کیا آپ کا نام اسلامی ہے؟

237

قرآن مجید کے اس حکم کے بعد ’‘اچھے نام اللہ تعالیٰ کے ہی ہیں۔‘‘ اس لحاظ سے مومنوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اور اپنی اولاد کے لیے اچھے ناموں کو پسند کریں۔ یہ بات اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ رسولؐ کا مومنوں کو تاکیدی حکم بھی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کے اخلاق اور صفات اختیار کریں۔‘‘ ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ حضورؐ اچھے ناموں کو پسند فرماتے تھے۔‘‘ اسی طرح حضرت مطربؓ بن عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ جب بھی کسی شخص سے نام پوچھتے تھے پھر جب اس کا نام اچھا ہوتا تھا تو آپؐ کے چہرہ مبارک سے پسندیدگی کا اندازہ ہوجاتا تھا اور جب اس کا نام اچھا نہیں ہوتا تھا تو آپؐ کے چہرے مبارک سے اندازہ ہوجاتا تھا کہ نام پسند نہیں ہے۔ اسی طرح آپ ؐ کسی گائوں یا کسی جگہ کا نام پوچھتے تھے تو وہی حالت سامنے آجاتی تھی۔‘‘ اس حدیث شریف سے صاف صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہؐ اچھے نام بے حد پسند فرماتے تھے اور وہ نام جو معنی اور مفہوم کے لحاظ سے خوش کرنے والے ہوتے تھے اور آپؐ ایسے نام سن کر نہ صرف خوش ہوتے تھے بلکہ خوشی کا اظہار بھی کرتے تھے اور جن کا مطلب اور معنی لغو اور واہیات ہوں پھر چاہے وہ نام انسانوں کے ہوں یا جگہوں کے‘ ناپسند فرماتے تھے۔
سوچنے کی بات ہے کہ جس بات کو حضورؐ ناپسند فرمائیں وہ رب العالمین کیسے قبول کرے گا۔ اس کے بر خلاف دکھ اور افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود نام رکھنے میں بڑی لاپروائی کا ثبوت دیتے ہیں، کبھی کسی یہودی یا نصرانی کی تقلید میں اور کبھی مغربی تہذیب سے مرعوب ہوکر غیر اسلامی نام اپنے بچوں کے لیے تجویز کرتے ہیں۔ جن ناموں سے لادینی اور جاہلیت کا مظاہرہ ہوتا ہے اس کے خلاف کفر اور جاہلیت کے زمانے میں بعض کفار اور مشرکوں نے اچھے نام رکھ کر اس سے فائدہ حاصل کیا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن بریدہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے فرمایا کہ قریش بطور انعام ایک سو اونٹ مقرر کیے تھے اس شخص کے لیے جو نعوذ باللہ حضورؐ کو گرفتار کرکے ان کے حوالے کرے۔ حضورؐ اس وقت ہجرت کرکے مدینہ شریف جارہے تھے چنانچہ بریدہ اپنے قبیلے ’’بنی سہم‘‘ کے ستر سواروں کے ساتھ آپؐ کو گرفتار کرنے نکلے اور رات کو رسولؐ تک جا پہنچا اور جب سامنے ہوا تب آپؐ نے فرمایا ’’آپ کون ہو؟‘‘ اس پر اس نے جواب دیا ’’میں بریدہ ہوں‘‘ (جس کی معنیٰ ٹھنڈک ہے) آپؐ حضرت ابوبکرؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور نیک شگون لیتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے ابوبکر! بس اب ہمارا کام ٹھیک اور ٹھنڈا‘ یعنی آسان ہوگیا۔‘‘ پھر آپؐ نے اس سے دریافت کیا ’’کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ ’’میں اسلم قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں۔‘‘ (جس کی معنی ہے سب سے زیادہ پناہ دینے یا امان دینے والا) اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ ’’پھر تو بچ گیا۔‘‘ اور پھر آپؐ نے بریدہ سے پوچھا کہ آپ کا تعلق کس قبیلے سے ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ ’’بنی سہم (تیر) قبیلے سے۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’پھر تو تیرا تیر نکل گیا۔‘‘ یعنی آپ کی قسمت کھل گئی۔ اس کے بعد اس نے حضورؐ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’میں محمد بن عبداللہ ہوں‘ اللہ تعالیٰ کا رسول۔‘‘ یہ سن کر حضرت بریدہؓ نے فوراً کلمہ پڑھا۔ روایت کرنے والوں نے کہا کہ حضرت بریدہؓ اور ان کے تمام ساتھی ایمان لے آئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپؐ نے حضرت بریدہؓ کے نام، قبیلے اور خاندان کے نام سے نیک شگون لیا کیوں کہ یہ اچھے نام تھے اور پھر رب العالمین نے اپنے حبیبؐ کی پسند کو قبول فرما کر ان نیک فال کو فوراً پورا بھی کیا یعنی جو لوگ اچھے ناموں کے باوجود بری نیت سے نکلے تھے وہ آپؐ کے مبارک ہاتھوں پر ایمان لاکر آپؐ کے معاون اور مددگار بن گئے۔
اس پس منظر میں اسلام کے علم برداروں کا آج یہ عمل ہے کہ وہ خود اپنے بچوں کو دن رات سہیل، قمر، ناہید، نیر، نجمہ، پروین، شہاب، وغیرہ کے ناموں سے پکارتے ہیں اور اسی طرح اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے پاک ناموں کو اپنی زبان پر دہرانے کے بجائے دن رات سیاروں کے ناموں کا ورد کرتے رہتے ہیں اور تاروں کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، جب ہمارا یہ حال ہے تو پھر گزرے زمانے میں تاروں کی پوجا کرنے والوں کو کیوں الزام دیتے ہیں، علم و حکمت کے اس روشن دور میں بھی توہم پرستی کا مظاہرہ کرتے سیارہ پرستی پر اس طرح مائل ہوگئے ہیں کہ اپنے نام انجم، کوکب، اختر وغیرہ رکھ بیٹھے ہیں۔ یہاں کوئی پارہ ہے تو ماہ پارہ‘ کوئی کہکشان تو کوئی ستارہ۔ چاند اور تاروں کے اس روشن معاشرے میں زہرہ اور مشتری کی کوئی کمی نہیں‘ ہاں اگر کمی ہے تو انسانوں کی۔
اللہ اللہ ! کیسا وقت آگیا ہے کہ تاروں پر کمند ڈالنے والے آج انسانیت کے اعلیٰ درجہ سے گر کر مخفی سیارے بننے کی تلاش میں چکرائے ہوئے ہیں‘ ستاروں اور سیاروں کے ناموں سے اپنے آپ کو بلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
