ہم کیوں مسلمان ہوئے

531

خالد لطیف گابا(ہندوستان)
خالد لطیف گابا کا آبائی نام کنہیا لال گابا تھا۔ وہ ضلع مظفر گڑھ کے قصبے لیّہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد لالہ ہرکشن لال بیسوی صدی کے اوائل میں برصغیر کے نامور ترین ماہر مالیات تھے۔ پنجاب کی کابینہ میں سالہا سال تک شامل رہے تھے۔ وہ کارخانہ دار اور صفِ اوّل کے تاجر کی حیثیت سے لکھ پتی آدمی تھے۔
1917ء میں سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد کے ایل گابا انگلستان گئے اور 1921ء میں قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔ وطن واپس آکر انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی اور گہرے مطالعے اور طویل غور وخوض کے بعد 1933ء میں ہندومت کو ترک کرکے حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے۔
ممتازماہر قانون کے ساتھ ساتھ کے ایل گابا زبردست تخلیقی و تصنیفی صلاحیتوں کے حامل بھی تھے۔ ان کی اوّلین کتاب 1927ء میں ’’انکل سام‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی جو مس میو کی مشہور کتاب ’’مدر انڈیا‘‘ کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ اسلام قبول کرنے کے ایک سال بعد 1934ء میں ان کی معرکۃ الآرا کتاب ’’پرافٹ آف دی ڈیزرٹ‘‘ (پیغمبر ِ صحرا) کے نام سے شائع ہوئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مبنی ہے اور سندھ و ثقافت کے اعتبار سے علمی حلقوں میں خاصی قدر و منزلت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔
1936ء میں گابا کے خاندان پر مصائب کا ایک دور شروع ہوا۔ پنجاب ہائی کورٹ کا انگریز چیف جسٹس سرجان ڈگلس ان کا دشمن ہو گیا اور نہایت گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ان کی ساری جائداد ضبط کر لی بلکہ دنوں باپ بیٹوں کو جیل میں ڈال دیا اور قید و بند کا یہ سلسلہ بار بار دہرایا گیا حتیٰ کہ 1937ء میں لالہ ہرکشن لال اسی کسمپرسی میں وفات پا گئے۔
اس ظلم و ستم اور اپنے والدین کی مظلومانہ ہلاکت سے متاثر ہو کر خالد لطیف گابا نے ’’نیو میکنا کارٹا‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں سر ڈگلس ینگ کے نجی اور معاشرتی کردار کے بارے میں نہایت گھنائونے انکشاف تھے۔ اس کتاب نے برطانوی عدلیہ اور محکمۂ انصاف کے کھوکھلے پن کو بھی عیاں کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اگرچہ گابا صاحب کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر ہو گیا مگر جسٹس ینگ کے خلاف ماحول میں نفرت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے پاس استعفیٰ دینے کے سوا کوئہی چارہ نہ رہا۔
