگی میں بہت زیادہ دلچسپی لیتا پھرے، اپنے وجود کو بھول ہی جائے۔ زندگی کے کئی رنگ ہیں اور ہر رنگ دل کش ہے۔ ہمیں زندگی کے رنگوں کو محض شناخت کرنا ہی نہیں بلکہ اُن کے تقاضے نبھانا بھی آنا چاہیے۔
ترقی یافتہ معاشروں کا بغور جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی ترقی، خوش حالی اور چمک دمک کا بنیادی راز یہ ہے کہ انہوں نے معاملات کو متوازن رکھنا سیکھا ہے۔ لوگ اپنی نجی زندگی کو بھی سمجھتے ہیں اور عملی زندگی کے تقاضوں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ اول تو وہ ان دونوں معاملات کو آپس میں گڈمڈ نہیں کرتے اور اگر ایسا ہو رہا ہو تو غیر معمولی احتیاط سے کام لیتے ہوئے معاملات کو درست کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں زندگی کے مختلف رنگوں اور پہلوؤں کو الگ الگ دیکھنے، سمجھنے اور اُن کے تقاضے نبھانے کی ضرورت کبھی محسوس ہی نہیں کی گئی۔ یہی سبب ہے کہ تمام معاملات الجھے ہوئے دکھائی ہی نہیں دیتے بلکہ الجھے ہوئے ہیں اور سلجھنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جارہا۔
پاکستانی معاشرے میں بھی ایسے بہت سے معاشرتی عیوب پائے جاتے ہیں جو دنیا بھر کے پس ماندہ معاشروں کی خاص پہچان بن چکے ہیں۔ سوچنے پر مائل ہونے والوں کی تعداد اُتنی بھی نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے۔ زندگی کو سنجیدگی سے برتنے کا رجحان رکھنے والے خال خال ہیں۔ جو لوگ اپنے اور دوسروں کے معاملات کے بارے میں تھوڑا بہت سوچتے ہیں اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ بھی یہ سب کچھ سطحی اور قدرے میکانیکی انداز سے کرتے ہیں۔ زندگی ہم سے بھرپور سنجیدگی چاہتی ہے۔ سوچنے کی عادت پختہ ہو تو انسان اپنے اور دوسروں کے معاملات کو درست رکھنے کے بارے میں سوچتا ہے اور زندگی کو وہ دل کشی بخشتا ہے جس کی اُسے ضرورت ہوتی ہے۔
آج کا پاکستانی معاشرہ بہت سے، بلکہ بیشتر معاملات میں انتہائی غیر منظم اور منتشر ہے۔ لوگ محض جی رہے ہیں، قابلِ رشک انداز سے زندگی بسر کرنے کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ زندگی کے بنیادی تقاضوں کے بارے میں سوچنا تو دور کی بات رہی، اُن کا احساس تک مٹ چلا ہے۔ اب تو عمومی سطح پر لوگوں نے یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ ڈھنگ سے جینے کے لیے سوچنا پڑتا ہے، منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے، عمل کو فکر سے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے۔ لوگ اِن تمام مراحل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے جی رہے ہیں۔ اِسے زندگی کا کون سا درجہ قرار دیا جاسکتا ہے یہ تو نفسی اور عمرانی امور کے ماہرین ہی بتاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جس میں اہم ترین امور کو نظر انداز کرکے انتہائی عمومی اور قدرے غیر اہم و غیر متعلق امور کو گلے لگالیا گیا ہے۔ لوگ مرتے دم تک غیر متعلق امور میں الجھے رہتے ہیں اور اِس حوالے سے کبھی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے، احساسِ زیاں بھی اُنہیں نہیں ستاتا۔
کسی بھی معاشرے کے لیے حقیقی اُمید نئی نسل ہوتی ہے۔ نئی نسل ہی کے ذریعے معاشرے آگے بڑھتے ہیں۔ سوال صرف نسل کے آگے بڑھنے کا نہیں بلکہ عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا حق ادا کرنے کا بھی ہے۔ معاشرے کو پنپنے کے لیے جس نوعیت کی محنت درکار ہوتی ہے وہ نئی نسل ہی کرسکتی ہے۔ معاشروں کے لیے سیکھنا اور علمی و تربیتی سطح پر پنپنا بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ اِس مرحلے سے بھی نئی نسل ہی بخوبی گزرتی ہے اور معاشرے کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
