علامہ اقبال
پردہ چہرے سے اٹھا ، انجمن آرائي کر
چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائي کر
تو جو بجلي ہے تو يہ چشمک پنہاں کب تک
بے حجابانہ مرے دل سے شناسائي کر
نفسِ گرم کي تاثير ہے اعجاز حيات
تيرے سينے ميں اگر ہے تو مسيحائي کر
کب تلک طور پہ دريوزہ گرمي مثلِ کليم
اپني ہستي سے عياں شعلہء سينائي کر
ہو تري خاک کے ہر ذرے سے تعميرِ حرم
دل کو بيگانہء اندازِ کليسائي کر
اس گلستاں ميں نہيں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھي کر تو بہ اندازئہ رعنائي کر
پہلے خوددار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں ميں ہوسِ شوکتِ دارائي کر
مل ہي جائے گي کبھي منزلِ ليلي اقبال!
کوئي دن اور ابھي باديہ پيمائي کر
میر تقی میر
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
عہدِ جوانی رو رو کاٹا پیر ی میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
اسداللہ خاں غالب
دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی، یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پُوچھو کہ مُدّعا کیا ہے
جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجُود
پھر یہ ہنگامہ، اے خُدا، کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ وعشوہ و ادا کیا ہے
شکنِ زلف عنبریں کیوں ہے
نگہِ چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہَوا کیا ہے
ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمیّد
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
جان تم پر نِثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دُعا کیا ہے
ہاں بَھلا کر تِرا بَھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچُھ نہیں غالب
مُفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے
سودا
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی
کیا ضد ہے مرے ساتھ، خدا جانئے ورنہ
کافی ہے تسلّی کو مرے ایک نظر بھی
کس ہستیٔ موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار
کچھ اپنے شب و روز کی ہے تجھ کو خبر بھی
تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
رہتا ہے سدا چاک، گریبانِ سحر بھی
سودا، تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی
خواجہ میر درد
تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے
جس لئے آئے تھے، سو ہم کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
ہم جہاں میں آئے تھے تنہا، ولے
ساتھ اپنے اب اُسے لے کر چلے
ساقیا، یاں لگ رہا ہے چل چلائو
جب تلک بس چل سکے، ساغر چلے
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے، کیدھر چلے
مصحفی
ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا
تجھے کس نے روک رکھّا، ترے جی میں کیا یہ آئی
کہ گیا تو بھول ظالم، اِدھر التفات کرنا
ہوئی تنگ اس کی بازی مری چال سے، تو رخ پھیر
وہ یہ ہمدموں سے بولا، کوئی اس سے مات کرنا
یہ زمانہ وہ ہے جس میں، ہیں بزرگ و خورد جتنے
انھیں فرض ہو گیا ہے گلۂ حیات کرنا
جو سفر میں ساتھ ہوں ہم تو رہے یہ ہم پہ قدغن
کہ نہ منہ کو اپنے ہر گز طرفِ قنات کرنا
یہ دعائے مصحفی ہے، جو اجل بھی اس کو آوے
شبِ وصل کو تُو یا رب، نہ شبِ وفات کرنا
انشا
کمر باندھے ہوئے چلنے پہ یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
تصور عرش پر ہے، اور سر ہے پائے ساقی پر
غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے ان دنوں پہروں
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں
بھلاگردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
بہادر شاہ ظفر
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جوکسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
مرا رنگ روپ بگڑ گیا، مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصلِ بہار ہوں
مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
پے فاتحہ کوئی آئے کیوں ،کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آکے شمع جلائے کیوں میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے آپ سن کے کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
فیض احمد فیض
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے