اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی نہ عیش کدہ ہے اور نہ جہنم زار،بلکہ امتحان ہے۔ یہ امتحان کبھی نعمت سے ہوتا ہے تو کبھی مصیبت سے۔ نعمت یعنی: خوشی‘ نفع‘ عزت‘ صحت‘ اولاد‘ دولت‘ حکومت‘ فتح اور زندگی وغیرہ‘ اور مصیبت یعنی: غمی‘ نقصان‘ ہلاکت‘ ذلت‘ بیماری‘ اولاد کا نہ ہونا‘ غلامی‘ شکست‘ طوفان،سیلاب اور زلزلہ وغیرہ۔
اس امتحان و ابتلا میں سے ہرشخص اور قوم کو گزرنا ہوتا ہے۔ اس میں کسی کے لیے رعایت نہیں۔ انبیا ؑجو خدا کے پیارے اور محبوب ہوتے ہیں‘ اُنھیں اس آزمائش سے گزرنا پڑا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں پیدا ہوتے ہیں کہ باپ کا سایہ سر پر نہ تھا۔ چھے سال کے ہوتے ہیں والدہ ماجدہ وفات پاجاتی ہیں اور آٹھ سال کی عمر میں دادا کا سایہ اٹھ گیا۔ لڑکپن میں مکہ والوں کی بھیڑبکریاں چرائیں۔ نبوت کا زمانہ تو نہایت مشقت و ابتلا کا دور تھا۔ حضرت ابراہیم ؑکو چند باتوں میں آزمایاگیا (البقرہ2:124)‘ آگ میں ڈالا گیا‘ وطن سے نکالا گیا‘ بیوی اوربچے کو جنگل میں چھوڑنے کا حکم اور اپنے پیارے بیٹے کو ذبح کرنے کا اشارہ ملا (الصفّٰت37:102)۔ حضرت یعقوب ؑکا بیٹا گم ہوجاتا ہے اور غم میں ان کی بینائی تک جاتی رہتی ہے (یوسف12:84)۔ حضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ میں 40 دن تک رہتے ہیں (الانبیا21:87)‘ حضرت یوسف ؑکنوئیں میں ڈالے جاتے ہیں پھر بیچ دیے جاتے ہیں اور بعد میں تقریباً نو سال تک جیل میں رہتے ہیں۔ (سورہ یوسف)
یہ رب کائنات کا مستقل دستور ہے اور اس میں سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نعمت دے کر بھی آزماتے ہیں۔ سیدنا دائود ؑ، سلیمان ؑکو حکومت عطا کی اور وہ اس میں اپنے رب کے شکرگزار بن کر رہے۔ قومِ سبا اور دوسری قوموں کو نعمتوں سے آزمایا۔ وہ کفرانِ نعمت کرکے ہلاک و برباد ہوگئیں۔
نعمت و ابتلا میں صحیح رویہ
ایک مسلمان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ نعمت پر شکر کیا جائے اور مصیبت پر صبر۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومنین کے مزے ہیں کہ اللہ جو فیصلہ کرتا ہے ان کے لیے اس میں خیر ہی ہوتی ہے۔ اگر مصیبت آئے اور وہ صبر کرتے ہیں تو ان کوثواب ملتا ہے اور اگر ان کو خوشی ملے تو شکر کرتے ہیں تو بھی ان کے لیے خیر ہوتی ہے اور یہ صرف مومنین کے لیے ہے۔ (بخاری، مسلم)
مومن نعمت پاکرآپے سے باہر نہیں ہوتا کیونکہ یہ اُس کا اپنا اکتساب نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور مصیبت کو بھی وہ بڑے حوصلے سے برداشت کرتا ہے۔ مایوسی‘ پریشانی‘ شکوہ‘ شکایت اور خودکشی سے اجتناب کرتا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں اُس کے مقدر میں ہیں (الحدید57:22،23)۔ فی الحقیقت عقیدہ تقدیر غم کو غلط کرنے والا ہے کہ دکھ آیا‘ ہلاکت و بربادی ہوئی اور زبان پر ہے: انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اُسی کے پاس جانا ہے۔ ان الفاظ میں جادو ہے۔ یہ انسان کو سمجھاتے اور تسلی دیتے ہیں کہ دنیا فانی ہے صرف باپ‘ بیٹا‘ گھر اور مال نہ گیا‘ ہم سب نے ہی ادھر جانا ہے اور وہاں جاکر اللہ تعالیٰ ان تمام نقصانات کی تلافی فرما دیں گے اور اجرعظیم عطا فرمائیں گے۔ اس دعا کے علاوہ ہم اپنی زبان میں بھی فوری ردعمل یوں ظاہر کرتے ہیں: ھٰذَا مکتوب(قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا)‘ مولا کی مرضی‘ ہم تیرے لکھے پر راضی ہیں۔ ان الفاظ کی ادایگی کے ساتھ ہی غم غلط‘ دکھ دُور اور اپنوں کی جدائی پر صبر کا حوصلہ ملتا ہے۔