خالد لطیف گابا 1934ء سے 1937ء تک ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے‘ جب کہ 1937ء سے 1941ء تک پنجاب اسمبلی میں عوامی نمائندگی کا فرض ادا کرتے رہے۔ انہوں نے تیس سے زیادہ نہایت دقیع کتابیں تصنیف کیں جن میں بعض برطانوی سامراج کے کچے چٹھے پر مبنی تھیں۔ چونکہ گابا صاحب قیامِ پاکستان کے معاملے میں مسلم لیگ سے اختلاف رکھتے تھے اس لیے تقسیم ہند کے بعد وہ بمبئی منتقل ہو گئے اور وفات تک وہیں مقیم رہے۔ وہاں انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی حالتِ زار پر ایک مبسوط‘ مستند اور دستاویزی کتاب Passive Voice’s (مجبور آوازیں) لکھی‘ جس نے ایک طرف دنیا بھر میں بھارتی مسلمانوں کی مظلومی و بے چارگی کو عیاں کی اور دوسری جانب نام نہاد ہندوستانی سیکولرزم کا پردہ فاش کیا۔ جرأت مندی اور حق گوئی گابا صاحب کی زندگی کا مستقل شعار رہا ہے جس پر وہ اخیر وقت تک قائم رہے۔
جن دنوں خالد لطیف گابا سر ڈگلس ینگ کے زیرِ عتاب تھے اور جیل میں تھے‘ ضمانت پر رہائی کے لیے انگریز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور نے ڈیڑھ لاکھ روپے زر ضمانت کے طور پر طلب کیے۔ روزنامہ ’’زمیندار‘‘ اور ’’احسان‘‘ نے مسلمانان ہند سے بار بار اپیل کی کہ رقم کا انتظام کرکے بے گناہ نو مسلم کو قید سے رہائی دلائی جائے مگر پورے ہندوستان میں ایک مسلمان بھی اتنی بڑی رقم جمع نہ کراسکا۔
اسی اثنا میں سیالکوٹ کے ایک ٹھیکیدار ملک سردار علی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں تشریف لا کر ہدایت فرمائی کہ ’’لاہور میں ایک نو مسلم خالد لطیف گابا قید میں پڑا ہے‘ اس نے ہمارے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے جو ہمیں بہت پسند ہے‘ اس لیے تم ڈیڑھ لاکھ روپے کا انتظام کرو اور لاہور جا کر اسے ضمانت پر رہا کرائو۔‘‘
ملک سردار علی چند برس ہوئے وفات پا چکے ہیں‘ وہ فخر اور تشکر سے یہ خواب سنایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضور ختمِ رسل صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنتے ہی ملک صاحب لاہور پہنچے۔ جائداد کے کاغذات تیار کیے اور ضمانت کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں پہنچے‘ مگر متعصب جج نے انہیں ڈرایا دھمکایا کہ گابا باہر بھاگ جائے گا اور تمہاری جائداد قرق ہو جائے گی۔ لیکن ملک صاحب مصر رہے کہ وہ ان کی ضمانت ضرور دیں گے۔
جج کے انکار پر ملک صاحب نے بھاگ دوڑ کرکے ڈیڑھ لاکھ روپے جمع کیے اور نقد زرِ ضمانت پیش کرکے گابا صاحب کو رہا کرا لیا۔ذیل لی تقریر خالد گابا نے قبولِ اسلام کے بعد لاہور کی بادشاہی مسجد میں سامعین کے بہت بڑے اجتماع میں کی تھی۔ اس اجتماع میں علامہ اقبال بھی موجود تھے۔
…٭…
’’خدائے بزرگ و برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اپنے لاکھوں گمراہ بندوں میں سے مجھے انتخاب کیا اور صراطِ مستقیم کی ہدایت دے کر دوسروں کے لیے مثال بنایا تاکہ سب لوگ یہ جان لیں کہ صداقت کا سیدھا راستہ اسلام کے سوا اور کوئی نہیں۔حضرات! جب انسان پیدا ہوتا ہے تو کئی درجوں میں سے گزر کر مکمل ہوتا ہے‘ پہلے درجے میں اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی ہوتی ہے‘ چہرے پر دل کش معصومیت برس رہی ہوتی ہے‘ وہ چھو سکتا ہے‘ سونگھ سکتا ہے‘ دیکھ سکتا ہے۔ اس کے پانچوں حواس قائم ہوتے ہیں۔ تمام جبلّی خواص موجو؎د ہوتے ہیں مگر ابھی عقل و خرد سے بہرہ یاب نہیں ہوتا۔ پھر آہستہ آہستہ ماں باپ کو پہچاننے لگتا ہے۔ اشیا کی ماہیت جاننے لگتا ہے اور اس طرح قدم قدم چل کر اپنی جسمانی زندگی کو مکمل کر لیتا ہے۔