نئی نسل معاشرے کے لیے کیا کرسکتی ہے یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ نئی نسل کو ہم ڈھنگ سے جینے کے قابل بننے میں مدد دے بھی رہے ہیں یا نہیں۔ آج کا پاکستانی نوجوان بہت سے ایسے معاملات میں الجھا ہوا ہے جن کا اُس کی عمر، فکر اور عملی زندگی کے فوری تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بہت سی قبیح عادات نے ہمارے نوجوانوں کو بُری طرح گھیر رکھا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ اِس گھیرے کو توڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ اُنہیں موزوں راہ نمائی بھی میسر نہیں۔ وہ بہت سے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں اور اس معاملے میں کچھ زیادہ قصور وار یا ذمہ دار بھی نہیں۔ بعض اہم معاملات میں والدین اور خاندان کے بزرگ نئی نسل کے حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھانے سے گریز کر رہے ہیں۔ اُن کے ذہنوں میں یہ بات گھر کرگئی ہے کہ اگر کسی کو کچھ بننا ہوگا تو خود بن جائے گا اور اگر کچھ کر دکھانا ہوگا تو کر دکھائے گا۔ زندگی کے حوالے سے عمومی تاثر یہ بن گیا ہے کہ یہ اپنا راستہ خود بناتی ہے اور نوجوانوں کو مواقع بھی دیتی ہے۔ مواقع والی بات درست ہے۔ زندگی ہر انسان کو متعدد مواقع عطا کرتی ہے۔ اگر وہ ذہن سے کام لے، منصوبہ سازی کرے، معاملت میں درست راہ پر گامزن ہو تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔
نئی نسل کے لیے مواقع ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں۔ اُس میں توانائی بھی ہوتی ہے اور کام کرنے کی لگن بھی۔ جس نے عملی زندگی ابھی شروع ہی کی ہو وہ اپنے آپ کو مستقبل کے لیے ڈھنگ سے تیار کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ عنفوانِ شباب میں انسان بہت کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتا ہے۔ اُس کے قوٰی مضبوط ہوتے ہیں۔ وہ آسانی سے ہار نہیں مانتا۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی چیلنج اُس کے حوصلوں کو آسانی سے پست نہیں کرسکتا۔ ہر نوجوان میں کچھ نہ کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہوتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں نوجوانوں کو نہ تو بروقت اور معقول حوصلہ افزائی نصیب ہوتی ہے نہ سراہنے والے لوگ۔ کسی بھی نوجوان کے لیے سب سے اہم معاملہ ہے راہ نمائی کا۔ وہ بیشتر معاملات میں ناتجربہ کار ہوتا ہے۔ جو زندگی کی بیشتر بہاریں دیکھ چکے ہوں اُنہیں آگے بڑھ کر نئی نسل کی محض حوصلہ افزائی نہیں بلکہ راہ نمائی بھی کرنی چاہیے۔
کیا ہمارے ہاں نئی نسل کو وہ توجہ میسر ہے جو اُس کی بنیادی نفسی ضرورت ہے؟ افسوس کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ نئی نسل کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں نئی نسل اُسی وقت کچھ کرسکتی ہے، کچھ بن سکتی ہے جب اُس پر توجہ دی جائے، راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کی جائے۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ کسی بھی نوجوان کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کی خاطر بہت چھوٹی عمر سے اُس پر متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ ابھرتی ہوئی عمر میں انسان تیزی سے بہک جاتا ہے۔ وہ بہت سی ایسی قبیح عادات کا شکار ہوتا جاتا ہے جو زندگی کا توازن بگاڑ دیتی ہیں۔ نئی نسل کو آزادی درکار ہوتی ہے۔ لڑکپن ختم ہوتے ہی وہ سمجھتی ہے کہ اب والدین کی گرفت میں رہنے کا دور گیا۔ بیشتر معاملات میں والدین بھی ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داری سے بچنا چاہتے ہیں۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اِس راہ پر چلتے ہوئے بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے اور بہت کچھ اپنانا بھی پڑتا ہے۔ والدین کی ذمہ داری محض کھلانے پلانے تک نہیں۔ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور اُنہیں معیاری زندگی کے لیے تیار کرنا بھی والدین ہی کی ذمہ داری ہے۔ وہ اس ذمہ داری کو اسکول یا کالج کے اساتذہ کے سر منڈھ کر سکون کا سانس لیتے ہیں۔ یہ سکون کا سانس لینے کا مرحلہ نہیں۔ جب تک بچے باضابطہ عملی زندگی شروع کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے تب تک اُن پر متوجہ رہنا والدین کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ بُری عادات سے بچیں اور زندگی کے حوالے سے سنجیدہ ہوں۔