جب حال یہ ہو تو پھر خالقِ کائنات کیوں نہ ان سے سیاروں جیسا سلوک کرے‘ کیوں نہ ان کو پوری زندگی سیاروں کی طرح ہمیشہ چکروں میں مبتلا رکھے۔ اس حال میں تقدیر کی شکایت کرنا بے کار ہے کیوں کہ ہمیشہ چکروں میں مبتلا رہنا سیاروں اور ستاروں کا مقدر ہوتا ہے‘ اب پوری زندگی ستاروں کی طرح چکر لگاتے رہو اور دکھ میں ٹھنڈی سانس لیتے رہو۔ جیسے غالب اپنے شعر میں کہتا ہے کہ:
’’نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے‘‘
( رونا جیسا کہ سیارے کی گردش کی آواز ہے۔)
حقیقت یہ ہے کہ اب ہم کسی کام کے نہ رہے بلکہ اب تو نام کے مسلمان بھی نہیں رہے۔ انسانیت کی حد یہ ہے کہ حیوانِ ناطق کے درجہ سے گر کر فقط ’’حیوان‘‘ کہلانے میں فخر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو انسان جیسے جانوروں کے اس باڑے میں آپ خود ’’ہما‘‘ اور ’’شاہین‘‘ کو پرواز کرتے، ’’غزالہ‘‘ (نوجوان ہرنی) کو چھلانگ لگا کر بھاگتے، ’’رخشی‘‘ (گھوڑی) کو سر پٹ بھاگتے، ’’راحلہ‘‘ (سواری) کو سفر کرتے اور ’’عندلیب‘‘ (بلبل) بدکتے دیکھ سکتے ہو۔
پھر اشرف المخلوقات اور نائب خدا اس کو کون کہہ سکتا ہے، جو جانوروں کے نام پر اپنے نام رکھ کر خود کو جانور ہونے کا ثبوت پہنچاتے رہتے ہیں اور کچھ نہیں تو جانوروں کے نام پر اپنے نام رکھ کر جانور بننے کی تمنا کا اظہار کرتے ہیں کیوں کہ دوسری صورت میں اگر اپنی اشرف المخلوقات ہونے کا احساس ہوتا تو خود سے زیادہ وہ مشرف ہستیوں کے ناموں پر اپنا نام رکھتے اور اسی طرح محمد، احمد، عبداللہ اور عبدالرحمن کہلانے میں فخر محسوس کرتے۔
اشرف المخلوقات کے سونے کا تاج اپنے سر سے اتار کر انسان خود کو خالص حیوانیت کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہے۔ بے توفیقی کی انتہا یہی ہے کہ صرف اس پر بس نہیں بلکہ انسان تو آج حیوان کے درجے سے بھی گر کر فقط شجر و حجر (درخت اور پتھر) بننے پر مائل نظر آرہا ہے، ہاں یہی مسجود الملائک کہیں ’’شمشاد‘‘ (سروقی قسم کا درخت) بن کر خوش ہے تو کہیں ’’ریحان‘‘ (خوشبودار گھاس) بن کر مہک رہا ہے اور کہیں ’’سنبل‘‘ کی طرح الٹ پلٹ ہورہا ہے۔بہرحال ’’نرگس‘‘ چاہے کوئی بھی آنکھیں دکھائے، ’’نسرین‘‘ خوب فضا کو مہکائے، ’’یاسمین‘‘ جتنا چاہے مسکرائے ’’نیلوفر‘‘ چاہے جتنے پھول بکھیرے اور ’’صنوبر‘‘ جتنا چاہے بلند و بالا ہوجائے، بلائے تو وہ سب پودے جائیں گے، انسان تو بلانے سے قاصر رہے‘ پھر انسان کی فطرت سے کیا ظلم ہے قدرت تو انسان کے بچے کو انسان پیدا کرتا ہے اور لوگ انہی کو پودے کے ناموں سے یاد کرنے لگتے ہیں۔ رب العالمین تو ہر بچے کو مسلمان پیدا کرتا ہے اور لوگ اس کو درخت اور پھول کہہ کر پکارتے ہیں۔