حضرات! انسان کی روحانی زندگی کا بھی اسی طرح بچپن ہو سکتا ہے۔ انسان برسوں کے بعد ہی اپنی روحانی منزل کو پہچانتا ہے اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر صداقت کی روشن دنیا میں سرگرمِ عمل ہوتا ہے۔ میرے قبولِ اسلام پر ہندو جاتی میں بہت غیظ و غضب کا اظہار کیا گیا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ ہندوئوں نے مجھ پر گولہ باری من حیث القوم شروع کر دی ہے۔ البتہ ایک امر میں مجھے ہندو پریس سے پورا اتفاق ہے‘ یعنی ہندو اخبارات نے یہ بالکل صحیح لکھا ہے کہ میں کبھی بھی راسخ العقیدہ ہندو نہ تھا۔
برادرانِ اسلام! اس وقت میری مثال ایک ایسے دل باختہ عاشق کی سی ہے جسے کسی شہزادی سے محبت ہوگئی ہو۔ سنگ دل دنیا دار اسے کیا کچھ نہیں کہتے‘ کوئی اقتدار اور بادشاہی کی تمنا کو اس کے عشق کا محرک گردانتا ہے‘ کوئی دماغ کا خلل بتاتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ عشق کی حقیقت خشک منطق سے دریافت نہیں ہو سکتی۔ انوارِ سماوی کی بارش خرد بینوں سے نہیں دیکھی جاسکتی‘ جذبات کے بڑھتے ہوئے سمندر کو استدلال کے پیمانوں سے ناپنا ناممکن ہے۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میںعشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی
حضرات! میرا یہ عشق نیا نہیں ہے‘ میرے قلب میں اس آگ کی پہلی چنگاری آج سے 15 برس پہلے چمکی تھی۔ میں اُن دنوں مصر میں تھا۔ اسلامی تہذیب و تمدن نے میرے دل میں ایک نہ مٹنے والا اثر ڈالا۔ میں اسلامی معاشرت ‘ سادگی‘ وقار‘ باہمی مہر و محبت‘ احترامِ انسانیت اور مساوات کے ایک خاص انداز سے بے پناہ متاثرہ ہوا۔ یہ چنگاری آہستہ آہستہ سلگتی رہی اور آخر اس نے میرے دل کے خس و خاشاک کو جلا کر راکھ کر دیا اور آج اللہ کے فضل سے میرا دل و دماغ اسلام کی صداقت سے تابندہ ہے۔ مصر سے واپس آنے کے بعد جب کبھی میں کسی مسجد کے قریب سے گزرا ہوں‘ میرا سر ہمیشہ اس کی عظمت و جبروت کے سامنے جھک گیا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ مسجد کے مینار مجھے انگلیوں کے اشارے سے اپنی طرف بلا رہے ہیں اور مؤذن مجھ کو پکار پکار کر کہہ رہا ہے ’’آئو نماز کی طرف‘ آئو نماز کی طرف۔‘‘ میرا دل میرے سینے سے نکل کر ایمان والوںکی صفوں میں شریک ہونا چاہتا تھا تاکہ میں خدائے رحیم و رحمن کے اطاعت گزار بندوں میں داخل ہو جائوں اور یہ احساس پیدا ہونے کے بعد میں زیادہ عرصے تک اس کو نہ روک سکا۔ تاہم اگر باہر کی دنیا کے لوگ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ میں نے اسلام کو دوسرے مذاہب پر کیوں ترجیح دی ہے تو میں مختصراً چند باتیں پیش کرتا ہوں۔
پہلی چیز جس نے مجھے بے حد متاثر کیا‘ وہ اسلام کی سادگی اور ہدایت ہے۔ اسلام کے ارکان انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ان سب کی بنیاد اصولوں پر ہے اور وہ اس قدر واضح ہیں کہ ایک عام عقل و فہم کا انسان بھی انہیں سمجھ سکتا ہے۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور اس خدا کی وحدانیت جو نہ کسی کا باپ ہے اور نہ بیٹا‘ جو مٹی میں ڈھالا جاسکتا ہے نہ پتھر میں‘ جو ایک ہے اور ایک رہے گا۔