یہ خیال رہے کہ عقیدۂ تقدیر انسان کو بے عمل نہیں بنا دیتا بلکہ انسان کو غم و نقصان کو حوصلے سے برداشت کرنے کی قوت دیتا ہے اور آیندہ کے لیے اُسے سعی و جہد پر اُبھارتا ہے۔ اس کا ایمان ہوتا ہے کہ اُس کا رب قادر بھی ہے اور رحمٰن و رحیم بھی جو ماں سے 70 گنا رحیم ہے۔ اُس کی رحمت تو خیر ہے ہی رحمت لیکن زحمت میں بھی خیر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو (النساء4:19) جیسے حضرت یوسف ؑ کی مثال کہ کنوئیں میں جانا‘ مصر جانے کا سبب بنا‘ اور مصر کے بازار میں بکنا‘ عزیزِ مصر کے گھر پہنچنے کا سبب بنا اور وہاں سے جیل میں ڈالنا مصر کی حکومت ملنے کا وسیلہ ثابت ہوا ہے۔
یہ صرف ایک مثال نہیں بلکہ ہر آدمی کی زندگی میں کئی ایسے لمحات آتے ہیں جنھیں وہ شر سمجھتا ہے لیکن بعد میں وہی بڑی خیر ثابت ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے جیسے موسٰی ؑ اور خضر ؑکا قصہ (سورہ کہف)۔ دو باتوں کی حکمت تو آسانی سے سمجھ آتی ہے: کشتی کا تختہ نکالنے سے ملاح بادشاہ کی بیگار سے بچ گئے اور نیک آدمی کے یتیم بچوں کی دیوار بنانے سے اُن کا خزانہ محفوظ ہوگیا لیکن معصوم بچے کے مارنے کی علت عقل سے ماورا ہے کہ یہ بڑا ہوکر شریر بنے گا (الکہف18:74، 80، 81)۔ یہاں ہم مجبور ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور فیصلے پر راضی رہیں۔ یہ تکوینی امور ہیں جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار کر ڈالا جاتا ہے اور کوئی تندرست کیا جاتا ہے‘ کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے‘ کسی کوتباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود مصائب میں بے شمار خیر کے پہلو ہوتے ہیں۔ ایک مسلم کو ہمیشہ اُن پر نظر رکھنی چاہیے۔ اس طرح وہ اپنے قلب و ذہن کو پریشانی اور مایوسی سے پاک رکھ سکتا ہے۔ وہ شر سے بھی خیر تلاش کرے تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی میں وہ پہلے سے زیادہ حوصلہ سے قدم رکھ سکے اور ماضی کی پریشانیاں دل سے نکال کر آیندہ کے غم سے اپنے آپ کو پاک کرکے آج کو زیادہ خوب صورت و خوش نما بنا سکے۔
چند غورطلب پہلو
مصیبت اپنے اندر محض پریشانی ہی نہیں خیر اور بہتری کا پہلو بھی رکھتی ہے۔ خیر کے چند پہلو یہ ہیں:
توبہ و رجوع الی اللّٰہ: مصیبت نہ آئے تو ہر انسان فرعون بن جائے۔ فرعون ایک غوطہ کھاتے ہی مسلم بن گیا (یونس10:90)۔ وہ تو مہلت عمل ختم کر بیٹھا تھا لیکن عام آدمی کے پاس ابھی وقت ہوتا ہے اور وہ مشکلات و مصائب کے بعد اللہ کی طرف رجوع کرسکتا ہے اور توبہ بھی۔مصیبت سے دل نرم ہوتا ہے‘اسباب سے نظر اٹھتی ہے اور مسبب الاسباب کے حضور ہاتھ اٹھ جاتے ہیں (الانعام6:42)۔ اس طرح اپنے رب سے دوبارہ رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ اگر مصیبت کا اور کوئی فائدہ نہ ہوتا تو یہی فائدہ ہی بڑا نفع آور تھا۔ (الاعراف7:168)گـناہ کا کفارہ: مصائب مومن کی غلطیوں اور گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو جو رنج اور دکھ اور فکر اور غم اور تکلیف اور پریشانی بھی پیش آتی ہے‘ حتیٰ کہ ایک کانٹا بھی اگر اس کو چبھتا ہے تو اللہ اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ (بخاری ، مسلم)
امتحان: مصائب و ابتلا سے آدمی کو پرکھا جاتا ہے‘ کھرا ہے یا کھوٹا‘ سچا ہے یا جھوٹا‘ وفادار ہے یا بے وفا‘ مطیع ہے یا نافرمان۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پھر تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے‘ جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں‘ مصیبتیں آئیں‘ ہلا مارے گئے‘ حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ اُس وقت اُن کو تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے‘‘۔ (البقرہ 2:214، 155-157) تربیت: تربیت کے لیے مصائب کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے: ’’اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ اُنھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں‘‘ (البقرہ2: 155-157)۔ ’’تربیت کے لیے انسان کو مصائب کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے۔ خوف و خطر میں مبتلا کر کے‘ اللہ طالب صادق کے عزمِ صمیم کا امتحان کرتے ہیں۔ یہ آزمائشیں اس لیے ضروری ہیں کہ اہلِ ایمان اسلامی نظریۂ حیات کی ذمہ داریاں اچھی طرح پوری کرنے کے قابل ہوسکیں اور اسلامی نظریۂ حیات کی راہ میں‘ جتنا جتنا مصائب سے دوچار ہوں‘ اسی طرح نظریۂ حیات انھیں عزیز ہوتا چلا جائے‘‘۔ (فی ظلال القرآن‘ ج1‘ ص216)