حالات جب یہ رخ اختیار کریں تو پھر ماضی والے زمانے میں درختوں کی پوجا کرنے والوں کی عقل و فہم سے مسخری کرنے کا کس کو حق حاصل ہے۔
آج کل تو لوگوں کی عقل پر اس قدر پردہ حائل ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں اس کی ساری ذہانت گم ہے‘ لوگ ابھی تک پتھر کے دور میں سانس لے رہے ہیں بلکہ خود بھی پتھر بن گئے ہیں، جیتا جاگتا پتھر، چلتا پھرتا پتھر، گھومتا پھرتا پتھر ہم میں سے کوئی ’’الماس‘‘ ہے تو کوئی ’’زمرد‘‘ کوئی ’’ہیرا‘‘ ہے تو کوئی ’’جواہر‘‘ کوئی ’’نیلم۔‘‘ گویا انسانی معاشرہ جوہر کی دکان بن گیا ہے‘ تو پھر اتنے بھاری قیمت والے پتھر کی موجودگی میں انسان بے چارے کو کون پوچھے۔
یہاں تو پتھروں کی پوجا ہو رہی ہے ’’بت فروشی‘‘ اور ’‘بت پرستی‘‘ کا دور ہے، دنیا پتھروں کا دیس بن گئی ہے نئی تہذیب کے جادو سے یہاں کے انسان واقعی پتھر بن گئے ہیں بے حس پتھر جس میں نہ زندگی کا سوز ہے نہ محبت کی گرمی۔
حقیقت یہ ہے کہ آج انسان اور انسانیت کے کھوکھلے نعرے لگائے جاتے ہیں اس میں نام کی بھی صداقت نہیں ہے دعویٰ تو انسان دوست جمہوریت کی پر دماغ ابھی منتشر ہے‘ انسان دشمن ملوکیت ہے بلواتے ہیں جمہوریت کے خادم مگر ذہن شہنشاہیت کی بدبو سے جل رہا ہے‘ خود کو سمجھتے ہیں جمہوریت کے شیدائی اور کہلواتے ہیں سلطان، سردار، مالک اور شہنشاہ۔ کس ملک کے حکمران ہیں یہ لوگ؟ اگر کسی بھی ملک کے نہیں تو پھر ایسے فخریہ ناموں کا فائدہ کیا؟ کیا یہ نام جبر و استبداد کے مظہر نہیں ہیں، قیصر، خسرو پرویز، جمہور کے قاتلوں کے نام ہیں۔
جمہوریت کا عَلم اٹھانے والوں سے کون پوچھے کہ آج کے اس عوامی دور میں صرف آپ کے کاموں میں ہی نہیں بلکہ آپ کے ناموں سے بھی انسان کے خون کی بُو آرہی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا کہ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس سب سے برا نام اس شخص کا ہوگا جس نے اپنے نام شہنشاہ رکھا ہوگا۔‘‘ مگر اس ظلم و جبر کے مارے معاشرے میں اپنی سمجھ کے مطابق کوئی شہناز ہے تو کوئی شہزادی کوئی ملکہ ہے تو کوئی سلطانہ، کوئی شاہی ہے تو کوئی شاہانہ ہے تو کوئی کشور ہے تو کوئی تاجور ہے۔ اگر ناموں کا اثر انسانی زندگی پر پڑتا ہے تو کیا ایسے شہ زور اور بے لگام ناموں میں سے اچھا بھلا انسان نفسیاتی طور پر قدیم زمانے کے قاہر و جابر شہنشاہوں جیسا درندہ نہیں بن جائے گا؟ اگر وحشت و بربریت کی طرف ایسا ہی میلان رہا تو پھر وہ دن دور نہیں کہ جب یہاں فرعون ، ہامان اور شداد بھی پیدا ہونے لگیں گے باقی مٹ جائیں گے اور ایسے انسان دوست محسنوں کے نام مٹ رہے ہیں جو صحیح معنوں میں شفیق و مشفق، نصیر و ناصر، فیاض و جواد ہیں۔ لیکن اس دور میں خلوص و محبت اور نیکی کو کون پوچھتا ہے۔ آج کل تو رومنٹیک ناموں کا دور ہے‘ یہ نام اپنے آپ بے زبانی سے خاموشی میں جیسا کہ دعوتِ عشق و محبت دیتے رہے ہیں‘ ایسے ہیجان انگیز نام سننے سے نامحرموں کی جذباتِ نفسانی میں جو آگ پیدا ہوتی ہے اس کو ہر شخص محسوس کرسکتا ہے لیکن لوگ ایسے بے حس ہوگئے ہیں کہ اس کی تھوڑی بھی غیرت جاگے، حالانکہ ’’سیم تن‘‘ صاف صاف اپنے چاندی جیسے بدن کا اعلانِ عام کررہی ہے ’’گل بدن‘‘ اپنے پھول جیسے جسم کی نمائش کر رہی ہے ’’کہکشاں‘‘ جیسا کہ تاروں بھری رات انگڑائی لے رہی ہے ’’زرقا‘‘ نیلی آنکھ دکھا رہی ہے تو ’’مشکی‘‘ اپنی خوشبو ِپھیلا رہی ہے ’’عمبرین‘‘ پوری فضا کو مہکائے ہوئے ہے ’’صائقہ‘‘ دلوں پر بجلی گرا رہی ہے اور ’’تبسم‘‘ جس کو دیکھو مسکرا رہی ہے اور ’’ترنم‘‘ ہر وقت گنگنا رہی ہے اور ‘‘نغمہ‘‘ سب کو پیار کے گیت سنا رہی ہے‘ ’’زرینہ‘‘ سراپا سنہری ہونے کا دعویٰ کررہی ہے، ’‘ریشماں‘‘ ریشم کے قسم کی کوئی چیز معلوم ہو رہی ہے ’’نگار‘‘ تو ہے ہی کھلی ہوئی ’’معشوقہ‘‘ اور ’’شاہدہ‘‘ سب کی محبوبہ اور ’’نوشابہ‘‘ صاف صاف بتارہی ہے کہ ابھی تو میں نئی نئی جوان ہوئی ہوں۔
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ کیا یہ نام اس قابل ہیں کہ غیرت مند والد، بھائی، شوہر کے منہ سے بیک وقت اور ہمیشہ ادا کیے جائیں؟ اگر نہیں تو پھر کیوں نہ حدیث کے مطابق دورِ جہالت کے غلط نام آج ہی اچھے ناموں سے بدل لیے جائیں، ایسے پاکیزہ نام جن کو سن کر پاکیزہ جذبات سے دل بھر جائے اور مقدس احساسات سے ہر شخص کا سر جھک جائے مثلاً آمنہ، حلیمہ، خدیجہ، عائشہ ، فاطمہ۔ ہر ایسے نیک پاکیزہ اور مقدس ناموں کو بھلا کون پوچھتا ہے کیوں کہ آج کل تو فلم اسٹار کے ناموں پر نام رکھنے کا فیشن ہے خواہ مطلب اور معنی کے لحاظ سے کتنے ہی گھٹیا اور معیوب کیوں نہ ہو۔ ’’شبانہ‘‘ رات سے نسبت رکھنے والی ہے ’’شبستان‘‘ وہ جگہ جہاں رات بسر کی جائے۔ ’’صبوحی‘‘ صبح کو ہی جانے والی شراب ہوتی ہے ’’انجمن آرا‘‘ محفل کو سجانے والے کو کہتے ہیں معنی کے لحاظ سے ذرا سوچیں کہ اس قسم کی عورتوں کا معاشرے میں کیا مقام ہے؟ اور عرف عام میں ایسی عورتوں کو کس نام سے پکارا جاتا ہے جن کو خاص رات سے نسبت ہو، جن کے پاس رات بسر کی جائے، جو سراپا شراب ہوں اور شمع محفل ہو کر انحمن آرائی کرتی پھریں۔ بے حیائی کی انتہا یہ ہے جن ناموں کے ساتھ اللہ اس کے رسولؐ اور شعائر اسلام کی نسبت ہوتی ہے تو ایسے ناموں کو پرانا اور دقیانوسی کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایسے عجیب الخلقت ، بے جوڑ ، بے ربط اور بے معنی نام وضع کیے جاتے ہیں جو آج کے فحش اور گندی ذہنیت کا مظہر ہیں وہ نام عالم اور فاضل انسان کے ذہن کی دریافت ہیں مثلاً ٹونی، فوزیہ، شمی، شازیہ، رونی، زلفی ( تلوار )، نشو، شیلا، انیلا (ناتجربے کار) ، روبینہ، روزینہ ( زوال کی مزدوری)، راحیلہ (رحلت) ، شیبا (افعی نانگ) نازلی( اترنے والی) رومانہ۔