اسلام کو ترجیح دینے کی دوسری وجہ اسلام کی جمہوریت ہے۔ اسلامی مساوات سوشلزم اور کمیونزم کی مساوات نہیں جو امیروں کو بظاہر غریبوں کی خاطر درندوں سے ہلاک کرنا سکھاتی ہے۔ یہ عیسائیت کی مساوات بھی نہیں جہاں سیاہ رنگ کے حبشی کو سفید رنگ کی عورت پر نگاہ ڈالنے کے جرم میں بے محاب ا قتل کیا جاتا ہے اور سیاہ فام عیسائی خدا کی عبادت کے لیے بھی ان گرجوں میں نہیں جاسکتے جہاں سفید فام عیسائی جاتے ہیں۔ سیاہ فاموں کے لیے الگ مخصوص گرجے ہیں جب کہ اس کے برعکس مسجد کے دروازے ہر ایک مسلمان کے لیے یکساں کھلے ہیں‘ خواہ وہ کسی رنگ کا ہو اور خواہ اس کی کوئی سی نسل ہو۔
برادرانِ اسلام! چونکہ اسلام کی علامگیر اخوت انہی اصولوں پر مبنی ہے لہٰذا قبولِ اسلام کسی خاص موسم کا پابند نہیں اس کے لیے دو اصولوں کا اقرار و اعلان کافی ہے اور وہ اسلام کا کلمہ ہے یعنی اشہدان لا الٰہ اﷲ و اشہد ان محمداً عبدہ و رسولہ۔ اس کلمے کے پڑھتے ہی دنیا کی اس سب سے بڑی برادری کی آغوشِ محبت کشادہ ہو جاتی ہے۔ جس میں ہر انسان ہم مرتبہ ہے اور یہ محض نظریہ ہی نہیں ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ ہر نو مسلم کلمہ پڑھنے کے ساتھ ہی مسجد میں بادشاہِ وقت کے پہلو میں کھڑا ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ مل کر ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھا سکتا ہے۔
برادرانِ اسلام! میرے قبولِ اسلام کی تیسری وجہ بھی اسی اخوت کے احساس پر مبنی ہے۔ اس وقت ہندوئوں میں داخلہ مندر پر بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ اسلام ان انسانیت سوز بحثوں سے پاک ہے۔ ہمارے مذہب کو چھوت چھات نے چھوا تک نہیں۔ ہندوئوں کا ایک فرقہ اچھوتوں کو شدھی کی چھو منتر سے چھوت بنا دینے کا دعویدار ہے مگر یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی کیوں کہ اس میں دو باتیں بری طرح حارج ہیں۔ ایک یہ کہ ہندو پیدا ہوتا ہے بنایا نہیں جا سکتا۔ وہ فقط ہندو ہی نہیں پیدا ہوتا بلکہ ایک خاص گوت‘ ایک خاص ذات کے حلقے میں پیدا ہوتا ہے اور یہ گوتیں اور ذاتیں درجہ بہ درجہ ہیں۔ ہندو مت محض مردوں کے تنازع اور تبدیلی کا قائل ہے‘ زندوں کی حالت نہیں بدل سکتا۔ کوئی شودر کھتری نہیں بن سکتا‘ کوئی کھتری برہمن نہیں ہو سکتا۔ ہاں سیاسی اغراض کے لیے شودر کو کچھ ظاہر داری کا سہارا مل جائے تو الگ بات ہے یا مہاتما گاندھی کو خودکشی سے بچانے کے لیے اسے وقتی طور پر پیار دیا جاسکتا ہے مگر شودر کبھی ہندو کی سماجی زندگی میں برابر کا شریک نہیں ہوسکتا‘ کبھی نہیں ہو سکتا۔ شدھ ہو جائے یا کچھ اور۔ دوسری رکاوٹ اچھوتوں کو چھوت بنانے کے راستے میں یہ ہے کہ ایک انسان کا دوسرے انسان کو شدھ یا پوتر یعنی پاکیزہ بنانے کا عمل کبھی مقبولیت حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کا خیال بھی دانش کی توہین ہے۔ مذہب کی تبدیلی خدا اور بندے کا اپنا معاملہ ہے کیا یہ محض جسارت نہیں کہ ایک انسان اپنے جیسے دوسرے انسان کو شدہ یعنی پاکیزہ بنانے کی صلاحیت رکھنے کا دعویدار ہو۔ دوسرے کو پاکیزہ بنانے والے پہلے اپنی پاکیزگی کا ثبوت تو فراہم کریں۔