نئی نسل کے لیے سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے کمانے کے قابل ہونا۔ ہر دور کے نوجوانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور کچھ کمانے کے قابل ہونے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ فی زمانہ یہ محنت بڑھ گئی ہے۔ آج مقابلہ سخت ہے۔ ہر شعبے میں مسابقت اِتنی بڑھ گئی ہے کہ نئی نسل غیر معمولی دباؤ کے تحت جی رہی ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں یہ معاملہ بہت پیچیدہ ہے کیونکہ نئی نسل کو کمانے کے قابل بنانے میں والدین خاطر خواہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے، اُسے کچھ بننے اور کر دکھانے کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے اور جب پانی سر سے گزرنے لگتا ہے تب اُنہیں اچانک بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے اور یوں نئی نسل پر دباؤ ڈالنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔
آج کا پاکستانی نوجوان مختلف حوالوں سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ عملی زندگی کی معقول ابتدا اُس کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر راہ نہیں پاتا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ نہ کوئی اُسے راہ دکھا رہا ہے اور نہ ہی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
ہماری نئی نسل کو عملی زندگی ڈھنگ سے شروع کرنے کے لیے خصوصی توجہ درکار ہے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت میں بہت کچھ بگڑ چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کا مجموعی ڈھانچا داؤ پر لگا ہوا ہے۔ لوگ محض جی رہے ہیں، کچھ بننے اور کرنے کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ گزارے کی سطح پر جینا کسی بھی اعتبار سے زندگی کہلانے کا مستحق نہیں۔ یہ تو خالص حیوانی سطح ہے۔ ہمیں اِس سے بلند ہونا ہے۔ آج نئی نسل کو بہتر انداز سے عملی زندگی میں قدم رکھنے کے قابل بنانے کے حوالے سے والدین اور خاندان کے بزرگوں کی ذمہ داری بہت بڑھ چکی ہے۔ اُنہیں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ نئی نسل کو بے لگام نہیں چھوڑا جاسکتا۔ شہری کلچر میں بے فکری کی زندگی بسر کرنے کا چلن عام ہوتا جارہا ہے۔ نوجوان راتوں کو دیر تک گھر سے باہر رہنے، ہوٹلوں پر رات رات بھر گپ شپ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ سب کچھ پورے معاشرے کو کھوکھلا کر رہا ہے کیونکہ معاشرے کے پنپنے کی گنجائش نئی نسل کے باعمل ہونے سے مشروط ہے۔ جب نئی نسل ہی راہ بھول جائے گی، پڑھنے لکھنے پر اور کچھ سیکھنے پر توجہ نہیں دے گی، اپنا وقت ضائع کرے گی تو کیا بہتری آئے گی؟ ہمارے ہاں والدین بچوں کو گریجوئیشن کی سطح تک پڑھاتے رہتے ہیں اور اِس دوران اُنہیں عملی زندگی کے لیے تیار کرنے پر بالکل متوجہ نہیں ہوتے۔ جب لڑکا زندگی کے ڈھائی عشرے مکمل کرلیتا ہے تب والدین کو ہوش آتا ہے۔ اچانک یہ احساس جاگتا ہے کہ اب اولاد کو کچھ کرنا چاہیے۔ چوبیس پچیس سال کی عمر تک عملی زندگی کے بارے میں جس نے کچھ سوچا ہی نہ ہو وہ راتوں رات کیا کرسکتا ہے؟ ایسی حالت میں نوجوانوں کے ذہن شدید دباؤ کی حالت میں ہوتے ہیں۔ بعض عادتیں پختہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے اور رات رات پر گپ شپ لگانے کی عادت اگر پختہ ہوجائے تو بہت مشکل سے چھوٹتی ہے۔ ہمارے ہاں یہی ہوا ہے۔
نئی نسل ہم سے پوری توجہ چاہتی ہے۔ بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے عملی زندگی کے بارے میں بتانا چاہیے تاکہ وہ بڑے ہوکر گھبرائے بغیر عملی زندگی شروع کردیں، تیزی سے کمائیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔

حصہ