خیر جناب ان میں سے اکثر نام اس صنفِ نازک کے ہیں جس کو عورت کہتے ہیں ’’ناقص العقل‘‘ اور ہیں بھی ایسے ہی۔ لیکن تھوڑا مردوں کے ناموں کا بورڈ بھی دیکھتے چلیں واضح الفاظ میں ملے گا زیڈ۔ اے۔ جان ، ایس۔ ڈبلیو۔چشتی، ایس۔ اے۔ شیخ، ایف۔ ای۔ ملک، ایم۔ ای۔ جیلانی۔ وغیرہ وغیرہ۔کاش کوئی ان اہلِ دانش سے پوچھے کہ صاحب جب آپ کے اچھے بھلے اسلامی نام اردو یا سندھی میں یا کسی اور زبان میں ہیں تو پھر اختصار نگاری کے جوہر دکھانے کا کیا مطلب ؟ آخر انگریزوں کو شرمانے سے کیا فائدہ؟
انگریر تو چلا گیا مگر لوگوں کی غلامانہ ذہنیت نہیں بدلی قطع نظر اس کے کسی شخص کو دن رات میں سعید، اسعد ، احسن، محسن، رشید ، طیب، اور طاہر جیسے مبارک اور مقدس ناموں کو بار بار پکارنے میں جہاں دوسرے بہت فائدے ہیں وہاں ایک یہ فائدہ یہ بھی ہے کہ دن رات میں کوئی گھڑی قبولیت کی بھی ہوتی ہے اور ان مقبول اوقات میں اگر کسی کو نیک نام سے یاد کیا جائے تو ممکن ہے کہ رب تعالیٰ کا ہی فرمان ہے کہ جب کسی بندے کو سب اچھا پکارتے ہوں تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے حق میں اچھا ہی فیصلہ فرماتا ہے۔
بجا کہے جسے دنیا اسے بحا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھ
حضرت مسیبؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور ؐ نے فرمایا ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ والد نے کہا ’’حزن‘‘ (سخت زمین) حضورؐ نے فرمایا ’’آپ کا نام سہل (نرم زمین) ہونا چاہیے۔‘‘ والد نے فرمایا میں ’’اپنے والد کا رکھا ہوا نام تبدیل نہیں کرسکتا۔‘‘
راوی کہتا ہے کہ اس وجہ سے بعد میں اس پر سخت مزاجی قائم رہی۔ خلاصہ کلام یہ ہے سب سے بہتر نام وہ ہے جس کے نام میں لفظ عبد یا امۃ کی اضافت اللہ تعالیٰ کی کسی نام کی طرف ہو۔ جیسے عبدالرحمن ، عبداللہ، عبدالعزیز، عبد الکریم، عبدالرحیم، امۃ اللہ، امۃ الکریم، امۃ الرئوف وغیرہ۔حضور ؐ کا ارشاد ہے ’’پیغمبروں کے ناموں پر نام رکھا کریں۔‘‘ پیغمبروں میں سب سے زیادہ حضورؐ اس کے مستحق ہیں ان کے نام پر ہم اپنی اولاد کے نام رکھیں جیسے محمد، احمد، حامد، محمود۔
روایتوں میں آیا ہے کہ جس کا نام حضورؐ کے نام پر ہوگا حضورشفیع المذنبینؐ اس کی شفاعت فرمائیں گے اس کو بہشت میں لے جائیں گے اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کا عذاب نہیں فرمائیں گے۔
حضورؐ کے نام کے ساتھ اگر لفظ ’’عبد‘‘ آجائے تو یہ غلط ہے مثلاً عبد الرسول۔
(بشکریہ: اردو ڈائجسٹ)

حصہ