اس کے برعکس اسلام میں محض اعلانِ اسلام ہی سے برابر کے حقوق مل جاتے ہیں۔ یہاں پاکیزگی یا ناپاکی کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ان حالات میں اچھوتوں کو میرا پیغام یہی ہے کہ وہ اور تدبیریں چھوڑ دیں اور اسلام کی طرف متوجہ ہوں جو ان کے انتظار میں آغوش وا کیے کھڑا ہے۔ وہ یہاں جس کو چاہیں چھوئیں‘ جس کے پاس چاہیں اٹھیں‘ بیٹھیں۔ نماز میں مقتدی بنیں یا امام‘ کسی پر کوئی قدغن نہیں۔ اچھا وہی ہے جو متقی ہے‘ جو اپنے فرائض کو اچھی طرح سرانجام دیتا ہے۔
برادرانِ ملت! میری آخری اور چوتھی وجہ ترجیح یہ ہے کہ اسلام دورِ حاضر کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔ اس عہد کی مشکلات کا حل کسی دوسرے مذہب کے پاس نہیں‘ آج دنیا اخوت اور مساوات چاہتی ہے اور اسلام کے سوا یہ نعمتیں کہاں ہیں؟ اسلام کا معیار فضیلت تقویٰ ہے اور کچھ نہیں۔ سب سے اچھا وہ شخص ہے جس کے اعمال سب سے اچھے ہیں۔ آج دنیا میں حقوق کی پکار ہے۔ شادی کے رشتے ناتے استوار ہو رہے ہیں۔ اسلام عورت کو آزادی اور حقوق دلاتا ہے اور عورت کی ازدواجی تعلق کو عاقلانہ معاہدہ پر قائم کرتا ہے۔ اسلامی قوانین انسانوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ فرشتوں کے لیے نہیں‘ چنانچہ انہی فطری قوانین کا نتیجہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں ہنگامہ پروری‘ تماشا کاری‘ سازباز‘ زنا اور بن بیاہی مائوں جیسے مسائل مفقود ہیں۔
اخوان الاسلام! بنی نوع انسان کے لیے مناسب ترین مذہب اسلام ہے۔ گرجے خالی ہیں اور مساجد اہلِ ایمان سے آباد ہیں۔ اطاعت گزار خاصی بڑی تعداد میں دن میں پانچ مرتبہ خدا کے سامنے سربسجدہ ہوتے ہیں۔ اسلام پھر اسی پرانے رنگ میں اپنے پورے عروج پر آرہا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو اسلام کی طرح دنیا کی اقوام کے اقتصادی اور اخلاقی مسائل کا تسلی بخش حل پیش کرسکے۔ آئو اس مقصد اور غرض کو سرانجام دینے کے لیے جسے آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمارے پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا‘ ہم سب مل کر اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔
عزیز بھائیو! سلسلۂ کلام ختم کرنے سے پہلے میں اپنی اس مسرت کا پھر اعلان کرنا چاہتا ہوں جو میرے دل میں قبولِ اسلام سے موجزن ہے۔ میں خدائے برتر و بالا کے سامنے دست بدعا ہوں کہ وہ مجھے اسلام کی کسی ایسی خدمت کی توفیق عطا کرے جو آپ کی محبت و اخلاص کی طرح عظیم اور رفیع المرتبت ہو۔‘‘
…٭…
وضاحت: گابا صاحب 2 نومبر 1981ء کو بمبئی میں وفات پا گئے۔ وفات سے چند ماہ قبل وہ ضیاء الحق کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے تھے اور سیالکوٹ جا کر اپنے محسن ملک سردار علی مرحوم کے لواحقین سے ملنا چاہتے تھے‘ مگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔

حصہ