ترقی درجات : وہ مصائب جو اللہ کی راہ میں اُس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کوئی مومن برداشت کرتا ہے وہ محض کوتاہیوں کا کفارہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے ہاں ترقی درجات کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ’’یاد کرو کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا۔ تو اس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ ابراہیم نے عرض کیا: ’’اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ 2:124)گناہوں کی سزا: جرائم اور گناہ کی اصل سزا تو آخرت میں ملے گی لیکن بعض دفعہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو اسی دنیا میں اُس سزا کا کچھ مزہ چکھاتے ہیں: ’’اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے‘ اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے‘‘۔
(النساء4:79‘ الزمر39:51‘ الشوریٰ42:30)
تنبیہات و سرزنش: ’’اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا اُنھیں چکھاتے رہیں گے‘ شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں‘‘ (السجدہ32:21)۔ مولانا مودودیؒ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: ’عذاب اکبر‘ سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفروفسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں ’’عذابِ ادنیٰ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں‘ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں‘ اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت‘ المناک حادثے‘ نقصانات‘ ناکامیاں وغیرہ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان‘ زلزلے‘ سیلاب‘ وبائیں‘ قحط‘ فسادات‘ لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیںجو ہزاروں‘ لاکھوں‘ کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اُس طرز فکروعمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخرکار انھیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا‘‘۔(تفہیم القرآن‘ ج 4،ص47)ایک غلط فہمی کا ازالہ
ان تنبیہات کی بعض لوگ غلط تاویلات کر کے ان کے اسباق کو ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:’’جو لوگ جہالت میں مبتلا ہیں انھوں نے نہ پہلے کبھی ان واقعات سے سبق لیا ہے نہ آیندہ کبھی لیں گے۔ وہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث کے معنی ہی نہیں سمجھتے‘ اس لیے ان کی ہروہ تاویل کرتے ہیں جو حقیقت کے فہم سے ان کو اور زیادہ دُور لے جانے والی ہو‘ اور کسی ایسی تاویل کی طرف اُن کا ذہن کبھی مائل نہیں ہوتا جس سے اپنی دہریت یا اپنے شرک کی غلطی ان پر واضح ہوجائے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج 5‘ ص184)
یہی بات ہے جو ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی: ’’منافق جب بیمار پڑتا ہے اور پھر اچھا ہوجاتا ہے توا س کی مثال اُس اُونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالکوں نے باندھا تو اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں باندھا ہے اور جب کھول دیا تو وہ کچھ نہ سمجھا کیوں کھول دیا‘‘۔(ابوداؤد)
خدا کرے کہ سیلاب و آفات ہمارے لیے حرکت‘ محبت‘ اخوت‘ مساوات‘ ہمدردی‘ ایثار‘ امانت‘ دیانت‘ صداقت‘ محنت اور بندگی رب کا ذریعہ اور وفاے محمدؐ کا وسیلہ بن جائے!